اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-09

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ22؍جولائی 2005 بطرز سوال وجواببمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ مہمان کوکبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے
جس سے مہمان کو یہ خیال پیدا ہو کہ آپؐکی میرے کھانے پر نظر ہے تاکہ وہ کبھی سبکی محسوس نہ کرے، شرمندگی محسوس نہ کرے

سوال: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر کن الفاظ میں بیان فرماتا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں اس کو یوںبیان فرمایا ہے کہ جب آپؑکے پاس معزز مہمان آئے تو سب سے پہلا کام جو آپؑنے یہ کیا کہ فَرَاغَ اِلٰی اَھْلِہٖ فَجَآئَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ (الذٰریٰت:27) یعنی وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔ تو آپ نے مہمانوں سے یہ نہیں پوچھا کہ دُور سے آئے ہو یا نزدیک سے آئے ہو، یابھوک لگی ہے یا نہیں لگی، کھانا کھائو گے یا نہیں کھائو گے، بلکہ فوری طور پر گھر کے اندر گئے اور کھانا تیار کروا کر لے آئے۔
سوال: پہلی وحی پر جب رسول کریم ﷺ سخت گھبرا گئے تو اس پر حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐسے کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جب آنحضرتﷺ پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی اور آپؐ بڑے سخت گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ ؓ سے اس گھبراہٹ کا ذکر کیا تو آپؓنے عرض کہ اللہ کی قسم! جیسے آپؐسوچ رہے ہیں ویسے ہرگز نہیںہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپؐکو کبھی بھی رُسوا نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کرتے ہیں ،دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناپید نیکیاں بجا لاتے ہیں، لوگوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفات سماوی کے نازل ہونے پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
سوال: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے اس کو کس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپؐنے فرمایا جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخر ت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔
سوال: آنحضرت ﷺ کے پاس جب کوئی کھانے کی چیز آتی تو آپؐکیا کرتے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب بھی کھانے کی کوئی چیز آتی، تحفہ وغیرہ آتا تو آپ ان لوگوںکو پہلے بلا لیا کرتے جومستقل وہاں پڑے ہوئے تھے۔
سوال: آنحضرت ﷺ کی مہمان نوازی کا کیا عالم تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: آپؐکی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ مہمان کوکبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے جس سے مہمان کو یہ خیال پیدا ہو کہ آپؐکی میرے کھانے پر نظر ہے تاکہ وہ کبھی سبکی محسوس نہ کرے، شرمندگی محسوس نہ کرے بلکہ بعض دفعہ یہ ہوتا کہ اگر مہمان کے ساتھ کھانا کھا رہے ہوتے تو آہستہ آہستہ آپ خود بھی کھاتے رہتے تاکہ مہمان کسی شرمندگی کے بغیر کھاتا رہے۔ لیکن بعض دفعہ یوں بھی ہوا کہ کوئی کافر مہمان ہوا اور ضرورت سے زیادہ خوش خوراکی کا مظاہرہ کیا لیکن آپ نے اظہار نہیں ہونے دیا اور جتنی اس کی خواہش تھی، جتنا وہ پیٹ بھر سکتا تھا اسکے مطابق اس کو خوراک مہیا کی۔
سوال: رسول کریم ﷺ کے پاس جب کافی تعداد میں مہمان آجایا کرتے تو آپؐکیا کرتے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جب کبھی کافی تعداد میں مہمان آ جایا کرتے تھے تو آپؐمہمانوں کو صحابہ میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور صرف انہی میں نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے ساتھ بھی اس طرح تقسیم کرکے لے جاتے تھے۔
سوال: جب مہمانوں کی کثرت کے باعث بستر کم پڑ گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جب مہمانوں کی زیادتی کی وجہ سے بستر بہت کم ہو گئے توآپؑنے اپنے گھر میں جو آخری رضائی تھی وہ بھی مہمانوںکودے دی اور خود ساری رات تکلیف میں گزاری تاکہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مہمان کےدل کو کس چیز سے تشبیہ دی ہے ؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیںکہ مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔
سوال: مہمان نوازی کے کون سے وصف کو دیکھ کر ایک عیسائی مسلمان ہوا تھا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی شخص عیسائی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ حضرت نے اس کی بہت تواضع و خاطر داری کی۔ وہ بہت بھوکا تھا۔ حضرت نے اس کو خوب کھلایا کہ اسکا پیٹ بہت بھر گیا۔ رات کو اپنی رضائی عنایت فرمائی۔ جب وہ سو گیا تو اس کو بہت زور سے دست آیا کہ وہ روک نہ سکا‘‘ (اس بیچارے کا پیٹ خراب ہو گیا) ’’اور رضائی میں ہی کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو اس نے سوچا کہ میری حالت کو دیکھ کر کراہت کریں گے۔ شرم کے مارے وہ نکل کر چلا گیا۔ جب لوگوں نے دیکھا تو حضرت سے عرض کی کہ جو نصرانی عیسائی تھا وہ رضائی کو خراب کر گیا ہے۔‘‘ حضرت نے فرمایا کہ وہ مجھے دو تاکہ میں صاف کروں۔لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ہم جو حاضر ہیں، ہم صاف کر دیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ میرا مہمان تھا، اس لئے میرا ہی کام ہے اور اٹھ کر پانی منگوا کر خود ہی صاف کرنے لگے۔ وہ عیسائی جب ایک کوس نکل گیا تو اسکو یاد آیاکہ اسکے پاس جو سونے کی صلیب تھی وہ چارپائی پر بھول آیا ہوں۔ اس لئے وہ واپس آیا تو دیکھا کہ حضرت اس کے پاخانہ کو رضائی پر سے خود صاف کر رہے ہیں۔ اس کو ندامت آئی اور کہاکہ اگر میرے پاس یہ ہوتی تو میں کبھی اس کو نہ دھوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا شخص کہ جس میں اتنی بے نفسی ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔پھر وہ مسلمان ہو گیا۔
سوال: حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے دور میں آسام کے کچھ مہمان عملے کے رویے سے ناراض ہوکر واپس جانے لگے تو آپ علیہ السلام نےکیا کیا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: ایک دفعہ آسام سے کچھ مہمان آئے اور جب لنگر خانہ میں آکے اترے تو لنگر خانہ کے عملے کے رویّہ کی وجہ سے ناراض ہو کر اسی طرح اسی ٹانگے پہ بیٹھ کے واپس چلے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب پتہ لگا تو آپؑبڑے ناراض ہوئے کہ کیوں ایسی صورت پیدا ہوئی اور فوری طور پر اس طرح کہ جوتے پہننا بھی مشکل تھا جلدی جلدی جوتے پہنے اور ان کے پیچھے تیز تیز قدموں سے گئے حالانکہ وہ تانگے پرتھے دور نکل چکے تھے لیکن آپؑپیدل ان کے پیچھے پیچھے گئے اورروایت میں آتا ہے کہ نہر پہ پہنچ کے آپ نے ان کو وہاں روک لیا اور پھر ان کو واپس لے کر آئے۔ پھر مہمانوں کو کہاکہ آپ ٹانگے پر بیٹھ کر چلیں مَیں پیدل چلتا ہوں۔ بہرحال اس خُلق کو دیکھ کر مہمان بھی شرمندہ تھے۔ وہ شرمندگی سے کہیں، نہیں حضور ہم تو نہیں بیٹھیں گے ساتھ ہی چلے۔
سوال: مہمانوں کی مہمان نوازی کی بابت انبیاء کی کیا سنت رہی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری سنت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میزبان جس کے گھر مہمان آیا ہو اعزاز و تکریم کے ارادے سے، اس نیت سے کہ اس نے مہمان کو عزت دینی ہے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک الوداع کہنے کیلئے آئے۔ تو الوداع کہنے کیلئے باہر چھوڑنے کیلئے آپؐباہر دروازے تک آیا کرتے تھے۔
…٭…٭…٭…