اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-16

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ29؍جولائی 2005 بطرز سوال وجواببمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ایک مومن مہمان اپنے ساتھ برکتیں لے کر آتا ہے اس لئے ہمیشہ ایسا مہمان بننا چاہئے جوبرکتیں لانے والا مہمان ہو اور کبھی ایسےمہمان نہ بنیں جو گھر والوں کیلئے پریشانی کاباعث ہوں

سوال:دوسرے کے گھر میں جانے سے پہلے کس چیز کو مد نظر رکھنا ضروری ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:عموماً معاشرے میں، خاص طور پر ہمارے ملکوں میں یہ ہوتا ہے کہ اچانک بہت سے مہمان آ گئے۔ گھر والے پریشان ہیںکہ کیاکریں۔ بعض دفعہ ایسے حالات نہیں ہوتے کہا ان کی اچھی طرح خدمت کر سکیں اس لئے فرمایا کہ لَاتَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا(النور:28) کہ اپنے گھروں کے سوادوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم اجازت لے لو، ان کے رہنے والوں پر سلام بھیجو۔ اجازت کے جو طریقے سکھائے گئے ہیں یہ گھر پہنچ کر ہی نہیں بلکہ آجکل کے زمانے میں تو دور بیٹھ کر بھی اجازت لی جا سکتی ہے۔
سوال:جب کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اس کو کس بات کو مدنظر رکھناچاہئے؟
جواب:حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرے اور اگر روزہ سے ہے تو حمد و ثنا اور دعا کرتا رہے اور معذرت کرے۔ اور اگر روزے دار نہیں تو جو کچھ پیش کیا گیا خوشی سے کھائے۔
سوال:مہمانوں کا خیال رکھتے ہوئے کھانے کو کس طرح کھایاجائے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین کیلئے کافی ہے اور تین کا کھانا چار کیلئے کافی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک آدمی کا کھانا دو کیلئے او ر دو کا چار کیلئے اور چارکا آٹھ کیلئے کافی ہے۔
سوال:اگر جلسہ کے دنوں کھانے میں کمی آجائے تو مہمانوں کو کس چیز کا مظاہرہ دیکھانا چاہئے؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جلسہ کے دنوں میں بعض اوقات ایسے ہو جاتا ہے کہ کھانے میں وقتی طور پر کمی آ جاتی ہے۔ اس لئے ایک تو یہ کہ کھانا کھانے والوں کو، مہمانوں کو اس وقت صبر سے کام لینا چاہئے۔
سوال:ربوہ میں جب روٹی پکانے والوں نے ہڑتال کر دی تو کیا واقعہ رونما ہوا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ایک دفعہ ربوہ میں روٹی پکانے والوں نے ہڑتال کر دی یا پیڑے بنانے والوں نے کام سے انکار کر دیا۔روٹی کے پیڑے وہاں مشین سے نہیں بنتے۔ ایک دفعہ عین موقعے پر بڑی دِقّت پیدا ہو گئی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ویسے تو جماعت کے افراد کو ہنگامی حالات سے نپٹنے کا بڑا ملکہ دیا ہوا ہے اور جب بھی کوئی ایسے حالات پیدا ہوں ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت ایک تو یہ اعلان فرمایا کہ ہر شخص دو روٹیوں کی بجائے (کیونکہ فی کس عموماً دو روٹیوں کا اندازہ رکھا جاتا ہے) ایک کھائے۔ او رپھر ربوہ کے گھروں کو کہا کہ تم روٹیاں بنا کر بھجوائو۔ گھروں سے مختلف سائزوں کی روٹیاں آنی شروع ہو گئیں جو تقسیم کیلئے لنگر خانوںمیں آجاتی تھیں، وہاں سے تقسیم ہو جاتی تھیں۔ گو اسکے بعد فوری طور پر حالات ٹھیک بھی ہو گئے۔ لیکن اس ارشادکی وجہ سے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا ان دنوں میں میرا خیال یہی ہے کہ تقریباً سارا جلسہ ہی لوگوں نے ایک روٹی پر گزارا کیا اور یوں اپنی خوراک نصف کر لی اور دو کے کام آ گئی۔
سوال:مہمانوں کی مہمان نوازی کب تک کرنی چاہئے؟
جواب:ا ٓنحضرت ﷺ نےمیزبانوں کو فرمایا کہ تم نے مہمان نوازی کرنی ہے اور ایک دن رات تو اچھی طرح کرنی ہے اور پھر عمومی مہمان نوازی ہے جو تین دن رات تک چلے گی اور فرمایا کہ اس سے زائد جو ہے وہ صدقہ ہے۔
سوال:مہمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا؟
جواب:آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا ہے جس پر اگر عمل کیاجائے تو دونوں طرف کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی تکریم کرے۔ اس کی پر تکلف مہمان نوازی ایک دن رات ہے جبکہ عمومی مہمان نوازی تین دن تک ہے۔ اور تین دن سے زائد صدقہ ہے۔ مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اتنا عرصہ میزبان کے پاس ٹھہرا رہے کہ جو اس کو تکلیف میں ڈال دے۔
سوال:ہمارے معاشرے میں کس رواج کے باعث میزبان کو طرح طرح کی مشکلات پیدا ہوتی ہیں؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمارے معاشرے میں، برادریوں میں یہ رواج ہے کہ جان بوجھ کر کسی پر مہمان نوازی کا بوجھ ڈال دو اور خاص طور پر غیر احمدی معاشرہ میں جب کسی کی موت وغیرہ ہو تو اس پر بڑا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ ایک تو اس بے چارے غریب آدمی کا کوئی عزیز رشتہ دار فوت ہو جاتا ہے اس پر مزید کھانے وغیرہ کابڑا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ صرف اس لئے کہ دیکھیں کس حد تک یہ مہمان نوازی کرتا ہے ۔
سوال:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہمیں کس طرح کا مہمان بننے کو کہا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ایک مومن مہمان اپنے ساتھ برکتیں لے کر آتا ہے اس لئے ہمیشہ ایسا مہمان بننا چاہئے جوبرکتیں لانے والا مہمان ہو اور کبھی ایسے مہمان نہ بنیں جو گھر والوں کیلئے پریشانی کاباعث ہوں بلکہ ان کو پریشانی سے نکالنے والے ہوں۔
سوال:اگر مہمان گھر اچانک سے آجائےتو میزبان کو کھانا کس طریق کر تقسیم کرنا چاہئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کھانا گھر والے نے تھوڑا پکایا اور مہمان اچانک آ گئے تو اس وقت مل جل کر کھانا چاہئے۔کوشش کرنی چاہئے کہ ایک تواحتیاط سے کھائیں اور کھانا ضائع نہ ہو۔
سوال:مہمان کب میزبان کیلئے زحمت کا باعث بنتا ہے؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مہمان رحمت ہوتا ہےگھر والوں پر بوجھ ڈالنے والے کی وجہ سے وہ مہمان گھر والوں کیلئے رحمت کی بجائے زحمت بن جاتا ہے۔
سوال:ذکر الٰہی کے نکتے کو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے کن الفاظ میں بیان فرمایا:
جواب:حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک اور خیال آیا اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ جلسے کے ایام میں ذکر الٰہی کرو۔ اسکا فائدہ خداتعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اُذْکُرُوااللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ اگر تم ذکر الٰہی کرو گے تو خدا تمہارا ذکر کرنا شروع کر دے گا۔ بھلا اس بندے جیسا خوش قسمت کون ہے جس کو اپنا آقا یاد کرے اور بلائے۔ ذکر الٰہی تو ہے ہی بڑی نعمت خواہ اس کے عوض انعام ملے نہ ملے۔ پس تم ذکر الٰہی میں مشغول رہو۔
…٭…٭…٭…