اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ7؍اپریل 2023 بطرز سوال وجواب

 

قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کر کے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب ِکمال ہو گیا
بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاقِ فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہےکہ اس سے ایسے اعمال و افعال سرزد ہوں
جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور انکا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)

 

سوال: قرآن کریم کامل ہدایت کا سرچشمہ ہے اسکے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : قرآن شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کر کے سمجھ لے کہ بس اب میں صاحب ِکمال ہو گیا۔بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاقِ فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہےکہ اس سے ایسے اعمال و افعال سرزد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور ان کا نتیجہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے۔

سوال:قرآن مجید نے اپنی فصاحت اور بلاغت سے کیا اثر ڈالا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :فرقان مجید نے اپنی فصاحت اور بلاغت کو صداقت اور حکمت اور ضرورت حقّہ کے التزام سے ادا کیا ہے اور کمال ایجاز سے تمام دینی صداقتوں پر احاطہ کر کے دکھایا ہے۔ چنانچہ اس میں ہر یک مخالف اور منکر کے ساکت کرنے کیلئے براہین ساطعہ بھری پڑی ہیں اور مؤمنین کی تکمیلِ یقین کیلئے ہزارہا دقائق حقائق کا ایک دریائے عمیق و شفاف اس میں بہتا ہوا نظر آ رہاہے۔ جن امور میں فساد دیکھا ہے انہیں کی اصلاح کیلئے زور مارا ہے۔ جس شدت سے کسی افراط یا تفریط کا غلبہ پایا ہے اسی شدت سے اس کی مدافعت بھی کی ہے۔ جن انواع اقسام کی بیماریاں پھیلی ہوئی دیکھی ہیں ان سب کا علاج لکھا ہے۔ مذاہب باطلہ کے ہر ایک وہم کو مٹایا ہے۔ہر ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔ کوئی صداقت نہیں جس کو بیان نہیں کیا۔ کوئی فرقہ ضالّہ نہیں جس کا ردّ نہیں لکھا۔اور پھر کمال یہ کہ کوئی کلمہ نہیں کہ بلا ضرورت لکھا ہو۔اور کوئی بات نہیں کہ بے موقع بیان کی ہو اور کوئی لفظ نہیں کہ لغو طور پر تحریر پایا ہواور پھر باوصف التزام ان سب امور کے فصاحت کا وہ مرتبہ کامل دکھلایا جس سے زیادہ تر متصور نہیںاور بلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ کمال حسن ترتیب اور موجز اور مدلل بیان سے علم اوّلین اور آخرین ایک چھوٹی سی کتاب میں بھر دیا۔تا کہ انسان جس کی عمر تھوڑی اور کام بہت ہیں بیشمار درد سر سے چھوٹ جائے اور تا اسلام کو اس بلاغت سے اشاعت مسائل میں مدد پہنچے اور حفظ کرنا اور یاد رکھنا آسان ہو۔

سوال: کیاقرآن کریم کا زمانہ کامل تعلیم کا مقتضی ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطاکی ہے اورقرآن شریف کاہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی۔پس یہ دعویٰ کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اسی کاحق تھا اس کے سواکسی آسمانی کتاب نے ایسا دعوی نہیں کیا۔

سوال: مومن کون ہوتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :ہمارے نزدیک تو مومن وہی ہے جو قرآن شریف کی سچی پیروی کرے اور قرآن شریف ہی کو خاتم الکتب یقین کرے۔ اور اسی شریعت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے تھے اسی کو ہمیشہ تک رہنے والی مانے اور اس میں ایک ذرہ بھر اور ایک شوشہ بھی نہ بدلے اور اس کی اتباع میں فنا ہو کر اپنا آپ کھو دے اور اپنے وجود کا ہر ذرہ اسی راہ میں لگائے عملاً اور علماً اس کی شریعت کی مخالفت نہ کرے تب پکا مسلمان ہوتا ہے۔

سوال: قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف ایسے زمانے میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں تھیں یعنی تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے اور ہر ایک قسم کا افراط اور تفریط اور ہر ایک نوع کا فساد اپنے انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی۔ پس انہی معنوں سے شریعت فرقانی مختتم اور مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کیلئے الہامی کتابیں آئیں وہ بھی انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور قرآنِ شریف کے وقت میں وہ سب اپنے انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ بہت سے بچے یا نوجوانی میں قدم رکھنے والے لوگ سوال کرتے رہتے ہیں ان کیلئے جواب ہے کہ پہلے وہ باتیں انتہا کو نہیں پہنچی تھیں یہاں انتہا کو بھی پہنچ گئیں۔ اس لیے تعلیم بھی انتہا کو پہنچ گئی۔ اس لیے قرآن کریم نازل ہوا اور اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اسلام کی بنیاد پڑی۔ پس اب قرآن شریف اور دوسری الہامی کتابوں میں فرق یہ ہے کہ فرمایا پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی وہ بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا۔ ان کے سامنے بعض باتیں آئی ہی نہیں تھیں تو وہ بیان کس طرح کرتے۔ اسکی تعلیم ناقص تھی اس لیے قرآن مجید کا ظہور ہونا ضروری تھا۔ فرمایا مگر قرآن شریف کیلئے اب یہ ضرورت پیش نہیں کہ اسکے بعد کوئی اَور کتاب بھی آوے۔

سوال: نجات کے واسطے کیا ضروری ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : نجات کے واسطے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا ہے وہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اوّل سچے دل سے اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک سمجھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی یقین کرے اور قرآن شریف کو کتاب اللہ سمجھے کہ وہ ایسی کتاب ہے کہ قیامت تک اب اَور کوئی کتاب یا شریعت نہ آئے گی یعنی قرآنِ شریف کے بعد اب کسی کتاب یا شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال: حضرت مسیح موعود ؑنے کس پر خدا کی لعنت بھیجی ؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میرے نزدیک خدا کی لعنت اس پر جو قرآن کے اعجاز کا انکار کرتا اور اپنے کلام اور نظام کو بجائے خود کوئی مستقل شے سمجھتا ہے اور خدا کی قسم! ہم تو اسی چشمہ سے پیتے اور اس کی زینت سے آراستہ ہوتے ہیں اسی سبب سے تو ہمارے کلام میں نور اور صفا ہوتی اور ہماری گویائی میں روشنی اور شفا اور تازگی اور خوبصورتی چمکتی ہے اور مجھ پر قرآن کے سوا اَورکسی کا احسان نہیں اور اس نے میری ایسی پرورش کی ہے کہ ویسی ماں باپ بھی تو نہیں کرتے اور خدا نے مجھے اس سے خوشگوار پانی پلایا اور ہم نے اس کو روشن کرنے والا اور مددگار پایا۔

سوال: قرآن کریم کی کامل تعلیم کا اعلان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کوکیا چیلنج کرتےہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی کامل تعلیم کا اعلان کرتے ہوئے دنیا کو چیلنج دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارا خداوند کریم کہ جو دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے اس بات پر گواہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ذرہ کا ہزارم حصہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کے اپنی کسی کتاب کی ایک ذرہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کر سکے کہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو اور اس سے بہتر ہو تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو تیار ہیں۔

…٭…٭…٭…