اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ31؍مارچ2023بطرز سوال وجواب

 

رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے
وہ قرآن جو تمام انسانوں کیلئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے جو ہدایت پیدا کرتے ہیں ا ور الٰہی نشانات بھی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جبرائیل علیہ السلام قرآن کریم کا دَور رمضان میں مکمل کیا کرتے تھے اور آخری سال میں دو مرتبہ یہ دَور مکمل ہوا

 

سوال: اگر ہمیں رمضان کا حقیقی فیض اٹھانا ہے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اگر ہم نے رمضان کا حقیقی فیض اٹھانا ہے تو ہمیں عبادتوں کے ساتھ قرآنِ کریم کی تلاوت اور اس پر غور کی طرف بھی خاص توجہ دینی چاہئے۔

سوال: جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ اسکا ترجمہ اور اس کی تفسیر پڑھیں گے تو کیا ہوگا؟
جواب: حضور انور ایدہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ اسکا ترجمہ اور اسکی تفسیر پڑھیں گے اور سنیں گے تب ہی ہم ان احکامات کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں جو اس میں بیان ہوئے ہیں انہیں اپنی زندگیوں کاحصہ بنا سکتے ہیں ، اپنی زندگی کو قرآنی تعلیم کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں۔

سوال:اگر روزوں کا حقیقی فیض اٹھانا ہے تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اگر روزوں کا حقیقی فیض اٹھانا ہے تو عبادتوں کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے سننے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہونی چاہئے ۔

سوال: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رمضان المبارک کے متعلق کیا کہا ہے؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ(البقرۃ:186)رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے۔ وہ قرآن جو تمام انسانوں کیلئے ہدایت بنا کر بھیجا گیا ہے جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور الٰہی نشانات بھی۔

سوال: رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن کریم کا دَور کتنی بار کیا کرتے تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: آنحضرت ﷺکے ساتھ جبرائیل علیہ السلام قرآن کریم کا دَور رمضان میں مکمل کیا کرتے تھے اور آخری سال میں دو مرتبہ یہ دَور مکمل ہوا۔

سوال:قرآن کریم مستقل اور ابدی شریعت ہے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور احکام دو قسم کے ہوتے ہیں بعض مستقل اور دائمی ہوتے ہیں، بعض آنی اور وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں اگرچہ اپنی جگہ ان میں بھی ایک استقلال ہوتا ہے۔مگر وہ آنی ہی ہوتے ہیں۔ مثلاً سفرکیلئے نماز یا روزہ کے متعلق اَور احکام ہوتے ہیں اور حالت قیام میں اَورباہر جب عورت نکلتی ہے تو وہ برقع لے کر نکلتی ہے۔گھر میں ایسی ضرورت نہیں ہوتی کہ برقع لے کر پھرتی رہے۔ توریت اور انجیل کے احکام آنی اور وقتی ضرورتوں کے موافق تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت اور کتاب لے کر آئے تھے وہ کتاب مستقل اور ابدی شریعت ہے اسلئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور مکمل ہے۔ قرآن شریف قانونِ مستقل ہے اور توریت انجیل اگر قرآن شریف نہ بھی آتا تب بھی منسوخ ہو جاتیں کیونکہ وہ مستقل اور ابدی قانون نہ تھے۔

سوال: قرآنِ کریم کی مستقل شریعت ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں ۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آ سکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہی فیوضات اور برکات کے ثبوت کیلئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔

سوال:قرآنِ کریم کا نام’’ذکر‘‘کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : قرآنِ کریم کا نام ذِکر اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے۔قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاد دلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے۔ حلم ہے، ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے، غضب ہے، قناعت ہے وغیرہ۔ غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا۔ جیسے فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ(الواقعہ: 79)یعنی صحیفۂ فطرت میں کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا ‘‘’’اسی طرح اس کتاب کا نام ذِکر بیان کیا تاکہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نورِ قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے، یاد دلاوے۔ غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بھیج کر بجائے خود ایک روحانی معجزہ دکھایا۔وہ زمانہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اور قرآن کے نزول کا۔ جب وہ دنیا سے گمشدہ صداقتوں کو یاد دلانے کیلئے آیا تھا۔ اب وہ زمانہ آ گیا جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی کہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے قرآن نہ اترے گا۔ سو اب تم ان آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ لوگ قرآن کیسی خوش الحانی اور عمدہ قراءت سے پڑھتے ہیں لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں گزرتا۔اس لئے جیسے قرآن کریم جس کا دوسرا نام ذِکر ہے اس ابتدائی زمانہ میں انسان کے اندر چھپی ہوئی اور فراموش شدہ صداقتوں اور ودیعتوں کو یاد دلانے کیلئے آیا تھا۔اللہ تعالیٰ کے اس وعدۂ واثقہ کی رو سے کہ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)اس زمانہ میں بھی آسمان سے ایک معلم آیا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعہ:4) کا مصداق اور موعود ہے وہ وہی ہے جو تمہارے درمیان بول رہا ہے۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے کیا محاسن بیان فرمائے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:یہ خوبی قرآنی تعلیم میں ہے کہ اسکا ہر ایک حکم مُعَلَّلْ بِاَغْرَاض وَمَصَالِح ہے۔اور اسلئے جابجا قرآن کریم میں تاکید ہے کہ عقل، فہم، تدبر، فقاہت اور ایمان سے کام لیا جائے اور قرآنِ مجید اور دوسری کتابوں میں یہی مابہ الامتیاز ہے اور کسی کتاب نے اپنی تعلیم کو عقل اور تدبر کی دقیق اور آزاد نکتہ چینی کے آگے ڈالنے کی جرأت ہی نہیں کی۔

سوال:قرآن شریف ساری تعلیموں کا مخزن ہے، ایک خزانہ ہے اسکےمتعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں ؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآنِ شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآنِ شریف کا پہلا معجزہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسر امعجزہ قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں چنانچہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ تحریم اور سورۂ نور میں کتنی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان پر اگر ایک دانشمند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدر غیب کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہیں۔ کیا اس وقت جبکہ ساری قوم آپؐکی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(القمر:46) چھوٹی بات ہو سکتی تھی۔اسباب کے لحاظ سے تو ایسا فتویٰ دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا۔مگر آپؐایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں اور آخراسی طرح وقوع میں آتا ہے۔

سوال: کیا قرآن شریف ایک محفوظ کتاب ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ(الواقعہ:78تا80)بلکہ یہ سارا صحیفہ قدرت کے مضبوط صندوق میں محفوظ ہے۔ اس کا وجود کاغذوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب میں ہے جس کو صحیفہ ٔفطرت کہتے ہیں ۔ یعنی قرآن کی ساری تعلیم کی شہادت قانونِ قدرت کے ذرہ ذرہ کی زبان سے ادا ہوتی ہے۔ اس کی تعلیم اور اس کی برکات کتھا کہانی نہیں جو مٹ جائیں ۔

…٭ …٭…٭…