خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ فرمودہ19؍اگست2022بطرز سوال وجوابب
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے صحابہ کرام سے فرمایا :اللہ کی نعمتیں بےشمار ہیں، اعمال ان کا بدلہ نہیں ہو سکتے، اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرو کہ اس نے تم پر احسان کیا اور تمہیںایک کلمہ پر جمع کیا اور تمہارے درمیان صلح کروائی، تمہیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور تم سے شیطان کو دور کیا
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصاف حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ
خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ19؍اگست2022بطرز سوال وجواببمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
سوال: حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہونے کے بعد کیا منصوبہ کیا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:جب حضرت ابوبکر صدیقؓ باغی مرتدین کی سرکوبی سے فارغ ہو گئے اور عرب مستحکم ہو گیا تو آپؓنے بیرونی جارحیت کے مرتکب مخالفین میں سے اہلِ روم سے جنگ کرنے کے متعلق سوچا۔
سوال: حضور انور نے حضرت شُرَحْبِیل کی کس خواب کا ذکر کیا ؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت شُرَحْبِیلنے خواب دیکھاکہ حضرت ابوبکرؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دشوار گزار پہاڑی راستے پر چل رہے ہیں۔ پھر آپؓایک بلند چوٹی پر چڑھ گئے اور لوگوں کی طرف دیکھا اور آپؓ کے ساتھ آپؓ کے ساتھی بھی ہیں۔ پھر آپؓ اس چوٹی سے اتر کر ایک نرم زرخیز زمین میں آ گئے جس میں فصلیں، چشمے، بستیاں اور قلعے موجو دہیں اور آپؓنے مسلمانوں سے فرمایا کہ مشرکین پر حملہ کر دو۔ مَیں تمہیں فتح اور مالِ غنیمت کے حصول کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس پر مسلمانوں نے حملہ کر دیا اور مَیں بھی جھنڈے کے ساتھ اس لشکر میں شامل تھا۔ میں ایک بستی کی طرف گیا تو اس کے رہنے والوں نے مجھ سے امان طلب کی۔ میں نے انہیں امان دے دی۔ پھر میں آپؓکے پاس واپس پہنچا تو آپ ایک عظیم قلعہ تک پہنچ چکے تھے۔ آپؓکو فتح عطا کی گئی۔ انہوں نے آپؓ سے صلح کی درخواست کی۔ پھر آپؓکیلئے ایک تخت رکھا گیا۔ آپؓاس پر تشریف فرما ہو گئے۔ پھر آپؓسے ایک کہنے والے نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ نے آپؓکو فتح سے نوازا ہے اور آپؓکی مدد کی ہے لہٰذا آپؓ اپنے رب کا شکر ادا کریں اور اسکی اطاعت کرتے رہیں۔ پھر اس شخص نے ان آیات کی تلاوت کی کہ اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللہِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہُ۰ۭؔ اِنَّہٗ كَانَ تَوَّابًایعنی جب اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتح آئے گی اور تُو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔ پس اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر اور اس سے مغفرت مانگ۔ یقیناًوہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔ کہتے ہیں اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ لمبی خواب تھی۔
سوال: حضرت ابوبکرؓ نےحضرت شُرَحْبِیلکی خواب کی کیا تعبیر کی ؟
جواب: حضرت ابوبکرؓنےحضرت شُرَحْبِیل کی خواب سن کے فرمایا کہ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے اور اچھا ہی ہو گا ان شاء اللہ۔ اس خواب میںتم نے فتح کی خوشخبری اور میری موت کی اطلاع بھی دی ہے یہ بات کہتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپؓنے فرمایا، رہا وہ پتھریلا علاقہ جس پر چلتے ہوئے ہم پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے تھے اور وہاں سے نیچے جھانک کر لوگوں کو دیکھا تھا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس لشکر کے معاملہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان لشکر والوں کو بھی مصیبت جھیلنی پڑے گی۔ اسکے بعد پھر ہمیں غلبہ اور استحکام حاصل ہو جائے گا اور جہاں تک ہمارا پہاڑ کی چوٹی سے اتر کر زرخیز زمین کی طرف جانے کا تعلق ہے جس میں سرسبز و شاداب فصلیں، چشمے، بستیاں اور قلعے تھے تو اس سے مراد یہ ہے کہ ہم پہلے سے زیادہ آسانی پائیں گے جس میں خوشحالی اور فراخی ہو گی اور ہمیں پہلے سے زیادہ زرخیز زمین میسر آئے گی۔ جہاں تک میرا مسلمانوں کو یہ حکم دینے کا تعلق ہے کہ دشمن پر حملہ کرو، مَیں فتح اور مالِ غنیمت کی ضمانت دیتا ہوں تو اس سے مراد میرا مسلمانوں کو مشرکین کے ممالک کی طرف بھیجنا اور انہیں جہاد پر ابھارنا ہے۔ اور جہاں تک اس جھنڈے کا تعلق ہے جو تمہارے پاس تھا جس کو تم لے کر ان بستیوں میں سے ایک بستی کی طرف گئے اور اس میں داخل ہوئے اور وہاں کے لوگوں نے تم سے امان طلب کی اور تم نے انہیں امان دے دی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس علاقے کو فتح کرنے والے امرا میں سے ایک ہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں فتح دے گا اور رہا وہ قلعہ جسے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے فتح کرایا تو اس سے مراد وہ علاقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ میرے لیے فتحیاب کرے گا اور جہاں تک اس تخت کا تعلق ہے جس پر تُو نے مجھے بیٹھا ہوا دیکھا تو اسکی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے عزت و رفعت سے نوازے گا اور مشرکین کو ذلیل و رسوا کرے گا اور جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے جس نے مجھے نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیا اور میرے سامنے سورۂ نصر کی تلاوت کی تو اس طرح اس نے مجھے میری موت کی خبر دی ہے۔ یہی سورت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپؐکو علم ہو گیا تھا کہ اس سورت میں آپؐکی وفات کی خبر دی جا رہی ہے۔
سوال: جب حضرت ابوبکر نے شام کی فتح کے لئے لشکر تیار کرنے کا ارادہ کیا تو کن سے مشورہ طلب کیا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت ابوبکرؓ نے شام کی فتح کیلئے لشکر تیار کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مشورے کیلئے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور اہلِ بدر میں سے کبار مہاجرین و انصار نیز دیگر صحابہؓ کو طلب کیا۔
سوال: حضرت ابوبکر نے شام کے لشکر کو تیار کرنے کی بابت صحابہ سے کیا فرمایا؟
جواب: حضرت ابوبکر صدیقؓ نے صحابہ کرام سے فرمایا :اللہ کی نعمتیں بےشمار ہیں، اعمال ان کا بدلہ نہیں ہو سکتے، اس بات پر اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرو کہ اس نے تم پر احسان کیا اور تمہیں ایک کلمہ پر جمع کیا اور تمہارے درمیان صلح کروائی، تمہیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور تم سے شیطان کو دور کیا۔
سوال: ملک شام کی فتوحات کے سلسلہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سب سے پہلے کس کو روانہ کیا؟
جواب: حضورانور نے فرمایا:ملک شام کی فتوحات کے سلسلہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے حضرت خالد بن سعید ؓکو روانہ فرمایا۔
سوال: حضرت ابوبکر نے رومیوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے کن کن لوگوں کو جہاد کی ترغیب دلائی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے رومیوں کے خلاف جنگ کیلئے اہل مدینہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے مسلمانوں کو بھی تیار کرنا شروع کیا اور انہیں جہاد میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی۔
سوال: حضرت خالد بن سعیدؓنے جب حضرت ابوبکرؓ کو رومیوں کی تیاری کے متعلق لکھا تو حضرت ابوبکر ؓ نے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے جواباً لکھا کہ تم پیش قدمی کرو اور ذرا مت گھبراؤ اور اللہ سے مدد طلب کرو۔ اس پر حضرت خالد بن سعیدؓ رومیوں کی طرف بڑھے مگر جب آپؓان کے قریب پہنچے تو وہ اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے اور انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا۔
سوال: حضرت شُرَحْبِیل بن حسنہ کون تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت شُرَحْبِیل بن حسنہؓ کے والد کا نام عبداللہ بن مُطَاع اور والدہ کا نام حَسَنہ تھا۔ آپ کی کنیت ابوعبداللہ تھی اور حضر ت شُرَحْبِیلؓ کے والد ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور یہ اپنی والدہ حسنہ کے نام پر شرحبیل بن حسنہ کہلائے۔ حضر ت شُرَحْبِیلؓ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ خلافتِ راشدہ میں یہ مشہور سپہ سالاروں میں سے ایک تھے۔ اٹھارہ ہجری میں سڑسٹھ سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔
سوال: جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ اور ربیعہ بن عامرکیلئے جھنڈا باندھا توآپؓنےربیعہ بن عامرکو کیا فرمایا ؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزید بن ابوسفیانؓکیلئے جھنڈا باندھا تو ربیعہ بن عامر کو بلایا اور ان کیلئے بھی ایک جھنڈا باندھا اور انہیں فرمایا کہ تم یزید بن ابوسفیان کے ساتھ جاؤ گے۔ ان کی نافرمانی اور مخالفت نہ کرنا۔ پھر آپؓنے حضرت یزید بن ابوسفیانؓ سے فرمایا اگر تم اپنے مقدمۃ الجیش کی نگرانی ربیعہ بن عامر کے سپرد کرنا مناسب سمجھو تو ضرور ایسا کرنا۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت یزید کو کیا وصیت فرمائی؟
جواب: حضرت ابوبکر نے فرمایا: اے یزید! میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، اسکی اطاعت کرنے، اسکی خاطر ایثار کرنے اور اس سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔ جب دشمن سے تمہاری مڈھ بھیڑ ہو اور اللہ تمہیں فتح نصیب کرے تو تم خیانت نہ کرنا اور مثلہ نہ کرنا یعنی لوگوں کی، مقتولوں کی شکلیں نہ بگاڑنا اور تم بدعہدی نہ کرنا اور نہ ہی بزدلی دکھانا اور کسی چھوٹے بچے کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بوڑھے کو اور نہ ہی کسی عورت کو اور نہ کھجور کے درخت کو جلانا اور نہ ہی انہیں تباہ و برباد کرنا اور کسی پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ تم کسی جانور کو ذبح نہ کرنا سوائے کھانے کیلئے۔ بلاوجہ جانوروں کو بھی ذبح نہیں کرنا یا مارنا نہیں۔
سوال: حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓکون تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کا نام عامر بن عبداللہ تھا اور ان کے والد کا نام عبداللہ بن جراح تھا۔ حضرت ابوعبیدہؓ اپنی کنیت کی وجہ سے زیادہ مشہور ہیں جبکہ آپؓکے نسب کو آپ کے دادا جَرَّاح سے جوڑا جاتا ہے۔ آپ ان دس صحابہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ جنہیں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔ ان کی وفات اٹھارہ ہجری میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر اٹھاون سال تھی۔
…٭…٭…٭…