سوال:قرآن کریم کے نزدیک مذہب کا منصب اور انسانی قویٰ پر اس کا تصرف کیا ہونا چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : یہ سوال کہ مذہب کا تصرف انسانی قویٰ پر کیا ہے انجیل نے اسکا کوئی جواب نہیں دیا۔کیونکہ انجیل حکمت کے طریقوں سے دور ہے۔ لیکن قرآنِ شریف بڑی تفصیل سے بار بار اس مسئلہ کو حل کرتا ہے کہ مذہب کا یہ منصب نہیں ہے کہ انسانوں کی فطرتی قویٰ کی تبدیل کرے اور بھیڑئیے کو بکری بنا کر دکھلائے بلکہ مذہب کی صرف علت غائی یہ ہے کہ جو قویٰ اور ملکات فطرتاً انسان کے اندر موجود ہیں۔انکو اپنے محل اور موقعہ پر لگانے کی لئے رہبری کرے۔ مذہب کا یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی فطرتی قوت کو بدل ڈالے۔ ہاں یہ اختیار ہے کہ اسکو محل پر استعمال کرنے کیلئے ہدایت کرے اور صرف ایک قوت مثلاً رحم یا عفو پر زور نہ ڈالے بلکہ تمام قوتوں کے استعمال کیلئے وصیت فرمائے۔کیونکہ انسانی قوتوں میں سے کوئی بھی قوت بری نہیں بلکہ افراط اورتفریط اور بداستعمالی بری ہے اور جو شخص قابل ملامت ہے وہ صرف فطرتی قویٰ کی وجہ سے قابل ملامت نہیں بلکہ انکی بداستعمالی کی وجہ سے قابل ملامت ہے۔
سوال: قرآن کریم کی تعلیمات کس طرح کی ہیں ؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:یہ بات واقعی سچ ہے کہ جو مسلمان ہیں یہ قرآن شریف کو بالکل نہیں سمجھتے لیکن اب خدا کا ارادہ ہے کہ صحیح معنے قرآن کے ظاہر کرے۔ خدا نے مجھے اسی لئے مامور کیا ہے اور میں اسکے الہام اور وحی سے قرآنِ شریف کو سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کی ایسی تعلیم ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں آ سکتا اور معقولات سے ایسی پُر ہے کہ ایک فلاسفر کو بھی اعتراض کا موقع نہیں ملتا۔
سوال:قرآن کریم پر تدبر کی طرف توجہ دلاتے ہوئےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسم اور بدعات سے پرہیز بہتر ہے۔ اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے۔ بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تد برمیں لگاو ے۔
سوال: دل کو سخت سے نرم کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دل کی اگر سختی ہو تو اسکو نرم کرنے کےلیے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی با ر بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہو تی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے۔ پھر آگے چل کراَور قسم کا چنتا ہے۔ پس چاہیے کہ ہر ایک مقام کے مناسبِ حال فائدہ اٹھاوے۔
سوال: کب تک ہمیں قرآن کریم کا کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:قرآن شریف میں سب کچھ ہے مگر جب تک بصیرت نہ ہو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔
سوال: قرآن مجید کو کیا فخرحاصل ہے؟
جواب: حضرت مسیح ،وعود علیہ السلام فرماتے ہیں :یہ فخر قرآنِ مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہرمرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اُسکے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔
سوال: قرآن کریم کی اغراض کی کون سی دو صورتیں ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:قرآنِ شریف سے اعراض کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ایک صُوری اور ایک معنوی ۔ صُوری یہ کہ کبھی کلام الٰہی کو پڑھا ہی نہ جاوے۔ جیسے اکثر لوگ مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ قرآن شریف کی عبارت تک سے بالکل غافل ہیں اور ایک معنوی کہ تلاوت تو کرتا ہے مگر اسکی برکات وانوارو رحمتِ الٰہی پر ایمان نہیں ہوتا۔
سوال: لوگوں میں کس قدر شرک و بدعت پھیلی ہوئی ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دفعہ ایک شیعہ نے میرے والد صاحب سے کہا کہ میں ایک فقرہ بتلاتا ہوں وہ پڑھ لیا کرو تو پھر طہارت اور وضو وغیرہ کی ضرورت نہیں ہو گی۔اسلام میں کفر وبدعت الحاد زندقہ وغیرہ اسی طرح سے آئے ہیں کہ ایک شخص واحد کی کلام کو اس قدر عظمت دی گئی جس قدر کہ کلام الٰہی کو دی جانی چاہئے تھی۔ صحابہ کرامؓ اسی لئے احادیث کو قرآن شریف سے کم درجہ پر مانتے تھے۔ایک دفعہ حضرت عمرؓ فیصلہ کرنے لگے تو ایک بوڑھی عورت نے اٹھ کر کہاکہ حدیث میں یہ لکھا ہے۔تو آپؓ نے فرمایاکہ میں ایک بڑھیا کے لیے کتا ب اللہ کو ترک نہیں کر سکتا۔
سوال: ایک مومن کی زندگی کا کیا مقصد ہونا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ایک مومن کو اپنی زندگی کا مقصد صرف دنیا کمانا نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کا جو مقصدِ پیدائش بتایا ہے کہ صحیح عابد بن کے رہنا، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا ہمیں اس کی تلاش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ اور خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم بھی اس لیے ہے کہ وہ مال صرف اپنی خواہشات پوری کرنے کیلئے ہی نہ ہو بلکہ اس کو دین کی ترقی، حقوق اللہ اور حقوق العباد کے لیے بھی خرچ کیا جائے۔
سوال: قرآن کریم کی عظمت کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنِ کریم کی عظمت بیان فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی عظمت کے بڑے بڑے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ اس میں عظیم الشان علوم ہیں جو توریت و انجیل میں تلاش کرنے ہی عبث ہیں ۔ اور ایک چھوٹے اور بڑے درجہ کا آدمی اپنے اپنے فہم کے موافق ان سے حصہ لے سکتا ہے۔قرآن شریف میں اول سے آخر تک اوامر و نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے اور کئی سو شاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے کیا محاسن بیان فرمائے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جاننا چاہئے کہ قرآن کریم وہ یقینی اور قطعی کلام الٰہی ہے جس میں انسان کا ایک نقطہ یا ایک شعشہ تک دخل نہیں اور وہ اپنے الفاظ اور معانی کے ساتھ خدائے تعالیٰ کا ہی کلام ہے اور کسی فرقہ اسلام کو اسکے ماننے سے چارہ نہیں۔ اس کی ایک ایک آیت اعلیٰ درجہ کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے وہ وحی متلوّ ہےجس کے حرف حرف گنے ہوئے ہیں۔ وہ بباعث اپنے اعجاز کے بھی تبدیل اور تحریف سے محفوظ ہے۔
سوال: اللہ تعالیٰ انبیاء اور رسل کو کیوں بھیجتا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسل کو اسی لئے بھیجا اور اپنی آخری کتاب قرآن مجید اسلئے نازل فرمائی کہ دنیا اس زہر سے ہلاک نہ ہو بلکہ اسکی تاثیرات سے واقف ہو کر بچ جاوے۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی کیا خوبیاں بیان فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی خوبیاں بیان فرماتے ہیں: قرآن شریف میں دو امر کا التزام اول سے آخر تک پایا جاتا ہے۔ ایک عقلی وجوہ اور دوسری الہامی شہادت۔ یہ دونوں امر فرقان مجید میں دو بزرگ نہروں کی طرح جاری ہیں جو ایک دوسرے کے محاذی اور ایک دوسرے پر اثر ڈالتے چلے جاتے ہیں۔قرآنِ شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بناوے اور انسان سے بااخلاق انسان بناوے اور بااخلاق انسان سے باخدا انسان بناوے۔
سوال: مسلمانوں کی ترقی کس پر مشروط ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے۔ جس قدر وہ قرآن شریف سے دور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جا رہے ہیں۔ قرآنِ شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تجارت، زراعت اور ذرائع معاش سے جو حلال ہوں منع نہیں کیا مگر ہاں اسکو مقصود بالذات قرار نہ دیا جاوے بلکہ اسکو بطور خادمِ دین رکھنا چاہئے۔ زکوٰۃ سے بھی یہی منشا ہے کہ وہ مال خادمِ دین ہو۔
…٭…٭…