یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے
اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے
سوال:حضرت مسیح موعوعد علیہ السلام کا کیا اعجاز بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پروئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی کو دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا لیکن اس کے باوجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت وبلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں۔
سوال:قرآن شریف کو کیا فخر حاصل ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:یہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے اور انکی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے۔
سوال: جب انسان قرآنِ مجید پر ایمان لا کر اسے اپنی ہدایت کے لیے دستور العمل بناتا ہےتو کیا ہوتا ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایاـ: جب انسان قرآنِ مجید پر ایمان لا کر اسے اپنی ہدایت کیلئے دستور العمل بناتا ہے تو وہ ہدایت کے اُن اعلیٰ مدارج اور مراتب کو پالیتا ہے جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ: 3) میں مقصود رکھے ہیں۔ قرآنِ شریف کی اس علت غائی کے تصور سے ایسی لذت اور سرور آتا ہے کہ الفاظ میں ہم اس کو بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور قرآن مجید کے کمال کا پتہ لگتا ہے۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے بارے میں کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف ایسی کامل اور جامع کتاب ہے کہ کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔کیا وید میں کوئی ایسی شرتی ہے جو ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کا مقابلہ کرے۔ اگر زبانی اقرار کوئی چیز ہے یعنی اس کے ثمرات اور نتائج کی حاجت نہیں تو پھر ساری دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خد اتعالیٰ کا اقرار کرتی ہے۔ اور بھگتی، عبادت، صدقہ خیرات کو بھی اچھا سمجھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں ان باتوں پر عمل بھی کرتی ہے۔
سوال:قرآن کریم کی تعلیم ایک کامل تعلیم ہے اس بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ زمانہ ضرورت بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اَور دلیل ہے اور انجام اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْمیں فرما دیا۔گویا یہ بابِ نبوت کی دوسری فصل ہے۔ اکمال سے یہی مطلب نہیں کہ سورتیں اتار دیں بلکہ تکمیل نفس اور تطہیر قلب کی۔وحشیوں سے انسان پھر اس کے بعد عقلمند اور بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنا دیا اور تطہیر نفس، تکمیل اور تہذیبِ نفس کے مدارج طے کرا دیئے اور اسی طرح پر کتاب اللہ کو بھی پورا اور کامل کر دیا۔ یہانتک کہ کوئی سچائی اور صداقت نہیں جو قرآن شریف میں نہ ہو۔ میں نے اگنی ہوتری کو بارہا کہاکہ کوئی ایسی سچائی بتاؤ جو قرآن شریف میں نہ ہو مگر وہ نہ بتا سکا۔ ایساہی ایک زمانہ مجھ پر گذرا ہے کہ میں نے بائبل کو سامنے رکھ کر دیکھا۔ جن باتوں پر عیسائی ناز کرتے ہیں وہ تمام سچائیاں مستقل طو ر پر اور نہایت ہی اکمل طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو اس طرف توجہ نہیں۔ وہ قرآن شریف پر تدبر ہی نہیں کرتے اور نہ ان کے دل میں کچھ عظمت ہے ورنہ یہ تو ایسا فخر کا مقام ہے کہ اسکی نظیر دوسروں میں ہے ہی نہیں۔
سوال: کیا قرآن کریم حدیث پر قاضی ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ قرآنِ کریم حدیث پر قاضی ہےحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے: ایک اَور غلطی اکثر مسلمانوں کے درمیان ہے کہ وہ حدیث کو قرآن شریف پر مقدم کرتے ہیں حالانکہ یہ غلط بات ہے۔ قرآن شریف ایک یقینی مرتبہ رکھتا ہے اور حدیث کا مرتبہ ظنی ہے۔حدیث قاضی نہیں بلکہ قرآن اس پر قاضی ہے۔ہاں حدیث قرآن شریف کی تشریح ہے۔اس کو اپنے مرتبہ پر رکھنا چاہئے۔ حدیث کو اس حدتک ماننا ضروری ہے کہ قرآن شریف کے مخالف نہ پڑے اور اس کے مطابق ہو لیکن اگر اس کے مخالف پڑے تو وہ حدیث نہیں بلکہ مردود قول ہے۔ لیکن قرآنِ شریف کے سمجھنے کے واسطے حدیث ضروری ہے۔قرآن شریف میں جو احکام الٰہی نازل ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عملی رنگ میں کر کے اور کرا کے دکھا دیا اور ایک نمونہ قائم کر دیا۔ اگر یہ نمونہ نہ ہوتا تو اسلام سمجھ میں نہ آ سکتا لیکن اصل قرآن ہے۔ بعض اہلِ کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست ایسی احادیث سنتے ہیں جو دوسروں کو معلوم نہیں ہوئیں یا موجودہ احادیث کی تصدیق کرلیتے ہیں۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فصاحت قرآن کے بارے میںکیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:قرآن شریف … عبارت میں اس قدر فصاحت اور موزونیت اور لطافت اور نرمی اور آب و تاب رکھتا ہے کہ اگر کسی سرگرم نکتہ چین اور سخت مخالفِ اسلام کو کہ جو عربی کی املاء انشاء میں کامل دستگاہ رکھتا ہو حاکم باختیار کی طرف سے یہ پُرتہدید حکم سنایا جائے کہ اگر تم مثلاً بیس برس کے عرصے میں کہ گویا ایک عمر کی میعاد ہے۔ اس طور پر قرآن کی نظیر پیش کر کے نہ دکھلاؤ کہ قرآن کے کسی مقام میں سے صرف دو چار سطر کا کوئی مضمون لے کر اسی کے برابر یا اس سے بہتر کوئی نئی عبارت بنا لاؤ ۔جس میں وہ سب مضمون معہ اپنے تمام دقائق حقائق کے آ جائے اور عبارت بھی ایسی بلیغ اور فصیح ہو جیسی قرآن کی تو تم کو اس عجز کی وجہ سے سزائے موت دی جاوے گی تو پھر بھی باوجود سخت عناد اور اندیشہ رسوائی اور خوف موت کی نظیر بنانے پر ہرگز قادر نہیں ہو سکتا اگرچہ دنیا کے صدہا زبان دانوں اور انشا پردازوں کو اپنے مددگار بنا لے۔
سوال:حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مزید قرآن کریم کی فصاحت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:لوگوں کی فصاحت اور بلا غت الفاظ کے ماتحت ہوتی ہے اور اس میں سوائے قافیہ بندی کے اَور کچھ نہیں ہوتا۔ جیسے ایک عرب نے لکھا ہے سَافَرْتُ اِلٰی رُوْم وَ اَنَا عَلٰی جَمَلٍ مَاْلُوْمٍ۔ میں روم کو روانہ ہوا اور میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوا جسکا پیشاب بند تھا۔ یہ الفاظ صرف قافیہ بندی کے واسطے لائے گئے ہیں۔ یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پروئے گئے ہیں اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا اور کسی کو دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا لیکن اسکے باوجود اسکے قافیہ بندی اور فصاحت وبلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں۔
سوال:سیدھی اور سچی اور سادہ عام فہم منطق کس میں ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :سیدھی اور سچی اور سادہ عام فہم منطق وہ ہے جو قرآن شریف میں ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ ایک سیدھی راہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہم کو سکھلا دی ہے۔ چاہئے کہ آدمی قرآن شریف کو غور سے پڑھے۔ اسکے امر اور نہی کو جداجدا دیکھ رکھےاور ان پر عمل کرے اور اسی سے وہ اپنے خدا کو خوش کر لے گا۔
سوال: قرآن کریم حقیقی خدا کو پیش کرتا ہے اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:خد ا تعالیٰ کا شکر ہے کہ قرآن شریف نے ایسا خدا پیش نہیں کیا جو ایسی نا قص صفات والا ہو کہ نہ وہ روحوں کا مالک ہے نہ ذرات کا مالک ہے نہ ان کو نجات دے سکتا ہے نہ کسی کی توبہ قبول کر سکتا ہے بلکہ ہم قرآن شریف کی رو سے اس خدا کے بندے ہیں جو ہمارا خالق ہے ہمارا مالک ہے، ہمارا رازق ہے، رحمان ہے، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے، مومنوں کے واسطے یہ شکر کا مقام ہے کہ اس نے ہم کو ایسی کتاب عطا کی جو اس کی صحیح صفات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے۔
٭٭٭