قرآنِ کریم کی پیروی سے انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہےجس گہرائی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
ہمیں قرآن کریم کے مقام اوراہمیت سے آگاہی دی ہے وہی ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کا فہم و ادراک دیتی ہے
حقیقت میں روح کی تسلی اور سیری کا سامان اور وہ بات جس سے روح کی حقیقی احتیاج پوری ہوتی ہے قرآن کریم ہی میں ہے
سوال:قرآن کریم کی پیروی سے انسان کو کیا حاصل ہوتا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:قرآنِ کریم کی پیروی سے انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہےجس گہرائی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں قرآن کریم کے مقام اوراہمیت سے آگاہی دی ہے وہی ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور قرآنی تعلیم پر عمل کرنے کا فہم و ادراک دیتی ہے۔
سوال: حضور انور نے قرآن مجید کی معرفت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کون سا شعر بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں:
قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے
بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے
سوال:مزید قرآن مجید کی پیروی سے کیا حاصل ہوتا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: قرآنِ کریم ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کی پیروی کے نتیجہ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ تفصیل بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف کی معجزانہ تاثیرات سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی کامل پیروی کرنے والے درجہ قبولیت کا پاتے ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہو کر خدا تعالیٰ اپنی کلامِ لذیذ اور پُررُعب کے ذریعہ سے ان کو اطلاع دیتا ہے اور خاص طور پر دشمنوں کے مقابل پر ان کی مدد کرتا ہے اور تائید کے طور پر اپنے غیبِ خاص پر ان کو مطلع فرماتا ہے۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ دین کس کو قرار دیا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :اگرچہ میں دنیا کے تمام نبیوں کا ادب کرتاہوں اور ان کی کتابوں کا بھی ادب کرتا ہوں مگر زندہ دین صرف اسلام کو ہی مانتا ہوں کیونکہ اس کے ذریعہ سے میرے پر خدا ظاہر ہوا ۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذہبت کی کیا تعریف کی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میرے نزدیک مذہب وہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور زندہ اور تازہ قدرتوں کے نظارے سے خدا کو دکھلاوے ورنہ صرف دعویٰ صحت مذہب ہیچ اور بلا دلیل ہے۔
سوال: حقیقی روح کی تسلی اور سیری کا سامان کس سے حاصل ہوتا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حقیقت میں روح کی تسلی اور سیری کا سامان اور وہ بات جس سے روح کی حقیقی احتیاج پوری ہوتی ہے قرآن کریم ہی میں ہے۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی بابت لالہ بھیم سین کےنام کیا خط لکھا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی بابت لالہ بھیم سین کےنام خط لکھا کہ:ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا، قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ قرآنِ شریف خدا کا کلام نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اُس میں شرک کی تعلیم ہےاور کئی اَور ناپاک تعلیمیں ہیں۔ مگر میں قرآنِ شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اَور ناپاک تعلیم ہے اور اُس کی پیروی سے زندہ خدا کا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔
سوال:قرآن کریم کی کون سی چار خوبیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہیں ؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: قرآن کریم کی خوبیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن کریم کی چار اعجازی خوبیاں ہیں : قرآن شریف کی اعجازی خوبیوں میں سے ایک بلاغت فصاحت بھی ہے جو انسانی بلاغت فصاحت سے بالکل ممتاز اور الگ ہے کیونکہ انسانی بلاغت فصاحت کا میدان نہایت تنگ ہے اور جب تک کسی کلام میں مبالغہ یا جھوٹ یا غیر ضروری باتیں نہ ملائی جائیں تب تک کوئی انسان بلاغت فصاحت کے اعلیٰ درجہ پر قادر نہیں ہو سکتا۔دوسرے قرآن شریف کی ایک معجزانہ خوبی یہ ہے کہ جس قدر اس نے قصے بیان کئے ہیں درحقیقت وہ تمام پیشگوئیاں ہیں جن کی طرف جابجا اشارہ بھی کیا ہے۔تیسرے قرآنِ شریف میں یہ معجزانہ خوبی ہے کہ اسکی تعلیم انسانی فطرت کو اسکے کمال تک پہنچانے کیلئے پورا پورا سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور مرتبہ یقین حاصل کرنے کیلئے جن دلائل اور نشانوں کی انسان کو ضرورت ہے سب اس میں موجود ہیں۔ چوتھے ایک بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ وہ کامل پیروی کرنے والے کو خدا سے ایسا نزدیک کر دیتا ہے کہ وہ مکالمہ الٰہیہ کا شرف پالیتا ہے اور کھلے کھلے نشان اس سے ظاہر ہوتے ہیں اور تزکیہ نفس اور ایمانی استقامت اس کو حاصل ہوتی ہے اور قرآن شریف کا یہ نکتہ نہایت ہی یادداشت کے لائق ہے کہ مومن کامل پر جو فیضان آسمانی نشانوں کا ہوتا ہے۔
سوال:قرآن مجید کس سے نجات کا ذریعہ ہے؟
جواب:قرآن کریم شرک سے نجات کا ذریعہ ہے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:جو کچھ قرآن شریف نے توحید کا تخم بلاد عرب، فارس، مصر، شام، ہند، چین، افغانستان، کشمیر وغیرہ بلاد میں بو دیا ہے اور اکثر بلاد سے بُت پرستی اور دیگر اقسام کی مخلوق پرستی کا تخم جڑھ سے اُکھاڑ دیا ہے یہ ایک ایسی کارروائی ہے کہ اسکی نظیر کسی زمانہ میں نہیں پائی جاتی۔
سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے نتیجہ میں ہمیں کیا حاصل ہوگا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:مَیں نے آنحضرت ﷺ کی پیروی میں ایک عجیب خاصیت دیکھی ہے جو کسی مذہب میں وہ خاصیت اور طاقت نہیں اور وہ یہ کہ سچا پیرو اس کا مقامات ولایت تک پہنچ جاتا ہے۔ خدا اس کو نہ صرف اپنے قول سے مشرف کرتا ہے بلکہ اپنے فعل سے اس کو دکھلاتا ہے کہ مَیں وہی خدا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا تب اسکا ایمان بلندی میں دُور دُور کے ستاروں سے بھی آگے گذر جاتا ہے۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کون سی چار علتوں کا ذکر کیا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہر شے کی چار علتیں ہوتی ہیں:علّتِ فاعلی،علّت صُوری،علّتِ مادی،علّتِ غائی۔اس مقام پر قرآنِ شریف کی چار علتوں کا ذکر کیا۔علّتِ فاعلی تو اس کتاب کی الۗمّۗ ہے اور الۗمّۗ کے معنے میرے نزدیک اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ یعنی میں اللہ وہ ہوں جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں اور علّتِ مادی ذٰلِكَ الْكِتٰبُہے یعنی یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔اور علّتِ صُورِی لَا رَیْبَ فِیْهِ ہے یعنی اس کتاب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ ہی نہیں۔جو بات ہے مستحکم اور جو دعویٰ ہے وہ مدلل اور روشن اور علّتِ غائی اس کتاب کی هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے یعنی اس کتاب کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ متقیوں کو ہدایت کرتی ہے۔
سوال: حضور انور نےبنگلہ دیش، پاکستان، برکینا فاسو اور الجزائر پر جواحمدیوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں انکے متعلق کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ احمدیوں کو اُن کے شر سے بھی محفوظ رکھے اور ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے، اب تو اِن کیلئے کوئی ہدایت کی دعانہیں ہو سکتی اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِّقْہُمْ تَسْحِیْقًا والی دعا ہی ہے جو ان کیلئے ہمارے منہ سے نکلتی ہے، دل سے نکلتی ہے۔
…٭…٭…٭…