اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-21

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ24؍فروری 2023 بطرز سوال وجواب

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابہ کرام کی سیرت کا دلنشین بیان

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجتا ہے پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یا زیادہ درود بھیجو

 

سوال: حضرت عامر بن ربیعہؓکےکے بارے میں حضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت عامر بن ربیعہؓ کے والد کا نام ربیعہ بن کعب بن مالک بن ربیعہ تھا۔ 8؍ہجری میں جنگِ ذاتُ السَّلَاسِل میں حضرت عامر بن ربیعہ ؓبھی شامل تھے اور اس میں آپؓکے بازو پر تیر لگا جسکی وجہ سے آپؓزخمی ہو گئے۔جب حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں خیبر کے علاقے سے یہود کو نکال دیا تو وادیٔ قریٰ کی زمینیں آپؓنے جن لوگوں میں تقسیم فرمائیں ان میں حضرت عامر بن ربیعہ بھی تھے۔

سوال: آنحضرت ﷺ جب کسی سریہ میں جاتے تھے تو آپکے پاس کیا زاد راہ ہوتا تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ نے بتایا کہ جب آنحضرت ﷺ ہمیں کسی سریہ میں روانہ فرماتے تھے تو ہمارے پاس زادِ راہ صرف کھجور کا ایک تھیلا ہوتا تھا۔ امیرِ لشکر ہمارے درمیان ایک مٹھی بھر کھجور تقسیم کر دیتے تھے اور آہستہ آہستہ ایک ایک کھجور کی نوبت آ جاتی تھی پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہونے لگتی تھی تو سفر میں پھر ایک کھجور ایک آدمی کو ملا کرتی تھی۔ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا۔ ابا جان! ایک کھجور کیا کفایت کرتی ہو گی؟ اس سے پیٹ کیا بھرتا ہوگا؟ انہوں نے کہا پیارے بیٹے! ایسا نہ کہو کیونکہ اسکی اہمیت ہمیں اس وقت معلوم ہوتی جب ہمارے پاس وہ بھی نہ ہوتی تھی۔

سوال:حضرت عامر بن ربیعہؓ کی وفات کب ہوئی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت عامر بن ربیعہؓ کی وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک آپؓکی وفات حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی اور بعض کےمطابق 32؍ہجری میں ہوئی جبکہ بعض کے نزدیک 33؍ ہجری میں ہوئی۔ بعض کے نزدیک 36؍ ہجری میں اور بعض کے نزدیک 37؍ ہجری میں ہوئی۔ علامہ ابن عساکر کے نزدیک 32؍ ہجری والی روایت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔آپؓکی وفات کے بارے میں روایت میں یہ بھی بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد آپؓاپنے گھر میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ لوگوں کو آپؓکے بارے میں کوئی خبر نہ ہوئی یہاں تک کہ جب آپؓکا جنازہ گھر سے نکلا۔

سوال: سفر میں کس طرف رخ کر کے نماز ادا کرنی چاہئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامر بن ربیعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھاکہ آپؐنے سفر میں اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر رات کو نفل پڑھے۔ آپ ﷺ اسی طرف منہ کیے ہوئے تھے جس طرف اونٹنی آپؐکو لیے جا رہی تھی۔

سوال: نماز اگر غلط فہمی کی بناء پر قبلہ رخ سے الٹی ادا کر دی تو کیا اس کا گناہ ہوگا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اندھیری رات میں سفر میں تھا۔ ہم ایک مقام پر اترے تو ایک شخص نے پتھر اکٹھے کیے اور نماز کیلئےجگہ بنائی اور اس میں نماز پڑھی۔ صبح معلوم ہوا کہ ہمارا رخ غیر قبلہ کی طرف تھا۔ قبلے سے الٹا تھا۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم نے رات کو قبلے سے ہٹ کر نماز پڑھی ہے۔ اس پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَیْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ(البقرہ:116) کہ اور اللہ ہی کا ہے مشرق بھی اور مغرب بھی، پس جس طرف بھی تم منہ پھیرو وہیں خدا کا جلوہ پاؤ گے۔

سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو درود بھیجنے کے کیا فائدے ہیں ؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجتا ہے۔ پس اب تمہاری مرضی ہے کہ مجھ پر کم درود بھیجو یا زیادہ درود بھیجو۔

سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت حرام بن ملحانؓکی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت عبداللہ بن ابی طلحہؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ حضرت انسؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ماموں حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ کو جو اُمّ سُلَیم کے بھائی تھے ستّر سواروں کے ساتھ بنو عامر کی طرف بھیجا۔

سوال:حضور انور نے عامر بن فُہَیْرہ ؓکی بابت کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: بئر معونہ کے موقعہ پر شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام اوراسلام کے دیرینہ فدائی عامر بن فُہَیْرہ بھی تھے۔ انہیں ایک شخص جَبَّار بن سَلْمٰی نے قتل کیا تھا۔عامر بن فُہَیْرہ کو شہید کیا تو ان کے منہ سے بے اختیار نکلا فُزْتُ وَاللّٰہِ۔ یعنی خدا کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہوں۔

سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک صبح کی نماز میںکس کیلئے دعا کرتے رہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ایک اَور روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک صبح کی نماز میں ان یعنی بنی سُلیم کے دو قبیلوں رِعْل اور ذَکْوَان کے خلاف دعا کرتے رہے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ یہ قنوت کی ابتدا تھی۔ اس سے قبل ہم قنوت نہیں کیا کرتے تھے۔

سوال: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت سعد بن خولہ کےمتعلق کیا بیان فرمایا ؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حضرت سعد بن خَولہؓ کا تعلق قبیلہ بنو مالک بن حسل بن عامر بن لوئی سے تھا۔ بعض کے نزدیک آپ بنو عامر کے حلیف تھے۔ آپ اہل فارس میں سے ہیں جو کہ یمن میں آ کر آباد ہوئے۔ اسماعیل بن محمد بن سعد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائب بن عمیر القاری کو حکم فرمایا کہ اگر سعد بن خولہ مکہ میں وفات پا جائیں تو انہیں مکے میں دفن نہ کیا جائے۔

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اَبُوالْہَیْثَمْ بن اَلتَّیِّہَانْ ؓ کے بارے میں کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اَبُوالْہَیْثَمْ بن اَلتَّیِّہَانْ ؓکے بھائی کا نام حضرت عُبَید بن عُبیدیا حضرت عَتِیک بن اَلتَّیِّہَانْ تھا۔ جو غزوۂ احد میںشہید ہوئے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوالہیثَمؓ اور حضرت اُسَید بن حُضَیرؓکو قبیلہ بنی عبدالاشْہَلْ پر نقیب مقرر فرمایا تھا۔ آپؓجنگ میں دو تلواریں لٹکایا کرتے تھے اس وجہ سے آپؓکو ذوالسیفین بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ’’جنگ صِفِّیْن میں حضرت علیؓ کی طرف سے ہو کر لڑے اور شہادت پائی۔

سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حضرت عاصم بن ثابتؓکے کے بارے میں کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت عَاصِم بن ثابتؓ کے ایک بیٹے محمد تھے جو کہ ہند بنتِ مالک کے بطن سے تھے۔
سوال: حضور انور نےحضرت سَہْلِ بنِ حُنَیف انصاریؓ کے متعلق کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سو اونٹ اور اونٹنیاں اور دو گھوڑے تھے ان میں سے ایک پر حضرت مقداد بن اسودؓ سوار تھے اور دوسرے پر حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت سَہْلِ بن حُنَیفؓ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ راستے میں ان اونٹنیوں پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ اور حضرت مَرْثَد بن ابی مَرْثَد غنویؓ جو حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کے حلیف تھے یہ سب باری باری ایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔

سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبار بن صخر کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: سریہ حضرت علیؓ بطرف بنو طَئِّ جو ربیع الآخر نو ہجری میں ہوا تھا، رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو ڈیڑھ سو افراد کے ہمراہ بنو طَئِّ کے بت فُلْس کو گرانے کیلئے روانہ فرمایا۔ آپ نے اس سَریّےکیلئے حضرت علیؓ کو ایک کالے رنگ کا بڑا جھنڈا دیا اور سفید رنگ کا چھوٹا پرچم عطا فرمایا۔ حضرت علیؓ صبح کے وقت آلِ حاتم پر حملہ آور ہوئے اور ان کے بت فُلْس کو منہدم کر دیا۔ حضرت علیؓ بنو طَئِّ سے بہت سارا مال غنیمت اور قیدی لے کر مدینہ واپس آئے۔اس سَریّےمیں لواء حضرت جَبَّار بن صَخْرؓ کے پاس تھا۔ اس سریےمیںحضرت علیؓ نے اپنے ساتھیوں سے رائے مانگی توحضرت جبار بن صخرؓ نے کہا کہ رات ہم اپنی سواریوں پر سفر کرتے ہوئے گزاریں اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کر دیں۔ حضرت علی ؓکو آپ کی یہ بات پسند آئی۔

…٭…٭…٭…