تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہےاور میں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں
اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے
بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے (علامہ نیاز فتح پوری صاحب)
سوال: 20 ؍فروری کا دن جماعت احمدیہ میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: 20؍ فروری کا دن جماعت احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔
سوال: حضرت مصلح موعود ؓ کی بچپن میں صحت کیسی رہتی تھی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: آپؓکا بچپن صحت کے لحاظ سے نہایت کمزوری میں گزرا، بیماری میں گزرا۔ آنکھوں کی تکلیف وغیرہ بھی رہی۔ نظر بھی ایک وقت میں ایک آنکھ سے جاتی رہی۔
سوال: حضرت مصلح موعود ؓکی دنیاوی تعلیم کیا تھی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:دنیاوی تعلیم کے لحاظ سے آپؓکی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ آپؓنے خود فرمایا کہ مشکل سے میری پرائمری تک تعلیم ہے۔
سوال: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں کتنی سورتوں کی تفسیر فرمائی ہے ؟
جواب: حضرت مصلح موعود ؓ نے تفسیر کبیر میں اُنسٹھ (59) سورتوں کی تفسیر بیان فرمائی، ہے جو کہ دس جلدوں اور پانچ ہزار نو سو سات (5907) صفحات پر مشتمل ہے۔
سوال: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر صغیر کے بارے میں کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نےتفسیر صغیر کے بارے میں ایک جگہ فرمایا : میری رائے یہ ہے کہ اس وقت تک قرآن کریم کے جتنے ترجمے ہو چکے ہیں ان میں سے کسی ترجمہ میں بھی اردو محاورے اور عربی محاورے کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا جتنا اس میں رکھا گیا ہے۔
سوال: مشہور اہل قلم علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے تفسیر کبیر کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب: مشہور اہل قلم علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے حضرت مصلح موعود ؓکو ایک خط میں لکھا کہ تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہےاور میں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحرِ علمی، آپ کی وسعتِ نظر، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست، آپ کا حسنِ استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔
سوال: اخبار امروز لاہور نے تفسیر صغیر کی بابت کیا لکھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اخبار امروز لاہور نے 30 مئی 66ء کی اشاعت میں تفسیر صغیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ قرآن حکیم پوری بنی نوع انسان کیلئے رشد و ہدایت کا منبع و سرچشمہ ہے۔ ازل سے رہتی دنیا تک یہ کتاب مبین انسانوں کو دینی اور دنیوی معاملات میں عدل کا راستہ دکھاتی رہے گی اور بھولے بھٹکوں کو صراط مستقیم پر لاتی رہے گی۔
سوال: اے جے آربری (A J Arberry)مشہور سکالر نے تفسیر کبیر کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جے آربری ایک مشہور سکالر کہتے ہیں کہ قرآن شریف کا یہ نیا ترجمہ اور تفسیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ موجودہ جلد اس کارنامہ کی گویا پہلی منزل ہے۔
سوال: ڈاکٹر چارلس ایس بریڈن صدر شعبہ تاریخ و ادب مذہبیات نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی ایونسٹن نے تفسیر کبیر کی بابت کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ڈاکٹر چارلس ایس بریڈن (Charles S. Braden)صدر شعبہ تاریخ و ادب مذہبیات نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی ایونسٹن (Evanston)امریکہ نے لکھا کتاب کی طباعت نہایت عمدہ ہے، ٹائپ بھی اعلیٰ ہے اور سہولت سے پڑھا جا سکتا ہے۔ بحیثیت مجموعی انگریزی زبان کے اسلامی لٹریچر میں یہ ایک قابلِ قدر اضافہ ہے جس کیلئے دنیا جماعت احمدیہ کی ازحد ممنون ہے۔
سوال: اختر اورینوی صاحب نے تفسیر کبیر کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:مرزا محمود کی تفسیر کے پایہ کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی، آپ جدید تفسیریں بھی مصر وشام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے ۔
سوال:مولوی ظفر علی خان صاحب نے احراریوں کو مخاطب ہوکر کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: مولوی ظفر علی خان صاحب نے احراریوں کومخاطب ہوکر فرمایاکہ احراریو! کان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے، مرزا محمود کے پاس قرآن کا علم ہے ۔
سوال: سید عبدالقادر صاحب ایم اے نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی علم فراست کے بارےمیں کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:مَیں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمانؓ کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اورپہلی خانہ جنگی کی اصلی وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں،حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا۔
سوال: جناب اختر اورینوی صاحب ایم اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی نے کون سا واقعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے متعلق پیش کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جناب اختر اورینوی صاحب ایم اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں: میں نے یکے بعد دیگرے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تفسیرِ کبیر کی چند جلدیں پروفیسر عبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج، پٹنہ وحال پرنسپل شبینہ کالج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اور وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کیلئے دیں اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا کر انہوں نے ان کے خیالات دریافت کئے۔ ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی۔پروفیسر عبدالمنان صاحب نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے؟ شیوخ خاموش رہے۔ کچھ دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہا۔ پٹنہ میں ساری عربی تفسیریں ملتی نہیں ہیں۔ مصر وشام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا۔مرزا محمود کی تفسیر کے پایہ کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی۔ آپ جدید تفسیریں بھی مصر وشام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے۔ عربی وفارسی کے علماء‘‘ جو بیٹھے ہوئے تھے ’’مبہوت رہ گئے۔
سوال: اخبار قندیل نے حضرت مصلح موعود کی تفسیر صغیر کی بابت کیا لکھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ہفت روزہ قندیل19 ؍جون 1966ء میں لکھتا ہے کہ ’’انجمن حمایت اسلام لاہور اور تاج کمپنی لمیٹڈ کی طرف سے قرآنِ حکیم کی طباعت میں جو خوش ذوقی کا ثبوت دیا جاتا رہا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ تفسیر صغیر کی اشاعت سے اس روح آفرین سعی میں اضافہ ہوا ہے … تفسیر صغیر میں ترجمہ اور تفسیر امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ ترجمہ اور حواشی کی زبان عام فہم ہے تا کہ ہر علمی استعداد کا آدمی اس سے مستفید ہو سکے۔ ترجمہ اور تفسیر میں یہ التزام بھی ہے کہ جملہ تفاسیر متقدمین آخر تک پیشِ نظر رکھی گئی ہیں… قرآنِ مجید کو اس خوبصورتی سے طبع کرا کے شائع کرنا ایک بہت بڑی خدمت اسلام ہے۔
…٭…٭…٭…