لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال سے مجھ پرابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو
آنحضرت ﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓ کے مقام کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال سے مجھ پرابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔
سوال:دور جاہلیت میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو قریش کے کن لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: دَورِ جاہلیت میں حضرت ابوبکرؓ کو قریش کے سرداروں اور ان کے اشراف و معزز لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ افضل ترین لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ لوگ اپنے مسائل و معاملات میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔ مکہ میں ضیافت و مہمان نوازی میں انفرادی حیثیت کے مالک تھے۔
سوال: جنگ احد میں جب رسول کریم ﷺ کی شہادت کی افواہ پھیلی تو کون سب سے پہلےآپؐ تک پہنچے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:جنگِ اُحد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ پھیلی تو سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ ہجوم کو چیرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔
سوال: جس طرح رؤیا میں جبریل بیت المقدس کے سفر میں آپؐکے ساتھ تھے اس طرح ہجرت میں آپؐکے ساتھ کون تھے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جس طرح رؤیا میں جبریل بیت المقدس کے سفر میں آپؐکے ساتھ تھے ہجرت میں ابوبکرؓ آپؐکے ساتھ تھے جوگویا اسی طرح آپؐکے تابع تھے جس طرح جبریل خداتعالیٰ کے تابع کام کرتا ہے۔
سوال: غار ثور میں جب رسول کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر کی گھبراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپؓ نے کیا فرمایا؟
جواب:حضرت ابوبکر نے فرمایا:یا رسول اللہؐ! میں اپنی جان کیلئے تو نہیں ڈرتا۔ میں اگر مارا گیا تو صرف ایک آدمی مارا جائے گا۔ میں تو آپؐکیلئے ڈرتا ہوں۔ کیونکہ اگر آپؐکو نقصان پہنچا تو صداقت دنیا سے مٹ جائے گی۔
سوال: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدا کی راہ میں قربانی کرنے کا کیا مقصد ہوتا تھا؟
جواب:حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت ابوبکرؓ قربانی کرکے بھی یہ سمجھتے تھے کہ ابھی خدا کا مَیں دیندار ہوں اور مَیں نے کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں کیا بلکہ اس کا احسان ہے کہ اس نے مجھے توفیق دی۔
سوال: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کس طرح ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک سال گرم اونی چادریں خریدیں یعنی کمبل جو دیہات سے لائی گئی تھیں اور سردی کے موسم میں مدینہ کی بیوہ عورتوں میں یہ چادریں تقسیم کی گئیں۔
سوال:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب ایمان لائے تو آپ کے پاس کتنا مال موجود تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت ابوبکر صدیقؓ جب ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم کی خطیر رقم موجود تھی اور ظاہر ہے کہ مالِ تجارت، اسباب و املاک اس کے علاوہ تھے۔
سوال:آنحضرت ﷺ نے اپنی آخری بیماری میں ممبر پر چڑھ کر کیا اعلان فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی آخری بیماری میں کہ جس میں آپؐکی وفات ہوئی آپؐباہر تشریف لائے اور آپؐنے اپنا سر ایک کپڑے سے باندھا ہوا تھا۔ آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا لوگوں میں سے کوئی بھی نہیں جو بلحاظ اپنی جان اور مال کے مجھ پر ابوبکر بن ابو قحافہ سے بڑھ کر نیک سلوک کرنے والا ہو۔
سوال: حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی عاجزی اور انکساری کے متعلق کون سی روایت ملتی ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے آپؓایک لاوارث کنبہ کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔ جب آپؓخلیفہ بن گئے تو اس کنبہ کی ایک بچی کہنے لگی کہ اب تو آپ ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہا کریں گے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اپنی جان کی قسم! میں تمہارے لیے ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ میں نے جس چیز کو اختیار کیا ہے وہ مجھے اس عادت سے نہ روکے گی جس پر مَیں تھا۔ چنانچہ آپ حسبِ سابق ان کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے۔ جب وہ بچیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں تو آپؓازراہِ شفقت فرماتے دودھ کا جھاگ بناؤں یا نہ بناؤں؟ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ بنا دیں تو برتن کو ذرا دُور رکھ کر دودھ دوہتے حتیٰ کہ خوب جھاگ بن جاتی۔ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ نہ بنائیں تو برتن تھن کے قریب کر کے دودھ دوہتے تا کہ دودھ میں جھاگ نہ بنے۔ آپؓمسلسل چھ ماہ تک یہ خدمت سرانجام دیتے رہے یعنی خلافت کے بعد چھ ماہ تک۔ پھر آپؓنے مدینہ میں رہائش اختیار کر لی۔
سوال: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اپاہج کی خدمت کا کون سا واقعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’صوفیاء کی ایک روایت ہے۔ (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کہاں تک درست ہے) کہ حضرت ابوبکرؓکی وفات کے بعد حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓ کے غلام سے پوچھا کہ وہ کون کون سے نیک کام تھے جو تیرا آقا کیا کرتا تھا تا کہ میں بھی وہ کام کروں۔ منجملہ اَور نیک کاموں کے اس غلام نے ایک کام یہ بتایا کہ روزانہ حضرت ابوبکرؓروٹی لے کر‘‘ کھانا لے کر ’’فلاں طرف جایا کرتے تھے اور مجھے ایک جگہ کھڑا کر کے آگے چلے جاتے تھے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس مقصد کیلئے اُدھرجاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓاس غلام کے ہمراہ اس طرف کو کھانا لے کر چلے گئے جس کا ذکر غلام نے کیا تھا۔ آگے جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غار میں ایک اپاہج اندھا جس کے ہاتھ پاؤں نہ تھے بیٹھا ہؤا ہے۔ حضرت عمرؓنے اس اپاہج کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا تو وہ رو پڑا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ ابوبکرؓپر رحم فرمائے۔ وہ بھی کیا نیک آدمی تھا۔حضرت عمرؓنے کہا بابا! تجھے کس طرح پتہ چلا کہ ابوبکرؓفوت ہو گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اس لئے ابوبکرؓمیرے منہ میں لقمہ چبا کر ڈالا کرتے تھےآج جو میرے منہ میں سخت لقمہ آیا تو مَیں نے خیال کیا کہ یہ لقمہ کھلانے والا ابوبکرؓ نہیں ہے بلکہ کوئی اَور شخص ہے اور ابوبکرؓتو ناغہ بھی کبھی نہ کیا کرتے تھے اب جو ناغہ ہوا تو یقیناً وہ دنیا میں موجود نہیں ہیں۔
سوال: حضرت ابوبکر جب کسی چور کو پکڑتے تو آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی تھی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوبکرؓ فرماتے تھے کہ اگر مَیں چور کو پکڑتا تو میری سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی کہ خدا اُس کے جرم پر پردہ ڈال دے۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓ کے کتنے گھر تھے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک گھر باہر تھا وہاں باہر رہا کرتے تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبویؓ کے قریب، اپنے گھروں کے قریب بھی ان کو ایک جگہ دی تھی وہاں بھی انہوں نے گھر بنایا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایک گھر تھا۔ مدینہ میں بھی دو گھر تھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں زیادہ وقت مضافات میں رہا کرتے تھے۔ خلافت کے بعد مدینہ شفٹ ہو گئے۔
سوال:حضرت علی ؓکی نظرمیں لوگوں میں سب سے بہارد کون تھے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت علیؓ کی نظر میں لوگوں میں سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓ تھے۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓکی شجاعت و بہادری کی بابت حضرت مصلح موعودؓ نے کون سی روایت بیان فرمائی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گلے میں پٹکا ڈال کر زور سے کھینچنا شروع کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور آپؓنے ان کفار کو ہٹایا اور فرمایا اے لوگو! تمہیں خدا کا خوف نہیں آتا کہ تم ایک شخص کو محض اس لیے مارتے پیٹتے ہو کہ وہ کہتا ہے اللہ میرا رب ہے۔ وہ تم سے کوئی جائیداد تو نہیں مانگتا پھر تم اُسے کیوں مارتے ہو۔
سوال: صحابہ کرام حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بہادری کی بابت کیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:صحابہؓ کہتے ہیں ہم اپنے زمانہ میں سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓکو سمجھتے تھے کیونکہ دشمن جانتا تھا کہ اگر مَیں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مار لیا تو اسلام ختم ہو جائے گا اور ہم نے دیکھا کہ ہمیشہ ابوبکرؓ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوتے تھے تا کہ جو کوئی آپؐپر حملہ کرے اسکے سامنے اپنا سینہ کر دیں۔
سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پرکس بات کا جھگڑا ہوا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ایک جھگڑا برپا ہو گیا۔ انصار کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو اور مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو۔
سوال: جب راہ خدا میں مال خرچ کرنے کا حکم ہوا توحضرت ابوبکرؓنے کیا مالی قربانی دی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایک دفعہ جب راہِ خدا میں مال دینے کا حکم ہوا تو گھرکا کل اثاثہ لے آئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے۔ تو فرمایا کہ خدا اور رسول کو گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓکا سارا مال رسول کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کرنے سے کیا مراد ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کوئی کہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا سارا مال لے آئے تھے تو پھر گھر والوں کیلئے انہوں نے کیا چھوڑا؟ اسکے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد گھر کا سارا اندوختہ تھا۔ وہ تاجر تھے اور جو مال تجارت میں لگا ہوا تھا وہ نہیں لائے تھے اور نہ مکان بیچ کر آ گئے تھے۔
…٭…٭…٭…