اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-02

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ12؍اگست 2005 بطرز سوال وجواب
بمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَھْوٌوَّلَعِبٌ۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ۔ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور یقیناً آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے، کاش کہ وہ جانتے

اگر تم دنیا کے آرام و آسائش کی تلاش میں پڑ گئے تو پھر
آہستہ آہستہ یہی چیزیں تمہارا مطلوب و مقصود ہو جائیںگی اور اللہ تعالیٰ کی یاد آہستہ آہستہ دل سے نکل جائے گی

سوال:اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا کیا ذریعہ ہے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو سادگی اور قناعت ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنتاہے۔ یہی چیزیں ہیں جو تمہیں خدا کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہیں۔
سوال:دنیا کی آرام و آسائش میں پڑ کر کیا حاصل ہوگا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اگر تم دنیا کے آرام و آسائش کی تلاش میں پڑ گئے اور اس قدرپڑ گئے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا بھی بھول گئے تو پھر آہستہ آہستہ یہی چیزیں تمہارا مطلوب و مقصود ہو جائیںگی اور مستقل طور پر اللہ تعالیٰ کی یاد آہستہ آہستہ دل سے نکل جائے گی۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں کیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان ہے وَمَااَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ (سورۃ ص: 87) یعنی میں تکلف کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ آپؐ کے قول کے ساتھ ساتھ آپؐکا ہر فعل بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک تھا، تکلف سے پاک تھا۔ ہر عمل میںسادگی بھری ہوئی تھی۔
سوال:آخرت کے گھر کے متعلق قرآن کریم نے کیا فرمایا؟
جواب:قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَمَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَھْوٌوَّلَعِبٌ۔ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ۔ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(العنکبوت: 65) اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور یقینا آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ کاش کہ وہ جانتے۔
سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور عاجزی کا کیا عالم تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو وہ دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ شدت کی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں تشریف فرما ہوئے۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی تھے جو آپؐکے ہم عمر ہی تھے۔ اہل مدینہ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے اکثر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل نہ دیکھا تھا ۔لوگ آپ کی طرف آنے لگے۔ حضرت ابو بکر ؓ کی وجہ سے آپ کو نہ پہچانتے تھے۔ آپ اس قدر سادگی اور عاجزی کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سب لوگ ابو بکرؓ کو رسول اللہ سمجھنے لگے۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ محسوس کیا تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی چادر سے سایہ کرنے لگے جس سے لوگوں نے جان لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں۔
سوال:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے تکلفی اور سادگی کے متعلق حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسری کون سی روایت بیان فرمائی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ سفر میں تھے، راستہ میں کھانا تیار کرنے کا وقت آیا تو ہر ایک نے اپنے اپنے ذمہ کچھ کام لئے۔ کسی نے بکری ذبح کرنے کا کام لیا، کسی نے کھال اتارنے کا، کسی نے کھانا پکانے کا ۔تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنگل سے لکڑیاں لے کر آئوں گا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم کافی ہیں، ہم لے آتے ہیں ۔ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ تو آپؐنے فرمایا: مَیں جانتاہوں لیکن مَیں یہ امتیاز پسند نہیں کرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو ناپسند کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں امتیازی شان کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہو۔
سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ مل کر اُنکے کاموں میں کس قدرمددکیاکرتے تھے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ احزاب میں خندق کھودنے کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ مٹی لے جاتے ہوئے دیکھا اور مٹی نے آپؐکی پیٹ کی سفیدی کو ڈھانپ لیا تھا۔
سوال:جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےایک غلام کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نےکیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے، رات کا وقت تھا، ہم بستروں پرلیٹ چکے تھے تو حضورؐ کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے تو آپؐنے فرمایا نہیں لیٹے رہو۔ پھر آپؐہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے۔ کہتے ہیںکہ یہاں تک کہ حضور کے قدموںکی ٹھنڈک میںنے اپنے سینے میں محسوس کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتائوں؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34دفعہ اللہ اکبر کہو، 33بار سبحان اللہ اور 33بار الحمدللہ کہو۔ یہ تمہارے لئے نوکر سے بہتر ہے، ملازمین رکھنے سے بہتر ہے۔
سوال:حضرت فاطمہؓ کی شادی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہیز میں کیا دیا تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جب حضرت فاطمہ ؓ کی شادی ہوئی ہے انتہائی سادہ شاد ی تھی۔ جہیز میں آپؐ نے جو چیز یں حضرت فاطمہ ؓکو دیں ان میں ایک ریشمی چادر تھی اور ایک چمڑے کا گدیلا تھا جس میں کھجور کے پتے یا ریشے بھرے ہوئے تھے۔ آٹا پیسنے کی ایک چکی تھی، ایک مشکیزہ تھا اور دو گھڑے تھے۔کُل یہ جہیز تھا جو آپؐنے دیا۔ اور اس طرح سادگی کی اعلیٰ مثال قائم کی، ان کو بھی بتایا کہ سادہ رہو اور قناعت کرنے کی عادت ڈالو۔
سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے متعلق مزید کون سی روایت حضور انور نے بیان کی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ایک بار حضرت عمر ؓ آپؐسے ملنے گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جب حضرت عمر ؓاندر آئے تو آپؐاٹھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑاہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے۔ ایک کھونٹی پر تلوارلٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپؐلیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان آپؐکی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ ان کو دیکھ کر رو پڑے۔ آپؐنے پوچھا: اے عمر! تجھ کو کس چیز نے رُلایا؟۔حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنعّم کے اسباب رکھیںاور آپ جو خداتعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میںرہیں! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! مجھے دنیا سے کیا غرض؟مَیں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اسکے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہو وہ چل پڑے۔
سوال:اگر کوئی غریب آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت میں بلاتا تو آپ کیا کرتے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اگر کوئی غریب آدمی بھی آپ کو دعوت پر بلاتا تو آپ ضرور جاتے اور غریب کے تحفے کی بھی قدر کرتے۔
سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوراک کس طرح کی تھی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:سہل بن سعد ؓبیان فرماتے ہیں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تادم آخر کبھی چھنے ہوئے آٹے کی چپاتی نہیںدیکھی۔ اس پرمَیں نے پوچھا کیا تمہارے پاس آنحضرت ﷺکے زمانہ میں چھلنیاں نہیںہوا کرتی تھیں۔ انہوںنے کہا آنحضرت ؐ نے اپنی بعثت سے لے کر وفات تک چھلنی نہیں دیکھی۔
سوال:حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوراک کے بارے میں کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے علم میں نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی طشتریوں میں کھانا کھایا ہو اور نہ ہی آپ کیلئے کبھی چپاتیاں پکائی گئی ہیں، اور نہ کبھی آپ نے تپائی (چھوٹی میز سامنے رکھ کر اونچی چیز پر) لگا ہوا کھانا باقاعدہ کھایا ہو۔ تو قتادہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمکس پر کھانا کھایا کرتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ دستر خوان پہ۔ یعنی زمین پہ کپڑا بچھا لیتے تھے اور اس پہ بیٹھ کے کھانا کھایا کرتے تھے۔
…٭…٭…٭…