سوال: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چوتھے لشکر کا امیر کس کو مقرر کیا اور کہاں روانہ فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:چوتھا لشکر حضرت عمرو بن عاصؓ کا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک لشکر حضرت عمروبن عاصؓ کی قیادت میں شام کی طرف روانہ کیا تھا۔ حضرت عمرو بن عاصؓ شام جانے سے قبل قضاعہ کے ایک حصہ کے صدقات کی تحصیل کیلئے مقرر تھے۔
سوال :حضرت ابوبکر ؓنے حضرت عمر بن عاص ؓکو شام کی طرف جانے سے پہلے کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت عمرو بن عاص نے جب روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکرؓ آپؓ کو رخصت کرنے نکلے۔ فرمایا: اے عمرو! تم رائے اور تجربہ کے مالک ہو اور جنگی بصیرت رکھتے ہو۔ تم اپنی قوم کے اشراف اور مسلم صلحاء کے ساتھ جا رہے ہو اور اپنے بھائیوں سے ملوگے۔ لہٰذا ان کی خیر خواہی میں کوتاہی نہ کرنا اور ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا کیونکہ تمہاری رائے جنگ میں قابلِ تعریف اور انجام کار بابرکت ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی مشورہ دے تو ان سے اچھے مشورے کو نہ روکنا، اگر تمہارے پاس کوئی تجویز ہے تو اسکو بےشک استعمال کرنا۔
سوال :حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی اس نصیحت کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ نے کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت عمرو بن عاصؓ نے عرض کیا کتنا بہتر ہے میرے لیے کہ میں آپؓکے گمان کو سچ کر دکھاؤں اور آپؓکی رائے میرے بارے میں خطا نہ کرے۔ اور پھرحضرت عمرو بن عاصؓ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہو گئے۔
سوال : حضرت عمرو بن عاصؓ کا لشکر کتنے ہزار کا تھا اورآپؓکی منزل مقصود کیا تھی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:آپؓ کی فوج چھ سات ہزار کے درمیان تھی اور انکی منزلِ مقصود فلسطین تھی۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓنے قضاعہ کے دوسرے نصف حصہ کی صدقات کی تحصیل کیلئے کس کو مقرر کیا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیزنے فرمایا: قضاعہ کے دوسرے نصف حصہ کی صدقات کی تحصیل کیلئے حضرت ولید بن عقبہؓ مقرر کیے گئے تھے۔
سوال :حضرت عمرو بن عاص ؓ اور رومیوں کی فوج کے مابین لڑائی کے متعلق حضور انور نے کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت عمروؓ نے اپنی فوج کو منظم کیا۔ جب رومی حملہ آور ہوئے تو مسلمان انکا حملہ روکنے میں کامیاب ہو گئے اور رومی فوج کو واپس ہونے پر مجبور کر دیا اور اسکے بعد ان پر جوابی حملہ کر کے دشمن کی قوت کو تباہ کر دیا اور راہِ فرار اختیار کرنے اور میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اسلامی فوج نے ان کا پیچھا کیا اور روم کے ہزاروں فوجی مارے گئے اور اسی پر یہ معرکہ ختم ہو گیا۔
سوال : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےحضرت عمرو بن عاصؓ کو کیا خط لکھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا کہ اے ابوعبداللہ! میں تم کو ایک ایسے کام میں مصروف کرنا چاہتا ہوں جو تمہاری دنیا اور آخرت دونوں کیلئے بہترین ہے سوائے اسکے کہ تمہیں وہ کام زیادہ پسند ہو جو تم انجام دے رہے ہو۔
سوال : حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے خط کے جواب میں کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے خط کے جواب میں لکھا کہ میں اسلام کے تیروں میں سے ایک تیر ہوں اور اللہ کے بعد آپؓہی ایک ایسے شخص ہیں جو ان تیروں کو چلانے اور جمع کرنے والے ہیں۔ آپؓ دیکھیں کہ ان میںسے جو تیر نہایت سخت، زیادہ خوفناک اور بہترین ہو اسے اس طرف چلا دیجیے جس طرف آپؓ کوکوئی خطرہ نظر آئے۔
سوال :جب حضرت عمرو بن عاصؓ مدینہ آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں کس چیز کا حکم دیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جب حضرت عمرو بن عاصؓ مدینہ آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں حکم دیا کہ مدینہ سے باہر جا کر خیمہ زن ہو جائیں تا کہ لوگ آپؓکے ساتھ جمع ہوں۔
سوال : حضرت عمروؓ نےروم کی جانب پیش قدمی کی تو آپؓ کے ساتھ کتنے ہزار کا دستہ تھا؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حضرت عمروؓ نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل دستہ تیار کیا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی قیادت میں روم کی جانب پیش قدمی کیلئے روانہ کیا۔ یہ دستہ رومیوں سے جا ٹکرایا اور دشمن کی قوت کو پارہ پارہ کر کے ان پر فتح حاصل کی اور بعض قیدیوں کے ساتھ واپس ہوا۔
سوال :اَجْنَادَین کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرؓکو کیا خط لکھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اَجْنَادَین کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو ایک خط کے ذریعہ یہ خوشخبری سنائی۔ اسکا متن اس طرح ہے کہ السلام علیکم۔ میں آپکو خبر دے رہا ہوں کہ ہماری اور مشرکین کی جنگ ہوئی اور انہوں نے ہمارے مقابلے میں بڑے بڑے لشکر اجنادین میں جمع کر رکھے تھے۔ انہوں نے اپنی صلیبیں بلند کی ہوئی تھیں اور کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور انہوں نے اللہ کی قسم کھا رکھی تھی کہ وہ فرار اختیار نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہمیں فنا کر دیں یا ہمیں اپنے شہروں سے نکال باہر کریں اور ہم بھی اللہ پر پختہ یقین اور اس پر توکّل کرتے ہوئے نکلے۔ پھر ہم نے کسی قدر ان پر نیزوں سے وار کیا پھر ہم نے تلواریں نکالیں اور انکے ذریعہ دشمن پر اتنی دیر تک ضربیں لگائیں جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح کر کے تیار کیا جاتا ہے۔
سوال :اَجْنَادَیْن یا اجنادِین کہاں واقع ہے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: اَجْنَادَیْن یا اجنادِین فلسطین کے نواحی علاقوں میں سے یہ ایک معروف بستی کا نام ہے۔
سوال :حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی مدد کیلئے کون کون اشخاص فلسطین روانہ ہوئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: بُصریٰ کی فتح کے بعد حضرت خالدؓ ،حضرت ابوعُبَیدہؓ ، حضرت شرحبیلؓ اور حضرت یزید بن ابوسفیانؓ کو ساتھ لے کر حضرت عمرو بن عاصؓ کی مدد کیلئے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔
سوال :رومیوں نے جب مسلمانوں کی آمد کی بابت سنا تو انہوں نے کیا کیا؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:رومیوں نے جب مسلمانوں کی آمد کے متعلق سنا تو وہ اجنادین کی طرف ہٹ گئے۔ حضرت عمرو بن عاصؓ نے جب اسلامی لشکروں کے متعلق سنا تو وہ وہاں سے چل پڑے یہاں تک کہ اسلامی لشکروں سے جا ملے اور پھر سب اجنادین کے مقام پر جمع ہو گئے اور رومیوں کے سامنے صف آرا ہو گئے۔
سوال :روم کی شام میں کون کون سی فوجیں تھیں اور انہوں نے کہاں کہاں اپنے مراکز بنائے ہوئے تھے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:روم کی شام میں دو افواج تھیں۔ ایک فلسطین میں اور دوسری انطاکیہ میں اور ان دونوں افواج نے درج ذیل مقامات پر اپنے مراکز بنا رکھے تھے۔ نمبر ایک انطاکیہ: یہ رومی سلطنت کے دور میں شام کا دارالسلطنت تھا۔ دوسرا قِنَّسْرِین: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مغرب میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ تیسرا حِمْص: یہ شام کی سرحد ہے جو شمال مشرق میں فارس کے مقابل پڑتی ہے۔ چوتھا۔ عمان: بَلْقَاءکا صدر مقام یہاں مضبوط اور محفوظ قلعہ تھا۔ پانچواں اجنادین: یہ فلسطین کے جنوب میں روم کا عسکری مرکز تھا جو بلادِ عرب کی مشرقی اور مغربی سرحدوں اور حدود مصر سے ملتا تھا۔ چھٹا قَیْسَارِیَّہ: یہ فلسطین کے شمال میں حیفاسے تیرہ کلو میٹر پر واقع ہے اور اسکے کھنڈر ابھی تک باقی ہیں۔ رومی ہائی کمان کا مرکز انطاکیہ یا حمص تھا۔
…٭…٭…٭…