اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-14

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ10؍فروری2023بطرز سوال وجواب

قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا

اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے

سوال:کون سی کتاب محبوب حقیقی کا چہرہ دکھاتی ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب ہے جو اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے یعنی قرآن شریف۔

سوال: کب غیر مسلم کو قرآن کریم کی توہین کرنے کی جرأت نہ ہوگی؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: اگر مسلمان زمانے کے امام کو مان لیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کریں تو غیر مسلموں کو کبھی اس طرح قرآن کریم کی توہین کی جرأت نہ ہو۔

سوال: قرآن کریم کو عمل کرنے والے کو کیا کمالات حاصل ہوتے ہیں؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کر لیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے۔

سوال: خدا کا وجود کس طرح سے دکھائی دیگا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:وہ خدا جو تمام دنیا پر پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔

سوال: قرآن مجید کی پیروی کرنے والے کو کیا حاصل ہوتا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:غرض قرآن شریف کی زبردست طاقتوں میں سے ایک یہ طاقت ہے کہ اس کی پیروی کرنے والے کو معجزات اور خوارق دیئے جاتے ہیں اور وہ اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

سوال: خدا تعالیٰ کو اگلے جہان میں دیکھنا ہے تو کس طرح دیکھیں گے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اسکی شناخت کیلئے بجز قرآنی تعلیم کے اَور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

سوال: قرآن مجید کی تعلیم انجیل کی تعلیم کے مطابق کس طرح کی ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔ دوبارہ قائم ہوگئی۔

سوال: قرآن مجیدمیں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت کے متعلق کیا بیان ہوا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآنِ کریم میں علمی اور عملی تکمیل کی ہدایت ہے۔ مکمل طور پر علم سے نوازا گیا ہے اور عملی ہدایات دی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایاکہ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ (الفاتحہ: 6) میں تکمیلِ علمی کی طرف اشارہ ہے۔

سوال: متقی کسے کہتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں : متقی وہ ہیں کہ جو پوشیدہ خدا پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اپنے مالوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور قرآن شریف اور پہلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں وہی ہدایت کے سر پر ہیں اور وہی نجات پائیں گے۔

سوال: قرآن کریم کی تعلیم کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ذکر فرمایا؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں میں سے اس کی تعلیم بھی ہے کیونکہ وہ انسانی فطرت اورانسانی مصالح کے سراسر مطابق ہے۔ مثلاً توریت کی یہ تعلیم ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ۔ اور انجیل یہ کہتی ہے کہ بدی کاہرگز مقابلہ نہ کر بلکہ اگر کوئی تیری دائیں گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دے مگر قرآن شریف کہتا ہے کہ جَزَآءُ سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّٰهِ(الشوریٰ: 41) یعنی بدی کا بدلہ تو اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور اس گناہ کے بخشنے میں وہ شخص جس نے گناہ کیا ہے اصلاح پذیر ہوسکے اور آئندہ اپنی بدی سے بازآسکے تو معاف کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہوگا ورنہ سزا دینا بہتر ہوگا۔ کیونکہ طبائع مختلف ہیں۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قرآن مجید کے کون سے دو حصے بیان فرمائے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن کریم کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ قصے اور دوسرا احکام۔ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم کے دو حصے ہیں۔ کوئی بات قصہ کے رنگ میں ہوتی ہے اور بعض احکام ہدایت کے رنگ میں ہوتے ہیں … جو لوگ قصص اور ہدایات میں تمیز نہیں کرتے ان کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قرآن کریم میں اختلاف ثابت کرنے کے موجب ہوتے ہیں اور گویا اپنی عملی صورت میں قرآن کریم کو ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں کیونکہ قرآن شریف کی نسبت تو خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا(النساء:83) کہ اگر وہ اللہ کے سوا کسی اَور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پایا جاتا۔

سوال: انسان خدائے غیب الغیب کو کب تک نہیں پاسکتا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یاد رہے کہ انسان اُس خدائے غیب الغیب کو ہر گز اپنی قوت سے شناخت نہیں کر سکتا جب تک وہ خود اپنے تئیں اپنے نشانوں سے شناخت نہ کراوے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ تعلق خاص خدا تعالیٰ کے ذریعہ سے پیدا نہ ہو اور نفسانی آلائشیں ہر گز نفس میں سے نکل نہیں سکتیں جب تک خدائے قادر کی طرف سے ایک روشنی دل میں داخل نہ ہو اور دیکھو کہ میں اس شہادتِ رویت کو پیش کرتا ہوں کہ وہ تعلق محض قرآن کریم کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے دوسری کتابوں میں اب کوئی زندگی کی روح نہیں اور آسمان کے نیچے صرف ایک ہی کتاب ہے جو اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلاتی ہے یعنی قرآن شریف۔

سوال: قرآن کریم میں جو قصے بیان کئے گئے ہیں وہ دراصل کیا ہیں ؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جس قدر قرآن شریف میں قصے ہیں وہ بھی درحقیقت قصے نہیں بلکہ وہ پیشگوئیاں ہیں جو قصوں کے رنگ میں لکھی گئی ہیں۔ ہاں وہ توریت میں تو ضرور صرف قصے پائے جاتے ہیں مگر قرآن شریف نے ہر ایک قصہ کو رسول کریم کیلئے اور اسلام کیلئے ایک پیشگوئی قرار دے دیا ہے اور یہ قصوں کی پیشگوئیاں بھی کمال صفائی سے پوری ہوئی ہیں۔ غرض قرآن شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآن شریف کے پورے طور پر خدا تعالیٰ پر یقین لاسکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طور پر قرآن شریف میں ہی ہے کہ اسکی کامل پیروی سے وہ پردے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دُور ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب والامحض قصہ کے طور پر خدا کانام لیتا ہے مگر قرآن شریف اس محبوبِ حقیقی کاچہرہ دکھلا دیتا ہے اور یقین کانور انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے اور وہ خدا جو تمام دنیا پر پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔

٭٭