اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-07

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ3؍فروری2023بطرز سوال وجواب

قرآن شریف کا مدنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اسکی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں

بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کیلئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے

 

’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ

تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

 

سوال: اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو کس غرض سے بھیجا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو قرآن کریم کی اشاعت کیلئے بھیجا ہے، قرآن کریم کی حفاظت کیلئے بھیجا ہے، آپؑکو وہ معارف سکھائے ہیں جو لوگوں سے پوشیدہ تھے، آپؑکے ذریعے قرآن کریم کے فیض کا ایک چشمہ جاری فرمایا ہے، آپؑتو آئے ہی قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کیلئے ہیں ۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کو دنیا کو کیا بتانےکی ضرورت ہے؟
جواب:حضور انور فرماتے ہیں:آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کو …دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے، ہم پر کفر کے فتوے لگانے والوں کو دکھانے کی ضرورت ہے کہ احمدی صرف پرانے قصوں ہی کو بیان نہیں کرتے بلکہ آج بھی زندہ کتاب اور زندہ رسول کے ماننے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اترنے پر یقین رکھتے ہیں ، اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آج بھی بولتا ہے۔

سوال: قرآن کریم کا مدنظر کیا ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:قرآن شریف کا مدنظر تمام دنیا کی اصلاح ہے اور اسکی مخاطب کوئی خاص قوم نہیں بلکہ کھلے کھلے طور پر بیان فرماتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کیلئے نازل ہوا ہے اور ہر ایک کی اصلاح اس کا مقصود ہے۔

سوال:خدا نے ہم پر کیا احسان کیا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے ان کے قیامت سے منکر نہ ہوتے پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی، یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے۔

سوال: خدا کی اس سلسلے کو قائم کرنے کی کیا غرض تھی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اس لئے قائم کیا ہے تاوہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو اور ثابت کرے کہوہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع سے ظاہر ہوتے ہیں جو تیرہ سو برس پہلے ظاہر ہوتے تھے

سوال:حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قرآن کریم کے فیوض کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :اسکے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کی تعلیم کےکامل اور مکمل ہونے کے بارے میںکیا فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتَابَ تِبْیَانًا لِكُلِّ شَیْءٍ (النحل: 90) یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتَابِ مِنْ شَیْءٍ(الانعام: 39) یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی لیکن ساتھ اسکےیہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اسکی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الٰہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں۔بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الٰہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمیٰ مدد دیئے گئے ہوں ۔ سو ایسے لوگوں کیلئے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بَعِلَّت غَیر مُلْہَم ہونے کے قادر نہیں ہوسکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں بلاتامل و توقف قبول کر لیں ۔

سوال: کون سی تین چیزیں ہماری ہدایت کیلئے خدا نے ہمیں عطا کی ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کیلئے خدا نے تمہیں دی ہیں ۔ سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے اور جس میں ان اختلافات کا فیصلہ کیا گیا ہے جو یہود اور نصاریٰ میں تھے جیساکہ یہ اختلاف اور غلطی کہ عیسیٰ بن مریم صلیب کے ذریعہ قتل کیا گیا اور وہ لعنتی ہوا اور دوسرے نبیوں کی طرح اُس کا رفع نہیں ہوا۔

سوال: قرآن مجید سے ہمیں کیا حاصل ہوگا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔

سوال: نجات یافتہ کون ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:نجات یافتہ وہ ہے جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اَور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اَور کتاب ہے۔ اور کسی کیلئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام لفظ خاتم النبیین کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں ۔

سوال: کون سا مذہب سچا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:سچا وہی مذہب ہے کہ جو اس زمانہ میں بھی خدا کا سننا اور بولنا دونوں ثابت کرتا ہے۔ سچے مذہب میں خدا تعالیٰ اپنے مکالمہ مخاطبہ سے اپنے وجود کی آپ خبر دیتا ہے۔ خدا شناسی ایک نہایت مشکل کام ہے دنیا کے حکیموں اور فلاسفروں کا کام نہیں ہے جو خدا کا پتہ لگاویں کیونکہ زمین و آسمان کو دیکھ کر صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ اِس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہئے مگر یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ فی الحقیقت وہ صانع موجود بھی ہے۔ اور ہونا چاہئے اور ہے میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ پس اس وجود کا واقعی طور پر پتہ دینے والا صرف قرآن شریف ہے جو صرف خدا شناسی کی تاکید نہیں کرتا بلکہ آپ دکھلا دیتا ہے۔ اور کوئی کتاب آسمان کے نیچے ایسی نہیں ہے کہ اس پوشیدہ وجودکا پتہ دے۔

سوال: قرآن کریم کی انجیل اور دوسری مذہبی کتب پر برتری ثابت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:قرآن شریف ایک کامل اور زندہ اعجاز ہے اور کلام کا معجزہ ایسا معجزہ ہوتا ہے کہ کبھی اور کسی زمانہ میں وہ پرانا نہیں ہو سکتا اور نہ فنا کا ہاتھ اس پر چل سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اگر آج نشان دیکھنا چاہیں تو کہاں ہے؟ کیا یہودیوں کے پاس وہ عصا ہے اور اس میں کوئی قدرت اس وقت بھی سانپ بننے کی موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض جس قدر معجزات کل نبیوں سے صادر ہوئے ان کے ساتھ ہی ان معجزات کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود ہیں ۔ ان معجزات کا زندہ ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں۔