اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-15

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ18؍نومبر2022بطرز سوال وجواب

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام آداب میں ہمارے رسول اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو حضرت خیر البریہؐ سے ایک ازلی مناسبت تھی

اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور کے فیض سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو دوسروں کو لمبے زمانوں اور دُور دراز اقلیموں میں حاصل نہ ہو سکا

آنحضرت ﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ

 

سوال: صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کس کا مقام افضل قرار دیتے تھے؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حدیث میں صریح طور پر آتا ہے کہ صحابہ ؓآپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر کا ہی مقام ہے۔

سوال:حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مناسبت تھی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:آپ تمام آداب میں ہمارے رسول اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بطور ظل کے تھے اور آپ کو حضرت خیر البریہؐ سے ایک ازلی مناسبت تھی اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو حضور کے فیض سے پل بھر میں وہ کچھ حاصل ہو گیا جو دوسروں کو لمبے زمانوں اور دُور دراز اقلیموں میں حاصل نہ ہو سکا۔

سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں حضرت عائشہ ؓ سے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں مجھ سے فرمایا کہ ابوبکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تا کہ میں ایک تحریر لکھ دوں۔ مجھے ڈر ہے کہ کوئی خواہش کرنے والا خواہش کرے یا کوئی کہنے والا کہے کہ مَیں زیادہ حق دار ہوں لیکن اللہ اور مومن تو سوائے ابوبکر کے کسی اَور کا انکار کریں گے۔

سوال:واقعہ افک کے دوران حضرت عائشہ ؓاپنے گھر گئیں  تو ان کی والدین سے کیا گفتگو ہوئی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: واقعۂ افک کے دوران حضرت عائشہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ایک خادم کے ساتھ اپنے والدین کے گھر تشریف لے گئیں۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں داخل ہوئی اور میں نے اپنی والدہ امّ رومان کو مکان کے نچلے حصہ میں اور حضرت ابوبکرؓ کو گھر کے بالاخانے میں پایا۔ وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ میری ماں نے کہا اے میری پیاری بیٹی! کیسے آئی؟ میں نے انہیں بتایا اور وہ واقعہ ان سے بیان کیا۔ کہتی ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ اس سے انہیں وہ حیرت نہیں ہوئی جس قدر مجھے ہوئی تھی۔ میرا جو خیال تھاکہ واقعہ سن کر وہ پریشان ہوں گی لیکن ان کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓکی والدہ کہنے لگیں کہ اے میری پیاری بیٹی! اپنے خلاف ہونے والی اس بات کو معمولی سمجھو کیونکہ اللہ کی قسم !کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کوئی خوبصورت عورت کسی شخص کے پاس ہو جس سے وہ محبت رکھتا ہو۔ اس کی سوتنیں ہوں مگر وہ اس سے حسد کرتی ہیں اور اس کے متعلق باتیں بنائی جاتی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں کیا دیکھتی ہوں کہ اس کا ان پر وہ اثر نہیں جو مجھ پر ہے۔ مَیں نے کہا کہ میرے والد بھی یہ جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر حضرت عائشہؓ نے کہا، اپنی والدہ سے پوچھا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ انہوں نے کہاہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جانتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں اس بات پر میرے آنسو جاری ہو گئے اور میں رونے لگی۔ حضرت ابوبکرؓ نے میری آواز سنی اور وہ گھر کے بالا خانے میں قرآن پڑھ رہے تھے۔ وہ نیچے آئے اور میری ماں سے کہا اسے کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا اسے وہ بات پہنچی ہے جو اس کے متعلق کہی جا رہی ہے تو حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کہنے لگے اے میری پیاری بیٹی! میں تمہیں قَسم دیتا ہوں کہ تم اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں واپس آ گئی۔

سوال: منافقین کا حضرت عائشہ ؓپر الزام لگانے سے کس کو نقصان پہنچانا مقصود تھا؟
جواب: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام کرنا منافقوں کیلئے یا ان کے سرداروں کیلئے فائدہ مند ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ ایک ادنیٰ تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ ایک رسول کریم ﷺ او ر ایک حضرت ابوبکر ؓ کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں۔ یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی یا اقتصادی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کیلئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض ان کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ ورنہ خود حضرت عائشہؓ کی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی۔

سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی نے حضرت عائشہ کے متعلق کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی نے حضرت عائشہ کے متعلق فرمایا کہ میں نے تو سوائے خیر کے عائشہؓ میں کوئی چیز نہیں دیکھی۔

سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سے سات نجیب ساتھی دئیے گئے؟
جواب:حضرت علی بن ابو طالبؓنے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یقیناًہر نبی کو سات نجیب ساتھی دیے گئے ہم نے انہیں کہا وہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا میں اور میرے دونوں بیٹے اور حضرت جعفر ؓاور حضرت حمزہؓ اور حضرت ابوبکرؓ یعنی حضرت علیؓ اور ان کے دونوں بیٹے حضرت جعفر ؓ،حضرت حمزہؓ ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ اور حضرت بلالؓ اور حضرت سلمانؓ اور حضرت عمارؓ اور حضرت مقدادؓ اور حضرت حذیفہؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ۔

سوال: عبداللہ بن ابی بن سلول نےیہ سازش کیوں کی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:عبداللہ بن ابی بن سلول کی اس میں یہ غرض تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکرؓ لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپؓکے تعلقات رسول کریم ﷺ سے بھی خراب ہو جائیںگے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑجائےگا جس کا قائم ہونا اسے لابدی نظر آتا تھا، نظر آ رہا تھا کہ لازمی یہ ہو گا۔ اور جس کے قائم ہونے سے اس کی امیدیں تباہ ہو جاتی تھیں۔

سوال: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت ابوبکر ؓ کا کیا مقام تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہؐ! آپ میری فلاں حاجت پوری کر دیں۔ آپؐنے فرمایا اس وقت نہیں، پھر آنا۔ وہ بدوی تھا اور تہذیب و شائستگی کے اصول سے ناواقف تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ آخر آپؐانسان ہیں۔ اگر میں پھر آؤں اور آپؐاس وقت فوت ہو چکے ہوں تو میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں دنیا میں نہ ہوا تو ابوبکرؓ کے پاس چلے جانا، وہ تمہاری حاجت پوری کر دے گا۔

سوال: آنحضرت ﷺ نے 9 ہجری میں حج کرنے کا ارادہ کیوں ترک کر دیا تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 9؍ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکو امیر الحج بنا کر مکہ روانہ فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا۔ پھر آپؐسے ذکر کیا گیا کہ مشرکین دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حج کرتے ہیں اور شرکیہ الفاظ ادا کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سال حج کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا۔

سوال: جب رسول کریم ﷺ نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو کون آپ کی جگہ نماز پڑھاتا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکر آپؐ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں۔

سوال: جب کسی کو رسول کریمﷺ سےکوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو وہ کس سے پوچھتے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان ابوبکر سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔

…٭…٭…٭…