سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے شروع میں کون سی آیت کی تلاوت فرمائی؟
جواب: حضور انور نےخطبہ کے شروع میں سورۃ البقرہ کی آیت187 کی تلاوت فرمائی وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ترجمہ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں۔ میں دُعا کرنے والے کی دُعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
سوال: حضرت مسیح موعود ؑ نے دعا کے متعلق کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:دعا خداتعالیٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریںکہ خدا کہاںہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہہ دو کہ بہت ہی قریب ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تومَیں اسکا جواب دیتاہوں۔ یہ جواب کبھی رؤیا ئے صالحہ کے ذریعے ملتا ہے کبھی کشف والہام کے واسطے سے۔ علاوہ بریں دعائوں کے ذریعہ خداتعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتاہے۔ غرض دُعا بڑی دولت اور طاقت ہے۔ اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی گئی ہےذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیھم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔
سوال: سچے دل سے توبہ کرنے والوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کیا سلوک کرتا ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ یعنی میں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں۔ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ سچے دل سے توبہ کرنے والا کرتا ہے۔اگر خداتعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہو تو پھر توبہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا۔ سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خداتعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اس نے توبہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اوراسی وقت سے ایک نور کی تجلّی اسکے دل میں شروع ہو جاتی ہے جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘
سوال: رمضان کے آخری عشرہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح عبادت کیا کرتے تھے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آخری عشرے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کیلئے اتنی کوشش فرماتے جو اسکے علاوہ کبھی دیکھنے میں نہ آتی تھی۔
سوال: دعا کس طرح کرنی چاہئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دعا کا یہ طریق بیان فرمایا کہ بندہ اس کے سوا کسی سے نہ مانگے اور پھر دعا کیلئے صبر سےمانگتا چلا جائے۔ جلدبازی کرتے ہوئے بیچ میںچھوڑ دینا دعا مانگنے کا طریق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ جب بھی دعا کرتے ہیں توصبر سے دعا کرتے ہیں جلد بازی نہیں کرتےتو وہ اپنے مقصود کو پا لیتے ہیں۔
سوال:اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرنے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟
جواب:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے جس کیلئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کیلئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محبوب اس کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان پر جو ابتلاء آچکے ہیں یا جن سے خطرہ درپیش ہو ان سے محفوظ رہنے کیلئے سب سے زیادہ مفیدبات دعا ہے۔ پس اے اللہ کے بندو تمہیں چاہئے کہ تم دعا میں لگے رہو۔
سوال: تکالیف اور مصائب میں دعا کے متعلق کیا حدیث بیان ہوئی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تکالیف اور مصائب کے وقت اسکی دعائوں کو قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ خوشحالی کے اوقات میں کثرت سے دعائیںکرتا رہے۔
سوال: جو شخص اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے گا تو خدا تعالیٰ اسکے ساتھ کس طرح کا سلوک کرے گا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے، اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اسے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
سوال:جو شخص دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کریگا تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا سلوک کرے گا؟
جواب:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوںمیں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے۔ اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے۔ اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے۔
سوال: آخری عشرہ میں خدا تعالیٰ اپنے بندے پرقبولیت دعا کے کیا نظارے دکھاتا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: آخری عشرہ میں تو پہلے سے بڑھ کر خداتعالیٰ اپنے بندے کی طرف متوجہ ہو تا ہے۔ قبولیت دعا کے نظارے پہلے سے بڑھ کر ظاہر کرتا ہے بلکہ ان دنوں میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کہا ہے اور یہ ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس ایک رات کی عبادت انسان کو باخدا انسا ن بنانے کیلئے کافی ہے۔
سوال:آخری عشرہ کے دنوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ جو آخری عشرہ کے دن ہیں یہ اس برکتوں والے مہینے کی وجہ سے جہنم سے نجات دلانے کے دن ہیں۔ گناہ گار سے گناہگار شخص بھی اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تو اپنے آپکو آگ سے بچانے والا ہو گا۔
سوال: ایمان کی تعریف کیا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایمان کی تعریف یہ ہے کہ حق کی یا سچائی کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہو جائے۔
سوال:آخری عشرہ کی کیا اہمیت ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ جہنم سے نجات دیتا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے۔
سوال:آخری عشرہ میں ہمیں کیا دعا کرنی چاہئے؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آخری عشرہ میں ہمیں یہ دعاکرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی ہوا و ہوس کی جہنم سے ہمیںنجات دے۔ ہماری دعائیں قبول فرمائے، ہماری توبہ قبول فرماتے ہوئے ہمیںاپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے۔
سوال:گزشتہ گناہ بخشے جانے کا کیا مطلب ہے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:گزشتہ گناہ بخشے جانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ اس کو آئندہ گناہ سے نفرت پیدا ہو جائے گی اور نیکیاں کرنے کی طرف توجہ زیادہ پیدا ہو جائے گی اور اسکا ہر فعل خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے گا۔
سوال:دعا کرنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ خود بخود انسان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ دعا قبول ہو گئی۔ اپنے اندر ایک تبدیلی نظر آ رہی ہوتی ہے۔پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اسکے صفات غیرمتبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کیلئے اس کی ایک الگ تجلی ہے۔جس کو دنیا نہیں جانتی گویا وہ اَور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں۔ مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلی کی شان میں اس کے تبدیلی یافتہ کیلئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کیلئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے۔
…٭…٭…٭…