مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے
مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدے میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں ناپاک دل کے لوگ انکو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں
سوال:طبہ کے شروع میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کون سی آیت کی تلاوت فرمائی؟
جواب: حضور انور نے خطبہ کے شروع میں سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر 4 کی تلاوت فرمائی وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ترجمہ:اور انہیں میں سے دوسروں کی طرف بھی مبعوث کیاہے جو ابھی ایمان نہیں لائے۔ وہ کامل غلبے والا اورحکمت والاہے۔
سوال: حضور انور نے وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ کی کیا تشریح فرمائی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جب آیت وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ نازل ہوئی تو ایک صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں جو درجہ تو صحابہ کا رکھتے ہیں لیکن ابھی ان میںشامل نہیں ہوئے۔رسول کریم ر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس شخص نے یہ سوال تین دفعہ دوہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ہم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا یعنی زمین سے ایمان بالکل ختم ہو گیا تو ان میں سے ایک شخص اس کو واپس لائے گا، دوسری جگہ رِجَالٌ کا لفظ بھی ہے یعنی اشخاص واپس لائیں گے۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت میں شامل ہونے والوں کی عبادت کا کیا معیار بیان فرمایا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: مَیں دیکھتا ہوں کہ میری بیعت کرنے والوں میں دن بدن صلاحیت اور تقویٰ ترقی پذیر ہے اور ایام مباہلہ کے بعد گویا ہماری جماعت میں ایک اور عالم پیدا ہو گیاہے۔ مَیں اکثر کو دیکھتا ہوں کہ سجدے میں روتے اور تہجد میں تضرع کرتے ہیں ناپاک دل کے لوگ انکو کافر کہتے ہیں اور وہ اسلام کا جگر اور دل ہیں۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حبی فی اللہ منشی ظفر احمدؓ کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:یہ جوان صالح، کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے۔ استقامت کے آثار و انوار اُس میں ظاہر ہیں۔ وفاداری کی علامات اور امارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے لذت اٹھاتا ہے۔ اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار اصولِ فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مَرکَب ہے دونوںسیرتیں اس میں پائی جاتی ہیں۔
سوال: حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی قربانی اور اخلاص کا کیا معیار تھا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کچھ رقم کی ایک تحریک فرمائی تھی، چندہ کی ضرورت تھی کہ وہاں کی جماعت سے لے کر آئیں۔ تو یہ خود ہی اہلیہ کا زیور بیچ کر لے آئے تھے اور جماعت کو پتہ بھی نہیں لگنے دیا اور بعد میں لوگ ان سے ناراض بھی ہوئے تھے۔ اسطرح اخلاص میں بڑھے ہوئے تھے۔
سوال: حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓحضرت مسیح موعود ؑ کے عشق میںکیا تحریرفرماتے ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓحضرت مسیح موعود ؑکے عشق میں تحریرفرماتے ہیں کہ اے میرے آقا!میں اپنے دل میں متضاد خیالات موجزن پاتا ہوں، ایک طرف تو مَیں بہت اخلاص سے اس امر کا خواہاں ہوں کہ حضورؑ کی صداقت اور روحانی انوار سے بیرونی دنیا جلد واقف ہو جائے اور تمام اقوام و عقائد کے لوگ آئیں اور اس سرچشمہ سے سیراب ہوں جو اللہ تعالیٰ نے یہاں جاری کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس خواہش کے عین ساتھ ہی اس خیال سے میرا دل اندوہ گیر ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی حضور سے واقف ہو جائیں گے اور بڑی تعداد میں یہاں آنے لگیں گے تو اسوقت مجھے آپکی صحبت اور قرب جس طرح میسر ہے اس سے لطف اندوز ہونے کی مسرت سے محروم ہو جائوں گا۔ ایسی صورت میں حضورؑدوسروں میں گھِر جائیں گے۔ حضور والا مجھے اپنے پیارے آقا کی صحبت میں بیٹھنے اور ان سے گفتگو کرنے کا جو مسرت بخش شرف حاصل ہے اس سے مجھے محرومی ہو جائے گی ایسی متضاد خواہشات یکے بعد دیگرے میرے دل میں رونما ہوتی ہیں۔
سوال: حضرت نواب محمد علی خان صاحب اپنے بھائی کو خط میں کیا تحریر فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت نواب محمد علی خان صاحب اپنے بھائی کو ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں :جن امور کیلئے میں نے قادیان میں سکونت اختیارکی میں نہایت صفائی سے ظاہر کرتا ہوں کہ مجھ کو حضرت اقدس مسیح موعود اور مہدی مسعود کی بیعت کئے ہوئے بارہ سال ہو گئے اور مَیں اپنی شو مئ طالع سے گیارہ سال گھر ہی میں رہتا تھا اور قادیان سے مہجور تھا۔ صرف چند دن گاہ بگاہ یہاںآتا رہا اور دنیا کے دھندوں میں پھنس کر بہت سی عمر ضائع کی۔ آخرجب سوچا تو معلوم کیا کہ عمر تو ہوا کی طرح اڑ گئی اور ہم نے نہ کچھ دین کا بنایا اور نہ دنیا کا۔ اور آخر مجھ کو یہ شعر یاد آیا کہ
ہم خداخواہی و ہم دنیائے دُوں
ایں خیال است ومحال است و جنوں
( خدا کو بھی چاہنا اور گھٹیا دنیا کو بھی چاہنا یہ صرف ایک خیال ہے اور یہ ناممکن ہے اور پاگل پن ہے)
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:انکی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا۔نوکری بھی انہوں نے اس واسطے چھوڑ دی تھی کہ اسمیں دین کی ہتک ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں انکو ایک نوکری دو سو روپیہ ماہوارکی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کردیا۔ خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزار دی ۔ صرف عربی کتابوں کودیکھنے کا شوق رکھتے تھے ۔اسلام پرجو اندرونی اور بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے دفاع میں عمر بسر کردی۔باوجود اس قدر بیماری اورضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔
سوال:حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمیؓکی عاجزی و انکساری کی بابت حضرت مولوی عبد المغنی صاحب نے کیا بیان فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمیؓ کے بارے میں حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب لکھتے ہیں کہ: نام اور نمود، ریا، ظاہرداری، علمی گھمنڈ ، تکبر ہرگز نہیں تھا۔ دوران قیام قادیان میں جب بھی کوئی کہتا مولوی صاحب! فوراً روک دیتے کہ مجھے مولوی مت کہو، مَیں نے تو ابھی مرزا صاحب سے ابجد شروع کی ہے، الف ب شروع کی ہے۔
سوال: حضرت میاں محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت میاں محمد خان صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:حبی فی اللہ میاں محمد خان صاحب ریاست کپور تھلے میں نوکر ہیں، نہایت درجہ کے غریب طبع، صاف باطن، دقیق فہم، حق پسند ہیں اور جسقدر انہیں میری نسبت عقیدت و ارادت و محبت اور نیک ظن ہے مَیں اسکا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے انکی نسبت تردد نہیںکہ انکے اس درجہ ارادت میں کبھی کچھ ظن پیدا ہو بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے۔ وہ سچے وفادار اور جاںنثار اور مستقیم الاحوال ہیں۔ خدا انکے ساتھ ہو۔انکا نوجوان بھائی سردار علی خان بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے۔ یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید و رشید ہے۔ خداتعالیٰ انکا محافظ ہو۔
سوال:حضرت منشی عبدالرحمنؓ صاحب کپور تھلوی کے تقویٰ کے معیارکے متعلق کیا بیان ہوا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت منشی عبدالرحمنؓ صاحب کپور تھلوی نےپنشن پانے کے بعداپنی ملازمت کا محاسبہ کیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ سرکاری سٹیشنری میںغریب طلباء یا بعض احباب کو وقتاً فوقتاً کوئی کاغذ، قلم اور دوات یا پنسل دیتے رہے ہیں۔ بات یہ تھی کہ محلے کے طلباء بچے یا دوست احباب منشی صاحب سے کوئی چیز مانگ لیتے اور لحاظ کے طور پر منشی صاحب دے دیتے تھے۔یہ ایک بہت ہی ناقابل ذکر شے ہوتی تھی اور کئی سالوں میں بھی پانچ سات روپے سے زیادہ قیمت نہ رکھتی ہو گی۔ لیکن منشی صاحب نے محسوس کیا کہ انہیں ایسا کرنے کا دراصل حق نہیں تھا۔ اعلیٰ ایمانداری کا تقاضا یہی تھا ۔پس آپنے کپور تھلے کے وزیراعظم کو لکھا کہ میں نے اس طریق پر بعض دفعہ سٹیشنری صَرف کی ہے آپ صدر ریاست ہونے کیوجہ سے مجھے معاف کر دیں تاکہ مَیں خداتعالیٰ کے روبرو جوابدہی سے بچ جائوں۔ ظاہر ہے کہ صدر ریاست نے پھر درگزر کیا۔تو یہ تھے اعلیٰ معیار تقویٰ کے جو پیدا ہوئے۔
سوال: منشی اروڑےخان صاحبؓکی نوکری میں دیانت داری کا کیا واقعہ ملتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ایک دفعہ کسی نے ہنس کر کہا بابا کبھی رشوت تو نہیں لی تھی؟ منشی صاحب پر ایک خاص قسم کی سنجیدگی جوجوش صداقت سے مغلوب تھی طاری ہوئی اورسائل کی طرف دیکھ کرفرمایاکہ مَیں نے جب تک نوکری کی اورجس طرح اپنے فرض کو ادا کیا ہے اورجس دیانت سے کیاہے اور جو فیصلے کئے ہیں اور جس صداقت اور ایمانداری کے ساتھ کئے ہیں اور پھرجس طرح ہر قسم کی نجاستوں سے اپنے دامن کوبچا یا ہے سب باتیں ایسی ہیںکہ اگر ان سب کو سامنے رکھ کر مَیں اپنے خدا سے دعا کروں تو ایک تیر اندازکا تیر خطا کرسکتاہے لیکن میر ی وہ دعا ہرگز خطا نہیں کرسکتی۔
…٭…٭…٭…