خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ26؍اگست 2005 بطرز سوال وجواب
بمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
حضرت رسول کریم ﷺنے فرمایا کہ ایک مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ
وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے اور یہ کہ وہ راستے میں ایک دوسرے سے ملیں تو منہ پھیرلیں
سوال:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے شروع میں کون سی آیت تلاوت فرمائی؟
جواب:حضور انور نے خطبہ کے شروع میں سورۃ ال عمران آیت نمبر104وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ اسکا ترجمہ ہے کہ: اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اسکی نعمت سے تم بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تمہارے لئے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ شاید تم ہدایت پاجاؤ۔
سوال:وہ رسی کون سی تھی جس کوپکڑ کر صحابہ کرام میں روحانی اور اخلاقی تبدیلی پیدا ہوئی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: وہ رسّی تھی اللہ تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم، جو احکامات اور نصائح سے پُر ہے۔ جسکے حکموں پر سچے دل سے عمل کرنے والا خداتعالیٰ کا قرب پانے والا بن جاتا ہے۔ وہ رسّی تھی نبی کریم ﷺ ذات کہ آپؐ کے ہر حکم پر قربان ہونے کیلئے صحابہؓ ہر وقت منتظر رہتے تھے۔
سوال:صحابیوں کے درمیان بھائی چارہ کس طرح کا تھا؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسکے متعلق ایک واقعہ بیان فرمایا:حضور انور نے فرمایاکہ ایک جنگ کے بعد پانی پلانے والے مسلمان زخمیوں کے درمیان پھر رہے تھے، ایک پلانے والے نےایک کراہ کی آواز سنی۔جب وہ پانی پلانے والے اس کراہنے والے صحابیؓ کے پاس پہنچے جو زخموں سے چور تھے ،جان کنی کی حالت تھی۔پانی پلانے والے نے جب پانی انکے منہ کو لگایا تو اس وقت ایک اور کراہ کی آواز آئی، پانی مانگا گیا ۔پہلے زخمی نے کہا: نہیں، بہتر یہ ہے تم مجھے چھوڑو۔ مَیں اس سے بہتر حالت میں ہوں ۔وہ جس طرح مجھے دیکھ رہا ہے، اسی طرح پانی کی طرف دیکھ رہا ہے، پانی مانگ رہا ہے تم پہلے اس زخمی کو پانی پلاؤ۔ پانی پلانے والے جب اس دوسرے زخمی کے پاس پہنچے تو پھر ایک طرف سے کسی کی کراہتے ہوئے پانی مانگنے کی آواز آئی۔تو اس دوسرے زخمی نے کہا کہ نہیں وہ زخمی میرے سے زیادہ حقدار ہے، اس کو پانی دو۔ میں برداشت کرلوں گا۔ اس طرح جب پانی پلانے والے تیسرے صحابیؓ کے پاس پہنچے تو جب ان کے منہ کو پانی لگایا گیا تو پانی پینے سے پہلے ہی وہ اللہ کے حضور حاضر ہوگئے اور جب یہ پانی پلانے والے واپس دوسرے کے پاس پہنچے تو ان کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ اور جب پہلے کے پاس پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حضور حاضر ہوچکے تھے۔تو دیکھیں اس آخری جان کنی کے لمحات میں بھی اپنے بھائی کی خاطر قربانی کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے وہ تمام زخمی صحابہؓ اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے۔
سوال:حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اہل تقویٰ کیلئے کیا شرط بیان فرمائی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اہل تقویٰ کیلئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیںناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کیلئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔ عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے‘‘ یعنی غرور اور تکبر غضب سے پیدا ہوتا ہے، غصے سے پیدا ہوتا ہے۔’’ اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ غضب اس وقت ہوگا جب انسا ن اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘
سوال:اگر دل تقویٰ میں ہو تو کیا کیا تبدیلیاں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اگردل تقویٰ میں ہے تو اللہ تعالیٰ کے دین کی مضبوطی کی خاطر، اپنے ایمانوں میں مضبوطی کی خاطر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی۔ اور اپنی اناؤں اور غصے کو دبانے کی توفیق ملتی رہے گی۔
سوال:وہ معاشرہ کب قائم ہوگاجب مکمل طور پر خداتعالیٰ کے احکامات پر عمل ہوگا؟
جواب:اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس۔ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (آل عمران:135) یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصّہ دباجانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔جب ہم اس آیت کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالیں گے تب ایک حسین معاشرہ کا قیام عمل میں آئے گا۔
سوال:اعلیٰ اخلاق دکھانے والے کون لوگ ہیں؟
جواب:حضور انورنے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے کیلئے آپس میں محبت و پیارکی فضا پیداکرنے کیلئے، ایک ہو کر رہنے کیلئے، اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کیلئے، جماعت کی مضبوطی اور وقار کیلئے، ایک دوسرے کے قصور معاف کرتے ہیں۔ اپنی جھوٹی اناؤں کو دباتے ہیں۔
سوال:اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز کون ہے؟
جواب:اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ۔ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شخص کی بابت کیا فرمایا جو سختی کرتا اور غضب میںجلدی آجاتا ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ یادرکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آجاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیاجاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلد ی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونوںجمع نہیں ہوسکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔‘‘
سوال:اللہ تعالیٰ جھگڑوں اور فساد سے بچنے کیلئے کیا فرماتا ہے؟
جواب:اللہ تعالیٰ فرماتاہے:وَ اَطِیْعُوا اللّٰہ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ترجمہ:اور اللہ کی اطاعت کرو اور اسکے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو۔ یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
سوال:ا ٓپس میں تفرقہ کو دور کرنے کیلئے رسول کریم ﷺ نے کیا اصل ہمیں بیان فرمایا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے اور یہ کہ وہ راستے میں ایک دوسرے سے ملیں تو منہ پھیرلیں۔ ان دونوں میں سے بہترین وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔
سوال:جو شخص کسی کی بے چینی، تکلیف اور دکھ کو دورکرے اور اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرےتو اللہ تعالیٰ اسکے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اسکے کرب کو دور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے کرب اور اسکی بے چینی کو دور کرے گا اور جو شخص کسی تنگ دست کیلئے آسانی مہیا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کیلئے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اسکی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کیلئے کوشاں رہتا ہے۔
سوال:آٓپس میں رنجشیں رکھنے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟
جواب:حضور انورنے فرمایا: آپس کی رنجشوں کو لمبا نہیں کرنا چاہئے اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے جماعتی وقار کو نقصان پہنچاتا ہے۔ غیر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔