اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-30

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ2 ستمبر 2005 بطرز سوال وجواب
بمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ہرجلسہ جو جماعت احمدیہ کسی بھی ملک میں منعقد کرتی ہے اس کی کامیابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش اور فکر اور متضرعانہ اور درد بھری دعائوں کا ثمرہ ہے

 

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان جلسوں کو کروانے کا کیا مقصد تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ان جلسوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقصداپنی قائم کردہ جماعت میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرنا تھا۔ ہر احمدی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے والا بنانا تھا۔ ہر احمدی کو خداتعالیٰ کا حقیقی عبد بنانا تھا۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں ایک سال جلسہ کیوں نہیں ہوا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایک سال آپؑکویہ احساس پیدا ہوا کہ جلسے کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہوا، جو لوگ شامل ہوئے ہیں ان میں سے اکثریت یا بعض ایسے تھے جو اس جلسے کو بھی دنیاوی میلہ سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وجہ سے ایک سال جلسہ منعقد نہیں فرمایا۔
سوال: جلسہ کی کامیابی کے پیچھے کس کی دعائیں رنگ لا رہی ہوتی ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ہر جلسہ جو جماعت احمدیہ کسی بھی ملک میں منعقد کرتی ہے اس کی کامیابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنے ماننے والوں کے دلوںمیں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش اور فکر اور متضرعانہ اور درد بھری دعائوں کا ثمرہ ہے جو آج ہم ہرجگہ دیکھ رہے ہیں اور یہ ثمر کھا رہے ہیں، یہ پھل کھا رہے ہیں۔
سوال: حضور انور نے ایک نومبائع خاتون کی جلسہ میں شرکت کے متعلق کون سا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ایک خاتون نے آٹھ دس سال پہلے جب بیعت کی تو جلسے پر تشریف لائیں اور جس پرانی احمدی خاتون کے ساتھ آئی تھیں ان کا پروگرام یہ تھا کہ اپنے کسی عزیز کے ہاںرات کو رہنا ہے۔ تو اسوقت یہ نئی بیعت کرنے والی بڑی پریشان تھیں کہ میرا تو یہاں کوئی واقف نہیں ۔یہی میری ایک واقف تھی اب یہ بھی یہاں سے جارہی ہے ۔وہ سوچ رہی تھیں کہ اکیلی مَیں کیاکروں
گی۔ کسی کو مَیں جانتی نہیں۔ یہ نئی احمدی خاتون جلسہ گاہ کے انتظام کے تحت وہیں جلسہ گاہ میں ہی رہیں۔ وہ کہتی ہیں مَیں پریشانی میں دعائیں کرتی رہی۔ اتنے میں ایسی کیفیت میں آنکھ لگ گئی۔ خواب میں نظارہ دیکھا کہ آسمان سے ایک روشنی پھوٹی ہے جو دائرے کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس میں سے کچھ اوراق، کچھ صفحے، کچھ کاغذ نیچے آئے ہیں جن پہ عربی عبارت تھی، ان کو یاد تو نہیں کہ وہ عبارت کیا تھی، لیکن ان کا خیال ہے کہ قرآن کریم کے ہی کچھ احکامات تھے، نصائح تھیں اور دعائیں تھیں۔ ان کے مطابق وہ نظارہ ان کے لئے اتنی تسکین کا باعث تھا کہ سارا خوف، فکر سب کچھ دور ہو گیا۔ یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ نئی جگہ ہے، نئے لوگ ہیں۔ تو اگلے دن صبح جب وہ احمدی خاتون آئیں جن کے ساتھ یہ آئی تھیں تو انہوں نے جو چلی گئی تھیں ان کو بتایا کہ مَیں تو اپنے فلاں عزیز کے گھر چلی گئی تھی، رات میری بڑے آرام سے گزری ہے، پتہ نہیں تمہاری رات یہاں کس طرح گزر ی۔ تو اس نومبائع نے کہا کہ جو نظارے مَیں نے دیکھے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضلوں سے نوازا ہے اور میری تسکین کے سامان پیدا فرمائے ہیں وہ بھلا تمہیں کہاں حاصل ہوئے۔
سوال: جلسے سے ہم کس طرح فیض حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جلسے میں سنی اور سیکھی ہوئی باتوں کو اپنے دلوں میں بٹھانا ہے اور اس کا اثر اگلے جلسے تک قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور پھر اگلے سال ایک نئی روح، ایک نئے جوش، ایک نئے جذبے کے ساتھ پھر چارج (Charge) ہو کر آئندہ کے لئے پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں۔ ورنہ آپ جلسے کے فیض سے حصہ پانے والے نہیںہوں گے۔
سوال: کس چیزکو اپنی زندگی کا حصہ بنانے سے ہم حضرت مسیح موعود ؑ کی دعائوں کے وارث بنیں گے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:تقویٰ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائوںکے مستقل وارث بنتے چلے جائیں گے۔
سوال: آنحضرت ﷺ دین کو ثابت قدم رکھنے کیلئے کیا دعا پڑھا کرتے تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ایک روایت میں آتا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ یَا مُقَلِّبَ القُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ کہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔
سوال: حضور انور نے کون سی دو باتیں بیان فرمائی جو دلوں کو ٹیڑھاکرنے کا باعث بنتی ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:بعض معمولی باتیں ہوتی ہیں جو دلوں کو ٹیڑھا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں اور عموماً یہی چیزیں ہوتی ہیں۔ مثلاً دو باتیں ہیں ایک شدید محبت اور ایک شدید غصہ جس میں انتہاء پائی جاتی ہو۔ تو اصل میں جو شدید محبت ہے وہی شدید غصے کی وجہ بنتی ہے۔ جب غصہ آتا ہے تو وہ یا تو نفس کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے یا اپنے کسی قریبی عزیز کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے۔ بعض دفعہ میاں بیوی کی جو گھریلو لڑائیاں یا خاندانی لڑائیاں یا کاروباری لڑائیاں ہوتی ہیں ان میں انسان مغلوب الغضب ہو کر ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے۔ تو جب یہ مغلوب الغضب ہوتا ہے تو اس وقت اپنے نفس سے ہی پیار کر رہا ہوتا ہے۔ اس کو اپنے نفس کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیںآ رہی ہوتی اور اس کو پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ بالکل ہوش و حواس غائب ہوتے ہیں۔
سوال: حضور انور نے ان خواتین کی بابت کیا بیان فرمایا جو اپنے تعارف صحابہ کے حوالے سے کرواتی ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: بعض خواتین اپنے تعارف تو صحابہ کے حوالے سے کروا رہی ہوتی ہیں لیکن لباس اور پردے کی حالت اور فیشن سے لگتا ہے کہ دین پر دنیا غالب آ رہی ہے۔
سوال: نیک عمل کی اہمیت حضور انور نے کس حدیث کے حوالہ سے بیان فرمائی۔
جواب: حضورانور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو فرمایا تھا کہ تمہیں میری بیٹی ہونا کوئی فائدہ نہیں دے گا جب تک تمہارے اپنے عمل نیک نہیں ہونگے۔
سوال: جلسہ کی تقاریر کا محور کیا ہوتا ہے؟
جواب: حضور انور نے احبات جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:جلسہ پر آپ نے مختلف عنوانا ت کے تحت تقریریں سنتے ہیں ان سب کا محور ایک ہی تھاکہ تقویٰ اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنا۔
سوال: ہر احمدی کو جماعت کے فیصلوں پر کس طرح عمل کرنا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:کبھی کبھار نظام جماعت سے بھی فیصلے میں غلطی ہو سکتی ہے ، قضا سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں ۔ لیکن ہمیشہ ٹھنڈے دل سے ان فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اگر کوئی اپیل کا حق ہے توٹھیک، نہیں تو جو فیصلہ ہوا ہے اس کو ماننا چاہئے۔
سوال: اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے کس چیز سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اپنے دلوں کو ٹیڑھا ہونے سے بچانا نہایت ضروری ہے۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1903ء کو جلسہ کی بابت کیا الہام ہوا تھا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1903ء میں الہام جلسہ کی بابت الہام ہوا تھا کہ دُعَاءُکَ مُسْتَجَابٌ تیری دعا مقبول ہوئی۔
…٭…٭…٭…