اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-03-30

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ16؍ستمبر2022بطرز سوال وجواب
بمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

رسول کریمﷺ نے فرمایا اَے لوگو! ابوبکرؓ کو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس نیکی کی وجہ سے ہے جو اسکے دل میں ہے
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ

 

سوال: ذِمیوں کے حقوق کے بارے میںحضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ذمی وہ لوگ تھے جو اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر کے اپنے مذہب پر قائم رہے اور اسلامی حکومت نے ان کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے برعکس فوجی خدمت سے بری تھے اور زکوٰۃ بھی ان پر عائد نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے انکے جان و مال اور دوسرے انسانی حقوق کی حفاظت کے بدلے ان سے ایک معمولی ٹیکس وصول کیا جاتا تھا جسے عرف عام میں جزیہ کہتے ہیں۔ اسکی مقدار صرف چار درہم فی کس سالانہ تھی اور یہ صرف بالغ، تندرست اور قابلِ کار افراد سے وصول کیا جاتا تھا۔ بوڑھے، اپاہج، نادار، محتاج اور بچے اس سے بری تھے بلکہ معذوروں، محتاجوں کو اسلامی بیت المال سے مدد دی جاتی تھی۔ عراق اور شام کی فتوحات کے دوران میں متعدد قبائل اور آبادیاں جزیہ کی بنیاد پر اسلامی رعایا بن گئے۔ ان سے جو معاہدے ہوئے ان میں اس قسم کی شقیں بھی رکھی گئیں کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ انکا کوئی ایسا قلعہ گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہوں۔ ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہو گی اور نہ تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے روکے جائیں گے۔یعنی وہ صلیب کا جلوس بھی نکال سکتے ہیں۔
سوال: جنگ یمامہ میں جب بڑی تعداد میں حفاظ کرام شہید ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر کو کیا مشورہ دیا ؟
جواب:حضرت عمر ؓنے حضرت ابوبکرؓسے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں قرآنِ کریم کے بہت سے حفاظ شہید ہو گئے ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ مختلف جنگوں میں بہت سے قاری یا حفاظِ قرآن شہید ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے کہا کہ میری رائے میں آپؓ جمعِ قرآن کا حکم دیں۔
سوال: حضرت ابوبکر نے حضرت زیدؓ کو قرآن جمع کرنے کی بابت کیا فرمایا؟
جواب:حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا اے زید! یقیناً تُو ایک جوان اور عقلمند آدمی ہے اور ہم تجھے کسی الزام یا عیب سے پاک سمجھتے ہیں۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وحی بھی لکھا کرتے تھے۔ پس اب تم قرآن شریف کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اسے جمع کروآپؓ نے فرمایا بخدا! یہ کام سراسر خیر ہے۔
سوال: رسولِ کریم ﷺ کے زمانہ میں پورا قرآن نہ لکھا گیا تھا اس اعتراض کا جواب حضر ت مصلح موعودؓ نے کیا دیا؟
جواب:حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اسکا جواب یہ ہے کہ یہ درست نہیں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یقیناً سارا قرآن لکھا گیا‘‘ تھا۔ یہ جو کہتے ہیں نہیں لکھا گیا یہ غلط ہے۔ لکھا گیا تھا۔ ’’جیساکہ حضرت عثمانؓ کی روایت ہے کہ جب کوئی حصہ نازل ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے والوں کو بلاتے اور فرماتے اسے فلاں جگہ داخل کرو۔ جب یہ تاریخی ثبوت موجود ہے تو پھر یہ کہنا کہ قرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت پورا نہ لکھا گیا تھا بے وقوفی ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر حضرت ابوبکرؓکے زمانہ میں کیوں لکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن اس طرح ایک جلد میں نہ تھا جس طرح اب ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس بارے میں حضرت ابوبکرؓسے جو الفاظ کہے وہ یہ تھے کہ اِنِّیْ اَرٰی اَنْ تَاْمُرَ جَمْعَ الْقُرْاٰنِ۔ مَیں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ قرآن کو ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیں۔یہ نہیں کہا کہ آپ اس کی کتابت کرالیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓنے زیدؓ کو بلا کر کہا کہ قرآن جمع کرو چنانچہ فرمایا اِجْمَعْہُ۔ اسے ایک جگہ جمع کر دو یہ نہیں کہا کہ اسے لکھ لو۔ غرض الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اس وقت قرآن کے اوراق کو ایک جلد میں اکٹھا کرنے کا سوال تھا لکھنے کا سوال نہ تھا۔‘‘
سوال: حضرت ابوبکر کے خشیتِ الٰہی اور زہد و تقویٰ کے بارے حضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت ربیعہ بن جعفرؓ اور حضرت ابوبکرؓ کو کچھ زمین عطا فرمائی۔ دونوں میں ایک درخت کیلئے اختلاف ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بحث کے دوران کوئی سخت بات کہہ دی لیکن بعد میں اس پر نادم ہوئے اور کہا ربیعہ تم بھی مجھے کوئی ایسی سخت بات کہہ دو تا کہ وہ اس کا قصاص ہو جائے۔ جس طرح میں نے سختی سے بات کی تم بھی مجھے بات کہہ دو لیکن حضرت ربیعہؓ نے انکار کر دیا۔ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے سارا واقعہ بیان کیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ربیعہ تم سخت جواب نہ دو لیکن یہ دعا دو غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا اَبَابَکْرٍ اے ابوبکر! اللہ تم سے درگذر فرمائے۔ اس پر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات جب سنی تو اس کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ زار و قطار روتے ہوئے واپس لَوٹے۔
سوال: حضرت مصلحموعود ؓ نے سورۃ النبا کی آیت41 وَیَقُوْلُ الْكَافِرُ یَالَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرَابًا کی کیا تفسیر بیان فرمائی؟
جواب:حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض مسلمان فرقے صحابہؓ کے بغض میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ موت کے وقت یہی فقرہ کہتے تھے پس ان کا کفر ثابت ہے۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓکی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت عائشہ ؓسے کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا اے میری بیٹی! تُو جانتی ہے کہ لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اور عزیز مجھے تم ہو اور میں نے اپنی فلاں جگہ کی زمین تمہیں ہبہ کی تھی۔ اگر تم نے اس پر قبضہ کیا ہوتا اور اس کے نفع سے استفادہ کیا ہوتا تو وہ یقیناً تمہاری ملکیت میں تھی لیکن اب وہ میرے تمام وارثوں کی ملکیت ہے۔ میں پسند کرتا ہوں کہ تم وہ واپس لوٹا دو۔ وہ ہبہ واپس لوٹا دو کیونکہ اس پہ تم نے قبضہ نہیں کیا اور میری زندگی میں وہ زمین میرے استعمال میں ہی رہی تا کہ وہ میری ساری اولاد میں اللہ کی کتاب کے مطابق تقسیم ہو جائے اور میں اپنے رب سے اس حالت میں ملوں کہ میں نے اپنی اولاد میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں دی ہو گی۔
سوال: آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کےدرجہ کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت فرمایا کہ اگر کوئی چاہے کہ مُردہ میت کو زمین پر چلتا ہوا دیکھے تو وہ ابوبکرؓ کو دیکھے اور ابوبکرؓ کا درجہ اس کے ظاہری اعمال سے ہی نہیں بلکہ اس بات سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓکی عاجزی و انکساری کا کیا عالم تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جب خلافت کی ردا آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہنائی تو اس وقت کا ذکر ہے کہ اگلے دن حضرت ابوبکرؓ جو کپڑے کی تجارت کرتے تھے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد حسب معمول کندھے پر کپڑوں کے تھان رکھ کر بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا بازار۔ انہوں نے کہا آپؓ مسلمانوں کے حاکم ہیں چلیے ہم آپؓ کیلئے کچھ وظیفہ مقرر کر دیں۔ آپؓ واپس چلیں، وظیفہ مقرر کر دیں گے۔ تجارت کی کوئی ضرورت نہیں۔
سوال: رسول کریم ﷺ نے جب لوگوں کی بات سنی کہ وہ کہتے ہیںکہ جو نیکی ہم کرتے ہیں وہی حضرت ابوبکر ؓ بھی کرتے ہیں تو ان کو ہم پر کیوں فضیلت ہے اس پر رسول کریم ﷺ نے کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں بعض لوگوں کی آواز سنی کہ ابوبکرؓ کو ہم پر کون سی زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ جیسے نیکی کے کام وہ کرتے ہیں اسی طرح نیکی کے کام ہم کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا اے لوگو! ابوبکرؓ کو فضیلت نماز اور روزوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس نیکی کی وجہ سے ہے جو اس کے دل میں ہے۔‘‘ …٭…٭…