خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ23؍دسمبر 2005 بطرز سوال وجواب
سوال: جلسے کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد کیا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: جلسے کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ اس دنیا کو ہی سب کچھ نہ سمجھو، یہ دنیا چند روزہ ہے، آخر کو انسان نے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اس لئے اپنی آخرت کی بھی فکر کرو، اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرو۔ شیطان بہت سے دنیاوی لالچ دے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے اسکا فضل مانگتے ہوئے شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ اپنے اندر زہد اور تقویٰ پیدا کرو۔ خدا ترسی کی عادت ڈالو۔ آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کے تعلقات پیدا کرو۔
سوال: خدا تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: اے سننے والو سنو کہ خداتم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم اُس کے ہو جائو، اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، نہ آسمان میں نہ زمین میں۔
سوال:ـ اللہ تعالیٰ نے مومن متقی کی کیا نشانی بیان فرمائی ہے؟
جواب:حضور انور نےفرمایا:اللہ تعالیٰ نے مومن متقی کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس۔ یعنی مومن غصہ کو دبانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔
سوال: خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق کیا فرمایا جن کا قول فعل ایک طرح کا نہیں ہوتا؟
جواب: اللہ تعالیٰ فرماتا ہےیٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(الصف:4-3)یعنی اے مومنو! وہ باتیںکیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ خدا کے نزدیک اس بات کا دعویٰ کرنا جو تم کرتے نہیں بہت ناپسندیدہ ہے۔ اس کے عذاب کو بھڑکانے والا ہے۔
سوال:کیسی باتیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک کچھ بھی وقعت نہیں رکھتیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیںکہ یاد رکھو کہ صرف لفّاظی اور لسّانی کام نہیں آسکتی جب تک عمل نہ ہو۔ اَور باتیں عنداللہ کچھ وقعت نہیں رکھتیں۔
سوال: جلسہ سالانہ کا آغاز کب ہوا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: جلسہ سالانہ کا آغاز 1891 میں قادیان سے ہوا۔
سوال: جلسہ سالانہ کا مقصد حضور انور نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اس کا مقصد اللہ اور اس کی مخلوق سے خدا تعالیٰ سے تعلق جوڈنا تھا۔
سوال: حضور انور نے کارنان کو کیا نصیحت فرمائی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:کارکنان یہ یاد رکھیں کہ یہاں آپ کسی جگہ کے خاص شہری ہونے یا کسی خاص قبیلے یا علاقے کے ہونے کی وجہ سے کام نہیں کر رہے بلکہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے کر رہے ہیں اور کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے اس لئے ایک احمدی کا نمایاں وصف چاہے وہ کہیں کا بھی شہری ہو یہ ہونا چاہئے کہ اس نے اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے خدمت کرنی ہے، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدمت کرنی ہے۔ جیسا کہ مَیںنے کہا تھا ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں تبھی آپ کا یہ جذبہ ہر وقت بیدار رہے گا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اُس نبی کے غلام ہیں جس نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے کو مہمان کی عزت اور تکریم کرنے کے لئے حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ تین دن تک اس کی مہمان نوازی کرو۔
سوال: کون سا سفر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بابرکت ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: سفر کئی طرح کے ہوتے ہیں لیکن بہت ہی بابرکت ہے وہ سفر جو دینی اور روحانی اغراض کے لئے کیا جائے۔
سوال: جب مہمان کارکنان سے سخت رویّہ اختیار کرے تو اس وقت کارکن کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:بعض دفعہ ایسے مواقع پیش آجاتے ہیںکہ مہمان کی طرف سے کسی بات کا مطالبہ ہوتا ہے جو یا تو جلسے کے حالات کے مطابق جائز نہیں ہوتا یا فوری طور پر اس کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا تو مہمان اس بات پر سخت رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور جواباً کارکن بھی اسی رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ ایک کارکن کو زیب نہیںدیتا ۔ ہر حالت میں اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے اس لئے احتیاط کریں۔
سوال: حضور انور نے ان کارکنان کو کیا نصیحت فرمائی جو گرم مزاج اور غصیلے ہوتے ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:بعض نئے معاونین بھی ہوتے ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ اس خدمت کا اعزاز پایا ہے بعض طبیعت کے لحاظ سے گرم مزاج کے یا غصیلے ہوتے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ اگر اپنی طبیعت پر کنٹرول نہیں تو ڈیوٹی سے معذرت کر دیں۔ یہ زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ بداخلاقی کا مظاہرہ کیا جائے جو کسی بھی صورت ایک احمدی کارکن کو زیب نہیں دیتا۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ خداتعالیٰ کی خاطر آئے ہوئے مہمان ہیں۔ اس لئے مومن کی یہ شان ہے کہ ان کا احترام کرے۔
سوال:وہ مہمان جو بے موقع مطالبے کارکنان سے کرتے ہیں ان کو اپنی غلطی کا احساس کب ہوگا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جب اپنے رویے کی سختی کے بعد آپ کے نرم رویے اور درگزر اور پیار کو دیکھ کر مہمان خود ہی شرمندہ ہو کر اپنے بے موقع مطالبے سے دست بردار ہو جائے۔
سوال: حدیث میں جو تین دن مہماان نوازی کی ہدایت دی ہے اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حدیث میں جو تین دن کی مہمان نوازی کی جو ہدایت ہے یہ تو مہمان کو احساس دلانے کے لئے ہے کہ میزبان پر بوجھ نہ پڑے۔ لیکن اگر نظام جماعت کی طرف سے زائد عرصہ کی میزبانی ہو رہی ہے تو آپ لوگوں نے جو اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کیا ہے توآپ سب کو، تمام کارکنوں کو اتنا عرصہ خوش دلی سے میزبانی کرنی چاہئے۔
سوال: حضور انور نے جلہ کے دنوں میں اپنے ماحول پرنظر رکھنے کی بابت کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جلسے کے دنوںمیں مختلف جگہوں سے مہمان بھی آئے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے لئے نئی شکلیں ہوں گی، پہچانتے بھی نہیںہوں گے کیونکہ قادیان کی تھوڑی سی آبادی ہے، اس سے پانچ چھ گنا زیادہ آبادی باہر سے آ ئی ہو گی تو ایسے مجمعوں میں بعض دفعہ شرارتی عنصر یا ایسا طبقہ آ جاتا ہے جو شرارت کرنے والا ہو۔ اس لئے جب تک کسی کے بارے میں صحیح علم نہ ہو جائے محتاط بھی رہیں او رنظر بھی رکھیں۔ کیونکہ ایسے لوگوں کی بعض حرکتیں شک میں ڈال دیتی ہیں۔ اگر کسی پہ شک ہو تو ہر احمدی کو نظر رکھنی چاہئے اور فوری طور پر انتظامیہ کو بھی بتا دینا چاہئے۔ خاص طور پر عورتوں میں نگرانی کی خاص ضرورت ہے۔
٭٭