اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-27

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ30؍دسمبر2022بطرز سوال وجواب

کل رات جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ جعفر فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں جبکہ حمزہ تخت پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت چچاو بدری صحابی حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز بیان

 

سوال:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حمزہ نام سے کس قدر محبت تھی؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایک آدمی کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو انہوں نے پوچھا ہم اس کا نام کیا رکھیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا نام حمزہ بن عبدالمطلب کے نام پر رکھو جو کہ مجھے سب ناموں سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

سوال: حضرت حمزہؓکی ازدواج اور اولاد کی بابت کیا بیان ہواہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: حضرت حمزہؓ کی ایک شادی مِلَّہ بن مالک جو کہ قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے ان کی بیٹی سے ہوئی جن سے یعلیٰ اور عامر پیدا ہوئے۔ اپنے بیٹے یعلیٰ کے نام پر ہی حضرت حمزہؓ کی ایک کنیت ابو یعلیٰ تھی۔ حضرت حمزہؓ کی دوسری زوجہ حضرت خولہ بنت قیس انصاریہؓ سے حضرت عُمَارہؓ کی ولادت ہوئی جن کے نام پر حضرت حمزہؓ نے اپنی کنیت ابوعُمَارہ رکھی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک شادی حضرت اسماء بنت عُمَیسؓ کی بہن حضرت سلمیٰ بنت عمیسؓ سے ہوئی جن کے بطن سے ایک بیٹی حضرت اُمَامہؓ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت اُمَامَہؓ کی خالہ حضرت اسماء بنت عُمَیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ حضرت حمزہؓ کے بیٹے یعلیٰ کی اولاد میں عُمارہ، فضل، زبیر، عقیل اور محمد تھے مگر سب فوت ہو گئے اور حضرت حمزہؓ کی نہ ہی اولاد زندہ رہی اور نہ ہی نسل چل سکی۔

سوال: شراب کی حرمت ہوگئی تو صحابہ کرام کا کیا رد عمل تھا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: جب شراب کی حرمت ہو گئی تو پھر اس کے نزدیک بھی یہ لوگ نہیں گئے، صحابہ کا اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننے کا یہ معیار تھا کہ فوری طور پر مٹکے توڑ دیے۔

سوال: رسول کریم ﷺ نے حضرت حمزہ ؓکی بابت کیا خواب بیان فرمائی؟
جواب:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کل رات جب میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ جعفر فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں جبکہ حمزہ تخت پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں ۔

سوال: یہودیوں نے جب دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں زیادہ اقتدار حاصل کرتے جا رہے ہیں تو انہوں نے کیا تدابیر اختیار کیں؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جب یہود نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں زیادہ اقتدار حاصل کرتے جاتے ہیں تو اُن کے تیور بدلنے شروع ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کا تہیّہ کرلیا اور اس غرض کیلئے انہوں نے ہرقسم کی جائز وناجائز تدابیر اختیار کرنی شروع کیں ۔

سوال: جب حضرت حمزہؓ نے جبرائیل علیہ اسلام کو دیکھا تو انہیںکیا ہوا؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: حضرت عَمّار بن ابو عمارؓ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے دونوں پاؤں سبز زَبَرْجَدکی مانند ہیں۔ وہ غشی کی حالت میں گر پڑے۔

سوال: کون سے غزوہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس شرکت کی تھی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:صفر دو ہجری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ سے ابواء کی طرف نکلے جس میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی شرکت کی توفیق ملی۔

سوال: مسلمانوںکو اللہ تعالیٰ نے جہاد بالسیف کرنے کی اجازت کب اور کیوں دی تھی؟
جواب: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھا ہے کہ جہاد بالسیف کی اجازت ہجرت کے دوسرے سال ماہ صفر میں نازل ہوئی۔ چونکہ قریش کے خونی ارادوں اوران کی خطرناک کارروائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کومحفوظ رکھنے کیلئے فوری کارروائی کی ضرورت تھی اس لئے آپؐ اسی ماہ میں مہاجرین کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ کانام لیتے ہوئے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے۔

سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوضمرۃ کے رئیس کے ساتھ جو معاہدہ کیا اسکی کیا شرطیں تھیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوضمرۃ کے رئیس کے ساتھ جو معاہدہ کیا اسکی یہ شرطیں تھیں کہ بنوضمرۃمسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے اور جب آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلمانوں کی مدد کیلئے بلائیں گے تو وہ فوراً آجائیں گے۔ دوسری طرف آپؐنے مسلمانوں کی طرف سے یہ عہد کیا کہ مسلمان قبیلہ بنوضمرۃ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھیں گے اور بوقتِ ضرورت ان کی مدد کریں گے۔

سوال: غزوہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا کس نے اٹھایا ہوا تھا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:غزوہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفید رنگ کا جھنڈا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اٹھایا ہوا تھا۔

سوال: غزوہ بدر کی روانگی سے قبل آپؐنے اپنے پیچھے مدینہ میں کس کو امیر مقرر فرمایا تھا؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: روانگی سے قبل آپؐنے اپنے پیچھے مدینہ میں سعد بن عبادہ رئیسِ خزرج کو امیر مقررفرمایا۔

سوال:حضرت حمزہؓ نے غزوۂ بدر میں قریش کے کس سردار کو قتل کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت حمزہؓ نے غزوۂ بدر میں طُعَیْمَہ بن عَدِی سردارِ قریش کو قتل کیا تھا۔

سوال:جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے اُس وقت مدینہ میں یہود کے کتنے قبائل آباد تھے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے تھے اُس وقت مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ ان کے نام بنوقینقاع، بنونضیر اور بنو قریظہ تھے۔

سوال: غزوہ بدر میں قریش نے مسلمانوں کی صحیح تعداد معلوم کرنے کیلئے کیا کیا؟
جواب: حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قریش کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح اسلامی لشکر کی تعداد کا صحیح اندازہ پتہ لگ جاوے تاکہ وہ چھوٹے ہوئے دلوں کو سہارا دے سکیں۔ اس کیلئے رؤساء قریش نے عُمَیر بن وَہْب کو بھیجا کہ اسلامی لشکر کے چاروں طرف گھوڑا دوڑا کر دیکھے کہ اس کی تعداد کتنی ہے اور آیا ان کے پیچھے کوئی کمک تو مخفی نہیں۔

سوال: جن عمیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر مسلمانوں کا چکر کاٹا تو آکر قریش سے کیا کہا؟
جواب: حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : عُمَیر نے گھوڑے پر سوار ہوکر مسلمانوں کاایک چکر کاٹا مگر اسے مسلمانوں کی شکل وصورت سے ایسا جلال اورعزم اور موت سے ایسی بے پروائی نظر آئی کہ وہ سخت مرعوب ہوکر لوٹا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہنے لگا … مجھے کوئی مخفی کمک وغیرہ تو نظر نہیں آئی، لیکن اے معشرِ قریش! میں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں گویا اونٹنیوں کے کجاووں نے اپنے اوپر آدمیوں کو نہیں بلکہ موتوں کواٹھایا ہوا ہے اوریثرب کی سانڈنیوں پر گویا ہلاکتیں سوار ہیں۔

سوال: رسول کریم ﷺ کو غزوہ بدر میں بنو ضمرۃ کے ساتھ قریش مکہ کا کیوں خیال تھا؟
جواب: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مؤرخین لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کواس غزوہ میں بنوضمرۃ کے ساتھ قریشِ مکہ کابھی خیال تھا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ دراصل آپؐ کی یہ مہم قریش کی خطرناک کارروائیوں کے سدِّباب کیلئے تھی اور اس میں اُس زہریلے اور خطرناک اثر کا ازالہ مقصود تھا جو قریش کے قافلے وغیرہ مسلمانوں کے خلاف قبائلِ عرب میں پیدا کر رہے تھے اورجس کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت ان ایام میں بہت نازک ہو رہی تھی۔

…٭…٭…٭…