خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ16؍دسمبر 2005 بطرز سوال وجواب
آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کے گلی کوچوں نے مسیحا کے قدم چومے
قادیان میں رہنے والے احمدیوں کا حق یہی ہے کہ
صرف دنیا کواپنا مقصود نہ بنائیں بلکہ خدا سے تعلق بھی ایسا قائم ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آئے
اور وہ تب نظر آئے گا جب دعائوں اور استغفار اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف ہر ایک میں خاص توجہ پیدا ہوگی
خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ16؍دسمبر 2005 بطرز سوال وجواب
سوال: قادیان دارالامان میں رہنے والوں کی کیا خوش قسمتی ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ اس بستی کے رہنے والے ہیں جس کے گلی کوچوں نے مسیحا کے قدم چومے۔ آپ میں سے ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے یا اُن لوگوں کی نسل میںسے ہے جنہوں نے مسیح پاک کی اس بستی کی حفاظت کیلئے ہر قربانی دینے کا عہد کیا تھا۔ جنہوں نے اپنے اس عہد کو نبھایا اور خوب نبھایا۔
سوال: قادیان میں رہنے والے احمدیوں کا کیا حق ہونا چاہئے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: قادیان میں رہنے والے احمدیوں کا حق یہی ہے کہ صرف دنیا کواپنا مقصود نہ بنائیں بلکہ خدا سے تعلق بھی ایسا قائم ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آئے ۔ اور وہ تب نظر آئے گا جب دعائوں اور استغفار اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف ہر ایک میں خاص توجہ پیدا ہوگی۔
سوال: 16 دسمبر 2005ء کا دن جماعت احمدیہ کیلئے اور حضور انور کیلئے کیوں اہمیت کا حامل تھا؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: 16 دسمبر 2005ء کا دن میرے لئے اور جماعت کیلئے دو لحاظ سے اہم ہے۔ ایک تو میرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خوبصورت اور روحانیت سے پُر بستی میں خلیفۃ المسیح کی حیثیت سے پہلی دفعہ آنا اور دوسرے جماعت احمدیہ عالمگیر کیلئے یہ ایک عجیب خوشی اور روحانی سرور کا موقع ہے کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاایک الہام ایک اَور نئی شان کے ساتھ پورا ہو رہاہے۔
سوال: حضور انور سے جب پوچھا گیا کہ آپ قادیان جارہے ہیں آپ کیا محسوس کرتے ہیں تو اس پر حضور انور کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بستی ہے اور ہر احمدی کو اس سے ایک خاص تعلق ہے، ایک جذباتی لگائو ہے اور جوں جوں ہم قادیان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیںان جذبات کی کیفیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک دنیا دار کا جذباتی تعلق تو ایک و قتی جوش اپنے اندر رکھتا ہے لیکن ایک احمدی کو جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روحانیت کے مدارج طے کرنے کے راستے دکھائے ہیں اس کا آپ سے روحانیت کا تعلق ہے۔ اس کے جذبات میںتلاطم یا جذباتی کیفیت وقتی اور عارضی نہیں ہوتی اور نہ ہی وقتی اور عارضی ہونی چاہئے۔ اس بستی میں داخل ہو کر جو روحانی بجلی کی لہر جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے سب احمدیوں کو ،یہاں آنے والوں اور رہنے والوں کو، اس لہر کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لینا چاہئے اور یہاں کے رہنے والوں کی تویہ سب سے زیادہ ذمہ داری ہے۔
سوال: کون سی دعا مانگنے سے اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرمائے گا اور ہمیں سیدھے راستے پر رکھے گا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ہم سورۃ فاتحہ میں دعا کرتے ہیں کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن کہ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔ پس جب ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ ہماری رہنمائی فرمائے گا۔ ہمیں سیدھے راستے پر رکھے گا، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کی ہمیں توفیق ملے گی۔
سوال: مومن جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہتا ہے تو معاًاس کے دل میں کیا گزرتا ہے؟
جواب: حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام فرماتے ہیں:مومن جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو معاً اسکے دل میں یہ گزرتا ہے کہ مَیں کیا چیز ہوں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں جب تک اس کا فضل اور کرم نہ ہو۔ اس لئے وہ معاً کہتا ہے کہ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنکہ مدد بھی تجھ ہی سے چاہتے ہیں۔
سوال: توبہ کسے کہتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:توبہ کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک بدی کو اس اقرارکے ساتھ چھوڑ دے کہ بعد اسکے اگر وہ آگ میں بھی ڈالا جائے تب بھی وہ بدی ہرگز نہیں کرے گا۔
سوال: استغفار کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہرنہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفَر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُسْتَغْفِرکی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔
سوال: اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کیلئے، اس کے فضلوں کا وارث بننے کیلئے، دنیا کی محبت ٹھنڈی کرکے دین میں آگے بڑھنے کیلئے، ایمان میں اضافے کیلئے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کیلئے گویا ہر معاملے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔
سوال:ایک احمدی جو اس بستی میں رہتا ہے اسکا کیا فرض بنتا ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ایک احمدی جو اس بستی میں رہتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ صرف دنیا کو اپنا مقصود نہ بنائیں۔
سوال: درویشوں کی نسلیں اور نئے آنے والوں کو کس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:درویشوں کی نسلیں بھی اور نئے آنے والے بھی، سب یہ بات یاد رکھیں۔ خدا سے ایسا تعلق قائم ہو جو ہر دیکھنے والے کو نظر آئے۔ یہاں باہر سے آنے والے احمدیوں کو بھی اور غیروں کو بھی نظر آئے اور یہاں رہنے والے غیروںکو بھی نظر آئے۔ اور وہ تب نظر آئے گا جب ہر ایک میں دعائیں، استغفار اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف خاص توجہ پیدا ہو گی۔
سوال:اللہ تعالیٰ کی عبادت کس چیز کے ساتھ مشروط ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کے ساتھ ہی مشروط ہے۔
سوال:کون سی باتیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے زمرہ میں آتی ہیں؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:عبادتوں کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنا، نظام جماعت کی پیروی کرنا، امانتدارانہ طور پر اپنے کام سر انجام دینا، اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا، یہ سب باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے زمرہ میں آتی ہیں۔
سوال: اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی مدد طلب کرنے کا کیا بہترین ذریعہ ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے اور اس کی مدد طلب کرنے کا ایک بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ استغفار کرو۔
…٭…٭…٭…