اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ9؍دسمبر 2005 بطرز سوال وجواب

اَے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر
تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جائو گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے(حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ9؍دسمبر 2005 بطرز سوال وجواب


سوال: خلافت سے وابستگی اور اخلاص کو نبھانے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اس میں کوئی شک نہیںکہ آپ کو خلافت سے وابستگی اور اخلاص ہے لیکن تبلیغ کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جا رہی جس طرح ہونی چاہئے ۔ اس لئے جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں۔
سوال: جماعت کی ترقی کی رفتار کب تیز ہوگی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اپنی چھوٹی چھوٹی رنجشوں کو بھلاکر ایک دوسرے سے پیار اور محبت کا تعلق پیدا کریں تاکہ جماعت کی ترقی کی رفتار کو تیزکرنے والے بن سکیں۔
سوال: ماریشس میں احمدیت کا ظہور کب ہوا؟ اور یہاں کے ابتدائی احمدی کون ہیں؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ماریشس میں احمدیت 1912ء میںخلافت اولیٰ کے زمانے میں آئی۔ یہاں کے ابتدائی احمدیوں میں سے نوردیا صاحب، ماسٹر محمدعظیم سلطان غوث صاحب، میاں جی رحیم بخش صاحب، میاں جی سبحان محمد رجب علی صاحب وغیرہ ہیں۔
سوال:حضرت حافظ جمال احمد صاحب کی وفات پر خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ میں کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت حافظ جمال احمد صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے کام اور خدمات اورقربانیوں کا ذکر فرمایا۔ نیز فرمایا’’ وہ زمین مبارک ہے جس میں ایسا اولوالعزم اور پارسا انسان مدفون ہوا۔‘‘
سوال: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ماریشس کے ابتدائی مبلغوں کا ذکر کس لئے کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ابتدائی مبلغوں کا میں نے ذکر اس لئے کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو احساس رہے کہ جماعت کے ابتدائی بزرگوں نے اور ان مبلغین نے اس ملک میں احمدیت کو پھیلانے اور اپنے اندر احمدیت کو قائم رکھنے کیلئے کیا کیا کام کئے ہیں۔
سوال: ماریشس کے پرانے احمدیوں کے ساتھ کیا کیا مخالفت ہوئی؟اور انہوں نے ان مخالفت کا کس طرح سامنا کیا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: ان میںسے بعض کے خلاف قتل کے مقدمے بھی بنائے گئے لیکن جس سچائی کو وہ پہچان چکے تھے اس سے وہ ذرا بھر بھی پیچھے نہیںہٹے۔ بلکہ پہلے مبلغ کےآنے تک انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا خلیفہ وقت سے براہ راست تربیت پانے والے کسی شخص کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ لیکن اسکے باوجود وہ اخلاص و وفا میں بڑھتے رہے۔ اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں ہم سے یا ہماری نسلوں سے ایمان ضائع نہ ہو جائے۔
سوال: مکرم ایم اے سلطان غوث صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں مبلغ بھجوانے کے بارے میں درخواست کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کن الفاظ میں کیا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: مکرم ایم اے سلطان غوث صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں جماعت کے حالات کے بارے میں لکھا اور مبلغ بھجوانے کے بارے میں درخواست کی، اپنی وفا اور تعلق کا اظہار کیا۔ آخر میں لکھا کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سوانح کی کوئی جلد بھیجی جائے تو مجھ پر بڑااحسان ہو گا۔
سوال: کب ہم حقیقتاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شمار کئے جائیں گے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جائو گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو اور اپنے روزوں کو خدا کیلئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہو چکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ نیکی کو سنوار کر ادا کرو اور بدی کو بے زار ہو کر ترک کرو۔
سوال: قرآن کریم کے کس حکم کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : ہمیشہ قرآن کریم کے اس حکم کو اپنے سامنے رکھیں کہ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا (الانفال:47) اور آپس میںجھگڑ ے نہ کیا کرو اگر ایسا کرو گے تو تم بزدل بن جائو گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ اور صبر سے کام لو۔
سوال: اگر ہم بندوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو ہماری عبادتیں لوگوں پرکس طرح کا اثر ڈالیں گیں؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اگر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے تو ایسے لوگوں کی عبادتیں دوسروں پر نیک اثر ڈالنے کی بجائے بداثر ڈال رہی ہوتی ہیں اور ان کو خود بھی کوئی فائدہ نہیں دے رہی ہوتیں۔ کمزور ایمان والوں کو اورکچے ذہنوں کو مذہب سے دور لے جا رہی ہوتی ہیں۔
سوال: سب سے پہلے ماریشس میں کون سے مبلغ پہنچے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 1915ء میں حضرت صوفی غلام محمدصاحب ؓماریشس پہنچے۔
سوال: جب صوفی غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ کو پورٹ میں روک لیا تو پھر انہیں کیسے ماریشس کی سرزمین پر اترنے کی اجازت ملی؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: صوفی احمد صاحب کو پورٹ پر ہی روک لیا گیا اور دوسرے مسلمانوں کی طرف سے اس وقت بھی بڑی کوشش ہوئی کہ انہیں واپس بھجوا دیا جائے۔ آخر روشن علی بھنو صاحب کی30 ہزار روپے کی ضمانت پر انہیں ماریشس کی سر زمین پر اترنے کی اجازت ملی۔
سوال:ماریشس کے دوسرے مبلغ کون تھے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:دوسرے مبلغ ماریشس میں حضرت حافظ عبیداللہ صاحب رضی اللہ عنہ آئے اور آخر یہیں ان کی وفات ہوئی۔
سوال:حضرت حافظ عبیداللہ صاحبؓکی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ میں کیا فرمایا؟
جواب: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ان کے بارے میں فرمایا کہ مولوی عبید اللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ دین کیلئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نبھانا دونوں باتوں کوجانتا تھا۔ شہادت کا پہلا موقع عبیداللہ کو ملا یعنی ہندوستان کے کسی شخص کی شہادت کا۔ فرمایا ہمیں اس کی موت پر فخر ہے تو اس کے ساتھ صدمہ بھی ہے کہ ہم میں سے ایک نیک اور پاک روح جو خدا کے دین کی خدمت میں شب و روز مصروف تھی جدا ہو گئی۔
سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ماریشس کے بزگوں کی احمدیت قبول کرنے کی کیا غرض بیان فرمائی؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آپ کے بزرگوں نے احمدیت کو اس لئے قبول کیا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے احمدیت کی تبلیغ کو آگے اس لئے پھیلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کہ جو تم اپنے لئے پسند کرو وہ اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کرو اس لئے انہوں نے اس فرض کو ادا کیا۔
سوال:ماریشس کے لوگوںکو کس طرح اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اب آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس نکتہ کو سمجھیں اور جہاں احمدیت کے انعام کے وارث ہونے کے بعد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے چلے جانے کی کوشش کرتے رہیں، اپنی نسلوں میں بھی احمدیت کی حقیقی تعلیم کو دلوں میں راسخ کئے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔ وہاں اس خوبصورت پیغام کو دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ اور یہ کام آپ اس وقت احسن رنگ میں کر سکیں گے جب اپنے ہر عمل کو اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔

…٭…٭…٭…