خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ16؍دسمبر2022بطرز سوال وجواب
جو امن کے وقت خداتعالیٰ کو نہیں بھلاتا خداتعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو
عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں(حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ16؍دسمبر2022بطرز سوال وجواب
سوال: ہماری جماعت کو کس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:ہماری جماعت کیلئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔ خداتعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو کیونکہ …اگر اعمالِ صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کیلئے جوش نہ ہوتو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔
سوال:انسان کی دعائیں کب خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:جو امن کے وقت خداتعالیٰ کو نہیں بھلاتا خداتعالیٰ اسے مصیبت کے وقت نہیں بھلاتا اور جو امن کے زمانہ کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت دعائیں کرنے لگتا ہے تو اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔
سوال: دعا کیلئے سب سے اول کس امر کی ضرورت ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:دعا کیلئے سب سے اوّل اس امر کی ضرورت ہے کہ دعا کرنے والا کبھی تھک کر مایوس نہ ہو جاوے اور اللہ تعالیٰ پر یہ سوءِ ظن نہ کر بیٹھےکہ اب کچھ بھی نہیں ہوگا۔
سوال: اللہ تعالیٰ کے کون سے بندے ہیں جن کا اللہ کبھی انجام بد نہیں کرتا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:خداتعالیٰ جو کریم ہے اور حیا رکھتا ہے جب دیکھتا ہے کہ اس کا عاجز بندہ ایک عرصہ سے اس کے آستانہ پر گرا ہوا ہے تو کبھی اس کا انجام بد نہیں کرتا۔
سوال: جب نماز میں کھڑے ہو تو تمہارا مطمح نظر کیا ہونا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہئے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو۔
سوال: انسان کو بامراد ہونے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ہر ایک کام کیلئے زمانہ ہوتا ہے اور سعید اس کا انتظار کرتے ہیں،جو انتظار نہیں کرتا اور چشمِ زدن میں چاہتا ہے کہ اسکا نتیجہ نکل آوے ،وہ جلد باز ہوتا ہے اور بامراد نہیں ہوسکتا۔
سوال: شیطان انسان کو کس طرح اسکے دین اور خدا تعالیٰ سے دور کر رہا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: شیطان انسان سے ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر اسے دین اور خداتعالیٰ سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سوال: اگر کمزور ایمان والوں کو کسی ابتلا اور ناکامیوں کا سامنا کرناپڑے تو انکے دماغ میں کیا خیال آنے لگتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اگر کبھی کسی ابتلا سے گزرے یا ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو کمزور ایمان والوں اور کم علم والوں کو فوراً یہ خیال آنے لگ جاتا ہے کہ یا تو مذہب غلط ہے جس پر ہم لوگ قائم ہیں اور اصل میں اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے یا خداتعالیٰ کی ذات ایسی نہیں کہ رحم کرتے ہوئے دعائیں سنے اور ہمیں اس ابتلا اور امتحان سے نکالے یا خدا تعا لیٰ نے نعوذ باللہ ہم پر ظلم کیا ہے جو ہم اس حالت سے گزر رہے ہیں۔ باوجود دعاؤں کے ہماری پریشانیاں دور نہیں ہو رہیں۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سعادت مند لوگوں کے کیا نشانات بیان فرمائے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:جو عذابِ الٰہی کے نزول سے پیشتر دعا میں مصروف رہتا ہے، صدقات دیتا ہے اور امرِ الٰہی کی تعظیم اور خلق اللہ پر شفقت کرتا ہے۔ اپنے اعمال کو سنوار کر بجالاتا ہے۔ یہی سعادت کے نشان ہیں۔
سوال: اگر ہم اچھے حالات میں بھی خدا تعالیٰ کے حقوق کو نہ بھولیں تو خدا تعالیٰ کس طرح نوازتا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ایک حقیقی مومن کا یہ کام ہے کہ اپنے اچھے حالات میں خداتعالیٰ کے حق کو اور اُس کی مخلوق کے حق کو کبھی نہ بھولے اور اگر وہ یہ حق ادا کر رہا ہے تو پھر مشکلات کے دَور سے خداتعالیٰ اسے خود نکالتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔
سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا کے آداب کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:دعا بڑی عجیب چیز ہے مگر افسوس یہ ہے کہ نہ دعا کرانے والے آدابِ دعا سے واقف ہیں اور نہ اس زمانہ میں دعا کرنے والے اُن طریقوں سے واقف ہیں جو قبولیتِ دعا کے ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ دعا کی حقیقت ہی سے بالکل اجنبیت ہو گئی ہے۔ بعض ایسے ہیں جو سرے سے دعا کے منکر ہیں اور جو دعا کے منکر تو نہیں مگر ان کی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ چونکہ ان کی دعائیں بوجہ آدابِ دعا سے ناواقفیت کے قبول نہیں ہوتی ہیں کیونکہ دعا اپنے اصلی معنوں میں دعا ہوتی ہی نہیں۔ اس لئے وہ منکرینِ دعا سے بھی گری ہوئی حالت میں ہیں۔اُن کی عملی حالت نے دوسروں کو دہریت کے قریب پہنچا دیا ہے۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کرنے والے کی صبر کی مثال کیا دی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:دعا کی ایسی ہی حالت ہے جیسے ایک زمیندار باہر جا کر اپنے کھیت میں ایک بیج بو آتا ہے…تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانہ گل کر اندر ہی اندر پودا بننے لگتا ہے اور تیار ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اسکا سبزہ اوپر نکل آتا ہے۔اور دوسرے لوگ بھی اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب دیکھو وہ دانہ جس وقت سے زمین کے نیچے ڈالا گیا تھا دراصل اسی ساعت سے وہ پودا بننے کی تیاری کرنے لگ گیا تھا مگر ظاہر بین نگاہ اس سے کوئی خبر نہیں رکھتی اور اب جبکہ اسکا سبزہ باہر نکل آیا تو سب نے دیکھ لیا۔ لیکن ایک نادان بچہ اس وقت یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے وقت پر پھل لگے گا۔وہ یہ چاہتا ہے کیوں اسی وقت اس کو پھل نہیں لگتا مگر عقلمند زمیندار خوب سمجھتا ہے کہ اس کے پھل کا کونسا موقع ہے۔ وہ صبر سے اس کی نگرانی کرتا اور غورو پرداخت کرتا رہتا ہے اور اس طرح پر وہ وقت آجاتا ہے کہ جب اس کو پھل لگتا ہے اور وہ پک بھی جاتا ہے۔ یہی حال دعا کا ہے اور بعینہٖ اسی طرح دعا نشوونما پاتی اور مثمر بثمرات ہوتی ہے۔ جلد باز پہلے ہی تھک کر رہ جاتے ہیں اور صبر کرنے والے مآل اندیش استقلال کے ساتھ لگے رہتے ہیںاور اپنے مقصد کو پالیتے ہیں۔
سوال: دعا کی قبولیت کیلئے جسم اور ارواح کا آپس میں کیسا تعلق ہونا چاہئے؟
جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:ظاہری نماز اور روزہ اگر اُسکے ساتھ اخلاص اور صدق نہ ہو کوئی خوبی اپنے اندر نہیں رکھتا۔جوگی اور سنیاسی بھی اپنی جگہ بڑی بڑی ریاضتیں کرتے ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ اُن میں سے بعض اپنے ہاتھ تک سُکھا دیتے ہیں۔اور بڑی بڑی مشقتیں اٹھاتے اور اپنے آپ کو مشکلات اور مصائب میں ڈالتے ہیں لیکن یہ تکالیف اُن کو کوئی نور نہیں بخشتیں اور نہ کوئی سکینت اور اطمینان ان کو ملتا ہے بلکہ اندرونی حالت ان کی خراب ہوتی ہے۔ وہ بدنی ریاضت کرتے ہیں جس کو اندر سے کم تعلق ہوتا ہے اور کوئی اثر ان کی روحانیت پر نہیں پڑتا۔اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ (الحج:38) یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کاگوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خداتعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے۔
سوال:عبادت میں لذت کس طرح حاصل ہوگی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یاد رکھو کہ جب انسان خداتعالیٰ کیلئے اپنی محبوب چیزوں کو جو خدا کی نظر میں مکروہ اور اسکے منشاء کے مخالف ہوتی ہیں چھوڑ کر اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالتا ہے تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے۔تو ایسی تکالیف اٹھانے والے جسم کا اثر روح پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اس سے متاثر ہو کر ساتھ ہی ساتھ اپنی تبدیلی میں لگتی ہے یہاں تک کہ کامل نیاز مندی کے ساتھ آستانۂ الوہیت پر بےاختیار ہو کر گر پڑتی ہے۔یہ طریق ہے عبادت میں لذّت حاصل کرنے کا۔
…٭…٭…٭…