اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-07-06

خطبہ جمعہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ9؍دسمبر2022بطرز سوال وجواب

حضرتِ صدیقؓ کی ذاتِ گرامی رجا و خوف،خشیت و شوق اور انس و محبت کی جامع تھی

اور آپ کا جوہر ِفطرت صدق و صفا میں اتم و اکمل تھا اور حضرت کبریاء کی طرف بکمال منقطع تھا

آنحضرت ﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ

سوال:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات میں کیا کمال موجود تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرتِ صدیقؓکی ذاتِ گرامی رجا و خوف،خشیت و شوق اور انس و محبت کی جامع تھی اور آپکا جوہر ِفطرت صدق و صفا میں اتم و اکمل تھا اور حضرت کبریاء کی طرف بکمال منقطع تھا۔

سوال: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب کیوں عطا کیا تھا؟
جواب: حضور انورنے فرمایا: نبی ﷺ نے صحابہؓ میں سے آپ کے سوا کسی صحابی کا نام صدیق نہیں رکھا تاکہ وہ آپ کے مقام اور عظمتِ شان کو ظاہر کرے۔

سوال: حضرت ابوبکر ؓ کی تمام خوشی کس سے وابستہ تھی؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تمام خوشی اعلائے کلمۂ اسلام اور خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھی۔

سوال:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اسلام کی سخت حالت دیکھی تو آپ نے کیا کیا؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آپ نے اسلام کو ایک ناتواں اور بیکس اور نحیف ونزار ماؤف شخص کی طرح پایا تو آپ ماہروں کی طرح اس کی رونق اور شادابی کودوبارہ واپس لانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک لٹے ہوئے شخص کی طرح اپنی گم شدہ چیز کی تلاش میں مشغول ہو گئے یہاں تک کہ اسلام اپنے متناسب قد، اپنے ملائم رخسار، اپنی شادابی جمال اور اپنے صاف پانی کی مٹھاس کی طرف لوٹ آیا اور یہ سب کچھ اس بندۂ امین کے اخلاص کی وجہ سے ہوا۔

سوال:سچا مومن اور مسلمان بننے کیلئے کیا ضروری ہے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر،عثمان، علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سا رنگ پیدا نہ ہو وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں۔

سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت کے بارے میں کیا فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: آپؓ کی فضیلت حکم ِسریع اور نصِ محکم سے ثابت ہے اور آپ کی بزرگی دلیلِ قطعی سے واضح ہے اور آپ کی صداقت روزِ روشن کی طرح درخشاں ہے، آپ نے آخرت کی نعمتوں کو پسند فرمایا اور دنیا کی نازو نعمت کو ترک کر دیا، دوسروں میں سے کوئی بھی آپؓ کے ان فضائل تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔

سوال: حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کس طرح کی شخصیت کے مالک تھے؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:آپ رضی اللہ عنہ معرفتِ تامہ رکھنے والے عارف باللہ، بڑے حلیم الطبع اور نہایت مہربان فطرت کے مالک تھےاور انکسار اور مسکینی کی وضع میں زندگی بسر کرتے تھے، بہت ہی عفو و درگزر کرنے والے اور مجسم شفقت و رحمت تھے۔حضرتِ صدیقؓ کی ذاتِ گرامی رجاء و خوف،خشیت و شوق اور انس و محبت کی جامع تھی اور آپ کا جوہر ِفطرت صدق و صفا میں اتم و اکمل تھا اور حضرت کبریاء کی طرف بکمال منقطع تھا۔

سوال: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپؓ کے اخلاق کی بابت مزیدکیا فرمایا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت ابوبکرنفس اور اس کی لذات سے خالی اور ہوا و ہوس اور اسکے جذبات سے کلیۃً دور تھے اور آپ حد درجہ کے متبتّل تھے اور آپ سے اصلاح ہی صادر ہوئی اور آپؓسے مومنوں کیلئے فلاح و بہبود ہی ظاہر ہوئی۔ آپ ایذا اور دکھ دینے کی تہمت سے پاک تھے۔ اس لئے تُو داخلی تنازعات کی طرف نہ دیکھ بلکہ انہیں بھلائی کی طرز پر محمول کر۔کیا تو غور نہیں کرتا کہ وہ شخص جس نے اپنے ربّ کے احکامات اور خوشنودی سے اپنی توجہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی طرف نہیں پھیری تا کہ وہ انہیں مالدار بنائیں یا انہیں اپنے عمّال میں سے بنائیں اور جس نے دنیا سے صرف اسی قدر حصہ لیا جتنا اس کی ضرورتوں کیلئے کافی تھا تو پھر تُو کیسے خیال کر سکتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ظلم روا رکھا ہو گا۔

سوال: قرآن کریم میں نبیوں کے بعد صدیقوں کا ذکر کیوں کیا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حضرت ابوبکرؓ کے جوہر میں صدق و صفا، ثابت قدمی اور تقویٰ شعاری داخل تھی۔ خواہ سارا جہاں مرتد ہو جائے آپ ان کی پرواہ نہ کرتے اور نہ پیچھے ہٹتے بلکہ ہر آن اپنا قدم آگے ہی بڑھاتے گئے۔اور اسی وجہ سے اللہ نے نبیوں کے فوراً بعد صدیقوں کے ذکر کو رکھا اور فرمایا: فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ (النساء: 70) اور اس (آیت) میں صدیق (اکبرؓ ) اور آپ کی دوسروں پر فضیلت کے اشارے ہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ میں سے آپ کے سوا کسی صحابی کا نام صدیق نہیں رکھا تاکہ وہ آپ کے مقام اور عظمتِ شان کو ظاہر کرے۔

سوال: حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا آخری کلمہ کیا تھا ؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو آخری کلمہ ادا فرمایا وہ یہ تھا کہ(اے اللہ!)مجھے مسلم ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین میں شامل فرما۔

سوال: سلسلۂ خلافت کے آغاز کیلئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کیوں مقدم فرمایا گیا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت صدیق اکبرؓ نے ایمان لانے کے بعد طرح طرح کی ذلت اور رسوائی دیکھی اور قوم، خاندان، قبیلے، دوستوں اور بھائی بندوں کی لعن طعن دیکھی، رحمان خدا کی راہ میں آپ کو تکلیفیں دی گئیں اور آپ کو اسی طرح وطن سے نکال دیا گیا جس طرح جن و انس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نکالا گیا تھا۔ آپ نے دشمنوں کی طرف سے بہت تکلیفیں اور اپنے پیارے دوستوں کی طرف سے لعنت ملامت مشاہدہ کی۔ آپ نے بارگاہِ ربّ العزت میں اپنے مال و جان سے جہاد کیا۔ آپ معزز اور ناز و نعم میں پلنے کے باوجود معمولی لوگوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ راہِ خدا میں (وطن سے) نکالے گئے۔ آپ اللہ کی راہ میں ستائے گئے۔ آپ نے راہِ خدا میں اپنے اموال سے جہاد کیا اور دولت و ثروت کے رکھنے کے بعد آپ فقیروں اور مسکینوں کی طرح ہو گئے۔ اللہ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ پر گزرے ہوئے ایام کی آپ کو جزا عطا فرمائے اور جو آپ کے ہاتھ سے نکل گیا اس سے بہتر بدلہ دے اور اللہ کی رضا مندی چاہنے کیلئے جن مصائب سے آپ دوچار ہوئے ان کا صلہ آپ پر ظاہر فرمائے اور اللہ محسنوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ لہٰذا آپ کے ربّ نے آپ کو خلیفہ بنا دیا اور آپ کیلئے آپ کے ذکر کو بلند کیا اور آپ کی دلجوئی فرمائی اور اپنے فضل و رحم سے عزت بخشی اور آپ کو امیر المومنین بنا دیا۔

سوال:آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓاورحضرت عمر ؓ کا کیا ردعمل تھا؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:جب آنحضرتؐ نے رحلت فرمائی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار کھینچ کر نکلے کہ اگر کوئی کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ہے تو مَیں اسے قتل کردوں گا۔ ایسی حالت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓنے بڑی جرأت اور دلیری سے کلام کیا اور کھڑے ہوکر خطبہ پڑھا۔ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران:145) یعنی محمدؐبھی اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہی ہیں اور آپؐ سے پہلے جس قدر نبی ہوگذرے ہیں۔ سب نے وفات پائی۔ اس پر وہ جوش فروہوا۔

…٭…٭…٭…