سوال:جب حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی افضلیت بیان کی تو حضرت ابوبکر ؓ نے کیا فرمایا؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:جب حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی افضلیت بیان کی تو حضرت ابوبکر ؓ نےفرمایا: میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورج طلوع نہیں ہوا کسی آدمی پر جو عمرؓ سے بہتر ہو۔حضرت ابوبکرؓنے فوراً اپنی عاجزی کا اظہار فرمایا کہ مجھے کہتے ہو تم بہتر ہو حالانکہ میں نے تو تمہارے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے کہ تم بہتر ہو۔
سوال:رسول کریم ﷺ کو صحابہ میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:عبداللہ بن شفیق نے بیان کیا کہ مَیں نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا تو انہوں نے فرمایا حضرت ابوبکرؓ۔
سوال:تاریخ کے حوالے سے کن کن صحابہ کا حفظ ثابت ہے؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حفظِ قرآن کے بارے میںحضرت مصلح موعودؓ نے بھی تاریخ کے حوالے سے باتیں فرمائی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’ابوعبیدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے مہاجر صحابہؓ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے۔ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، سعدؓ، ابنِ مسعودؓ، حذیفہؓ، سالمؓ، ابوہریرہؓ، عبداللہ بن سائبؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ اور عورتوں میں سے عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور حضرت ام سلمہؓ۔ ان میں سے اکثر نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآنِ شریف حفظ کر لیا تھا اور بعض نے آپؐکی وفات کے بعد حفظ کیا۔
سوال:ثانی اثنین کے بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:ثانی اثنین کے بارے میںحضرت ابوبکرؓ کی اپنی روایت یوں ہے۔ حضرت انسؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے روایت کی۔ وہ کہتے تھے کہ مَیں نے نبی ﷺ سے کہا اور مَیں اس وقت غار میں تھا (یعنی حضرت ابوبکرؓ نے کہا جبکہ وہ غار میں آنحضرت ﷺکے ساتھ تھے )کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کے نیچے نگاہ ڈالے ( یعنی کافر جو باہر کھڑے تھے اگر نیچے دیکھے) تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔تو آپﷺ نے فرمایا ابوبکر آپ کا کیا خیال ہے ان دو شخصوں کی نسبت جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓ کے محاسن اور خصوصی فضائل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے محاسن اور خصوصی فضائل میں سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سفرِ ہجرت میں آپ کو رفاقت کیلئے خاص کیا گیا اور مخلوق میں سے سب سے بہترین شخص صلی اللہ علیہ وسلم کی مشکلات میں آپ ان کے شریک تھے اور آپ مصائب کے آغاز سے ہی حضورؐ کے خاص انیس بنائے گئے تھے تاکہ محبوب ِخداؐ کے ساتھ آپؓکا خاص تعلق ثابت ہو اور اس میں بھید یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوب معلوم تھا کہ صدیقِ اکبرؓ صحابہؓ میں سے زیادہ شجاع، متقی اور ان سب سے زیادہ آنحضرت ﷺ کے پیارے اور مردِ میدان تھے اور یہ کہ سید الکائناتﷺ کی محبت میں فنا تھے۔ آپؓابتدا سے ہی حضورؐ کی مالی مدد کرتے اور آپؐکے اہم امور کا خیال فرماتے تھے۔ سو اللہ نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے نبی (ﷺ) کی آپؓکے ذریعہ تسلی فرمائی اور الصدیق کے نام اور نبی ثقلینؐ کے قرب سے مخصوص فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثَانِیَ اثْنَیْنِ کی خلعتِ فاخرہ سے فیضیاب فرمایا اور اپنے خاص الخاص بندوں میں سے بنایا۔
سوال:برطانوی مؤرخ جے جے سانڈرز نے حضرت ابوبکر صدیق ؓکی تعریف میں کیا بیان کیا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ایک برطانوی مؤرخ ہے جے جے سانڈرز لکھتا ہے کہ پہلے خلیفہ کی یاد مسلمانوں میں ہمیشہ ایک ایسے انسان کے طور پر جاگزیں رہی ہے جو کامل وفا دار، لطف و کرم کا پیکر تھااور کوئی سخت سے سخت طوفان بھی ان کی مستقل تحمل مزاجی کو ہلا نہ سکا۔
سوال:برطانوی مستشرق ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے حضرت ابوبکرؓ کی بابت کیا بیان کیا ؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: برطانوی مستشرق ٹی ڈبلیو آرنلڈکہتا ہے کہ ابوبکرؓ ایک دولت مند تاجر تھے۔ اعلیٰ کردار اور اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنا پر ان کے ہم وطن ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ اُن مسلمان غلاموں کو خرید نے پر صرف کر دیا جنہیں کفار ان کے آقا محمد ﷺکی تعلیمات پر ایمان لانے کے سبب اذیتیں دیتے تھے۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓکے اخلاق حسنہ کی بابت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوبکرؓ کے اخلاقِ حسنہ کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ کیا یہ سچ نہیں کہ بڑے بڑے زبردست بادشاہ ابوبکرؓاور عمرؓبلکہ ابوہریرہؓ کا نام لے کر بھی رضی اللہ عنہ کہہ اٹھتے رہے ہیں اور چاہتے رہے ہیں کہ کاش ان کی خدمت کا ہی ہمیں موقعہ ملتا۔ پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ ابوبکر اور عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے غربت کی زندگی بسر کر کے کچھ نقصان اٹھایا۔ بےشک انہوں نے دنیاوی لحاظ سے اپنے اوپر ایک موت قبول کر لی۔ لیکن وہ موت ان کی حیات ثابت ہوئی اور اب کوئی طاقت ان کو مار نہیں سکتی۔ وہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔
سوال: حضرت ابوبکرؓ کے اخلاق فاضلہ کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخلاق فاضلہ کے بارے میںحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ تھا جس کی فطرت میں سعادت کا تیل اور بتّی پہلے سے موجود تھے۔ اس لئےرسول کریم ﷺ کی پاک تعلیم نے اس کو فی الفور متاثر کر کے روشن کر دیا۔ اس نے آپؐسے کوئی بحث نہیں کی۔ کوئی نشان اور معجزہ نہ مانگا۔ معاً سن کر صرف اتنا ہی پوچھا کہ کیا آپؐنبوت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جب رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ تو بول اٹھے کہ آپؐگواہ رہیں۔ میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں۔
سوال:غیر مسلم مصنفین نے حضرت ابوبکر ؓ کی بابت کیا لکھا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:غیر مسلم مصنفین نے بھی حضرت ابوبکرؓ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔الجیریا کا بیسویں صدی کا ایک مؤرخ ہے آندرے سرویئر (André Servier) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں لکھتا ہے کہ ابوبکر کا مزاج سادہ تھا۔ غیر متوقع عروج کے باوجود انہوں نے غربت والی زندگی بسر کی۔ جب انہوں نے وفات پائی تو انہوں نے اپنے پیچھے ایک بوسیدہ لباس، ایک غلام اور ایک اونٹ ترکہ میں چھوڑا۔ وہ اہلِ مدینہ کے دلوں پر سچی حکومت کرنے والے تھے۔ ان میں ایک بہت بڑی خوبی تھی اور وہ تھی قوت و توانائی۔ لکھتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس خوبی کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا تھا اور جو آپ کے دشمنوں میں کمیاب تھی وہ خوبی حضرت ابوبکرؓ میں پائی جاتی تھی اور وہ کیا خوبی تھی،غیرمتزلزل ایمان اور مضبوط یقین اور ابوبکر صحیح جگہ پر صحیح آدمی تھا۔ پھر لکھتا ہے کہ اس معمر اور نیک سیرت انسان نے اپنے موقف کو اختیار کیا جبکہ ہر طرف بغاوت برپا تھی۔ آپ نے اپنے مومنانہ اور غیر متزلزل عزم سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو از سرِ نو شروع کیا۔
سوال: حضرت ابوبکر ؓ کی قبول اسلام کے بعد کی حالت کے بارےمیں حضرت مصلح موعود ؓ نے کیاتحریر فرمایا؟
جواب: حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لو۔انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مکہ کا ایک لیڈر تھا اَب ذلیل ہو گیا مگر اسلام سے پہلے اُنکی اِس سے زیادہ کیا عزت ہو سکتی تھی کہ دو سو یا تین سو آدمی ان کا نام عزت سے لیتے ہوں گے۔ لیکن اسلام کی برکت سےاللہ تعالیٰ نے انہیں خلافت اور بادشاہت کی برکت سے نوازا۔ اور انہیں دنیا بھر میں دائمی عزت اور ایک لازوال شہرت کا مالک بنا دیا…کہاں ایک قبیلہ کی لیڈری اور کہاں یہ کہ تمام مسلمانوں کا خلیفہ اور مملکتِ عرب کا بادشاہ ہونا جس نے ایران اور روم سے ٹکر لی اور انہیں نیچا دکھایا۔
٭٭٭