حقیقی امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ایک بالا ہستی کو تسلیم نہ کیا جائے
یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیش کیا ہے
اگر کوئی امید کی کرن ہے، امن کی ضمانت ہے تو ایک ہی وجود ہے
جس کو اللہ تعالیٰ نے امن و سلامتی کی تعلیم کے ساتھ دنیا میں بھیجا تھا، جو شہنشاہِ امن ہے،جس کی تعلیم پیارو محبت کی تعلیم ہے
حقیقی امن تبھی ہو گا جو ذاتی، خاندانی، نسلی، قومی، ملکی ترجیحات سے بالا ہو کر قائم کرنے کی کوشش کی جائے اوریہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے
جب انسان اس بات کو سمجھ لے کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لیے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ تمام دنیا کیلئے امن چاہتی ہے
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کوبھیج کر انسانیت پربہت بڑا احسان کیا ہے
اگر انسان اس سے فائدہ نہ اٹھائے اور اپنے تباہ کرنے والے خود غرضانہ مفادات کا ہی اسیر رہے تو اس سے بڑی بدقسمتی اَور کیا ہو سکتی ہے
آؤ اور امن و سلامتی کی تعلیم دینے والے اس عظیم وجود سے جڑ کر دنیا و آخرت میں اپنی سلامتی کے سامان کر لو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ساتھ جڑنا بھی ضروری ہے،تبھی علم و معرفت کا صحیح ادراک ہو سکتا ہے
امن اس وقت تک قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی مواخات پیدا نہ ہو اور حقیقی مواخات ایک خدا کو مانے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی
اختتامی خطاب حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ برموقع جلسہ سالانہ جرمنی فرمودہ21؍اگست2022ءبطرز سوال وجواب
بمنظوری سیّدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب کے شروع میں covidوبا کے بعد کی کس پریشانی کا ذکر فرمایا جس نے دنیا کو خطرناک موڑ پر کھڑا کر دیا ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:پہلے covid کی وبا نے دنیا کو پریشان کیا اور ابھی وہ وبا کی پریشانی ختم نہیں ہوئی تو اب دنیا میں جنگوں کی صورتحال نے دنیا کو ایک انتہائی خطرناک موڑ پر لا کر کھڑا کر دیاہے۔ دنیا کا کوئی خطہ بھی اس متوقع تباہی سے محفوظ نظر نہیں آتا ۔
سوال:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یورپ اور ایشیا کی سرزمین کی بابت کیا پیشگوئی فرمائی؟
جواب:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یورپ اور ایشیا کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی کہ : اَے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں اور اَے ایشیا! تُو بھی محفوظ نہیں اوراے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔
سوال:حقیقی امن کب قائم ہوسکتا ہے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: حقیقی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک ایک بالا ہستی کو تسلیم نہ کیا جائے۔ نیز فرمایا امن اس وقت تک قائم ہو ہی نہیں سکتا جب تک لوگوں کے اندر حقیقی مواخات پیدا نہ ہواور حقیقی مواخات ایک خدا کو مانے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔
سوال:نیز حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حقیقی امن قائم کرنے کی خاطر کیا فرمایا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حقیقی امن تبھی ہو گا جو ذاتی، خاندانی، نسلی، قومی، ملکی ترجیحات سے بالا ہو کر قائم کرنے کی کوشش کی جائےاوریہ اسی صورت میں ہو سکتا ہےجب انسان اس بات کو سمجھ لے کہ میرے اوپر ایک بالا ہستی ہے جو میرے لیے ہی امن نہیں چاہتی بلکہ تمام دنیا کیلئے امن چاہتی ہے۔
سوال:اللہ تعالیٰ ہی امن دینے والا ہے یہ عقیدہ کون پیش کرتا ہے؟
جواب: حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ امن دینے والا ہے صرف اسلام نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیش کیا ہے۔
سوال:کب ہم بد قسمت لوگ کہلائیں گے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کوبھیج کر انسانیت پربہت بڑا احسان کیا ہےاگر انسان اس سے فائدہ نہ اٹھائے اور اپنے تباہ کرنے والے خود غرضانہ مفادات کا ہی اسیر رہے تو اس سے بڑی بدقسمتی اَور کیا ہو سکتی ہے۔
سوال:آج کل کے جو دنیا کے حالات ہیں ان سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: ایسے میں اگر کوئی امید کی کرن ہے، امن کی ضمانت ہے تو ایک ہی وجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے امن و سلامتی کی تعلیم کے ساتھ دنیا میں بھیجا تھا، جو شہنشاہِ امن ہے، جو اللہ تعالیٰ کو سب انسانوں سے زیادہ پیارا ہے،جس پر اللہ تعالیٰ کی آخری کامل اور مکمل شریعت اتری، جس کی تعلیم پیارو محبت کی تعلیم ہے،جس نے اپنے خدا تعالیٰ کے تعلق کی وجہ سے اور اپنے اوپر اتری ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور دنیا کو تباہی سے بچانے کی فکر اور اس کیلئے شدید درد محسوس کر نے کی وجہ سے اپنی زندگی ہلکان کر لی تھی۔ اس حد تک اپنی حالت کر لی تھی اور کرب سے تڑپ کر اور رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فرمایا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء: 4) کیا تُو اپنی جان کو اس لیے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔
سوال:جنگوں کی صورت میں کس طرح کی تباہی ہونی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: بعض جگہ تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جنگوں کی صورت میں جو تباہی ہونی ہے وہ ایسی خوفناک ہو گی کہ ایک اندازے کے مطابق دورانِ جنگ اور اس کے بعد کے دو سالوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے دنیا کی چھیاسٹھ فیصد آبادی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔
سوال: یورپ اور مغربی افریقہ کے لوگ کس زعم میں بیٹھے ہوئے تھے؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: یورپ اور مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک اس زعم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جنگوں کی صورتحال، فساد کی صورتحال، علاقوں اور ملکوں کی تباہی کے حالات جہاں پیدا ہو رہے ہیں وہ ہم سے ہزاروں میل دُور ہیں اور ہم محفوظ ہیں۔
سوال:ترقی یافتہ ممالک جنگ کو فروغ دینے کیلئے کیا کر رہے ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:ترقی یافتہ ملک ان ملکوں کو اسلحہ فراہم کرتے رہے کہ ہمارا اسلحہ بکتا رہے۔ یہ مرتے ہیں تو مریں، کیا فرق پڑتا ہے۔
سوال:اپنی مفاد کی خاطر جو ترقی یافتہ ممال اسلحہ فراہم کر رہے ہیں وہ کس بات کو بھول گئے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا: وہ بھول گئے کہ یہ حالات ان پر بھی آ سکتے ہیں اور اپنی ترقی کے زعم میں ان کی عقلیں ماری گئیں اور آنکھیں اندھی ہو گئیں اور پھر اب سب دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہی ہوا جس کا خطرہ تھا اوریورپ میں بھی جنگی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔
سوال:اگر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہے تو ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو اپنائیں اور دنیا میں پھیلائیں۔ دنیا کو بتائیں کہ آج دنیا کی امن و سلامتی کا یہی واحد حل ہے۔ پس آؤ اور امن و سلامتی کی تعلیم دینے والے اس عظیم وجود سے جڑ کر دنیا و آخرت میں اپنی سلامتی کے سامان کر لو۔
سوال:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخلوق خدا کے متعلق کس قدر درد تھا ؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: رسول کریم ﷺ کو مخلوق خدا کے متعلق کس طرح کا درد تھا کس طرح کی تڑپ تھی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ(الشعراء:4) کیا تُو اپنی جان کو اس لیے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔
سوال: یوکرائن کی وجہ سے کیا حالات ہورہے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:یوکرائن کی وجہ سے روس اور نیٹو (NATO)کے ممالک آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ برتری کس نے آخر میں حاصل کرنی ہے یا دونوں کی طرف کتنا نقصان ہونا ہے لیکن یہ یقینی بات ہے کہ اسکے نتائج بہت خطرناک ہونے ہیں اوراگر اب بھی عقل سے کام نہ لیا تو ایک خوفناک تباہی اس کا انجام ہے۔
سوال: بعض تجزیہ نگار جنگ کے بعد کے حالات کے بارے میں کیا بیان فرماتے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:بعض جگہ تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جنگوں کی صورت میں جو تباہی ہونی ہے وہ ایسی خوفناک ہو گی کہ ایک اندازے کے مطابق دورانِ جنگ اور اسکے بعد کے دو سالوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے دنیا کی چھیاسٹھ فیصد آبادی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ ایسی تباہی و بربادی ہو گی جس کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ ایک عام انسان تو اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟
جواب:حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ وافضل سب نبیوں سے اور اتم واکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔
سوال:ہم کب علم و معرفت کا صحیح ادراک حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:حقیقی موحد ہی حقیقی امن و سلامتی کا علمبردار ہے۔ اگر مسلمان حقیقت میں اس نکتہ کو سمجھ لیں اور اسکے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں تو دنیا میں حقیقی امن پسند یہی ہوں گے لیکن پھر وہی بات کہ اس کیلئےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ساتھ جڑنا بھی ضروری ہے، تبھی علم و معرفت کا صحیح ادراک بھی ہو سکتا ہے۔
سوال:حقیقی امن و سلامتی قائم کرنے کیلئے کیا ضروری ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: ہر احمدی کا کام ہے کہ حقیقی امن اور سلامتی دنیا میں پیدا کرنے کیلئے خدائے واحد پر اپنے ایمان کو پختہ کرے۔ خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنے دلوں میں راسخ کرے کہ کوئی اور محبت اس کی جگہ نہ لے سکے۔ اسکے حکموں پر عمل کرنے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتری ہوئی تعلیم یعنی قرآن کریم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے۔ جب ہمارے معیار اس حد تک جائیں گے کہ قرآن کریم کا ہر حکم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد ہمارے قول و فعل کا حصہ بن جائے گا تب ہی ہم دنیا کو اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا سکیں گے۔ انہیں حقیقی امن کے گُر کی نہ صرف تعلیم پیش کر کے بتائیں گے بلکہ اپنے عمل سے بھی سکھائیں گے اور یہی دنیا میں حقیقی امن قائم کرنے کا ذریعہ ہے ۔
سوال:جلسے پر احباب و مستورات کی کتنی حاضری تھی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا:جلسہ کی ہماری کُل حاضری انیس ہزار سات سو بیاسی ہے جس میں مستورات نوہزار چار سو بیاسی اور مرد حضرات دس ہزار تین سو اور اس کے علاوہ جو دوسرے ذرائع سے لوگ جلسہ سالانہ کی کارروائی دیکھ رہے ہیں یا سن رہے ہیں ان کی تعداد بھی چالیس ہزار سے اوپر ہے۔
سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی انسان کو کس مقام پر لے جاتی ہے؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی انسان کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ سے حقیقی محبت کرنے والا بن جاتا ہے اور یہ حقیقی محبت پھر انسان کے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا دیتی ہے۔
سوال: جب کسی سے سچے دل سے محبت ہو تو کیا حالت ہوتی ہے؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو پھر اسکے ہر قول و فعل پر انسان عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسکی ہر بات سننے اور اس کو ماننے کی کوشش کرتا ہے۔
سوال:خطاب کے آخر پر حضور انور نے کن دعائوں کی طرف احباب جماعت کو طرف توجہ دلائی؟
جواب:حضور انور نے فرمایا: سب یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو جلسہ کی برکات کا حامل بنائے اور ہر ایک کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ دنیا کے حالات میں جلد ہر طرح سے امن و سلامتی پیدا فرمائے تا کہ ہم اپنے جلسے پھر وسیع پیمانے پر اور اسی شان سے ہر قسم کی فکروں سے آزاد ہو کر منعقد کر سکیں اور جلسوں کو اپنی روحانی اور علمی پیاس بجھانے کا ذریعہ بنائیں اور حقیقت میں اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیار اور اس کے فضل کو سمیٹنے والے ہم ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
سوال: ہمیں کب خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوگی؟
جواب:حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ یہ سوچ رکھنی ہو گی کہ اگر میں صرف اپنے لیے یا اپنی قوم کیلئے یا صرف اپنے ملک کیلئے امن کا متمنی ہوں تو اس صورت میں مجھے اللہ تعالیٰ کی مدد، اسکی نصرت اور اسکی خوشنودی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔جب اس عقیدے پر انسان قائم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر سب کچھ کرنا ہے تبھی حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔
سوال:دنیا میں اس وقت جتنی بھی لڑائیاں ہو رہی ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:دنیا میں اس وقت جتنی لڑائیاں اور فساد ہیں وہ سب اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے ارادے صاف نہیں ہیں۔
سوال: کس کے ذریعہ سے ہم خدا کی رضا اور اس کی پیروی حاصل کر سکتے ہیں؟
جواب: حضور انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو تعلیم اتاری اس میں فرمایا کہ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۔يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ(المائدۃ:16-17) یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آ چکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی۔ اللہ اسکے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے۔
سوال:ہم کب اپنی دنیا و عاقبت کو سنوار سکتے ہیں؟
جواب:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنی ہے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس کلام کوجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ يَهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ، اس روشن کتاب کی ہدایت کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں۔ اس روشن کتاب کی ہدایت کو پڑھنا اور سامنے رکھنا چاہیے تبھی سبل السلام پر چلنے والے ہوں گے۔
…٭…٭…