اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-08

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ2؍فروری 2024ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

جنگ احد کےجانباز اور وفادار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی جاں بازی وجاں نثار ی کے ایمان افروز واقعات

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جنگ احد کے واقعات میں صحابہ کی قربانیوں اور ان کے عشق رسول کی مثالیں میں نے دی تھیں۔ ان میں حضرت علی ؓکی بہادری کے واقعات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جب حضرت مصعب شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺنے جھنڈا حضرت علی کے سپرد کیا چنانچہ حضرت علی اور باقی مسلمانوں نے لڑائی کی۔ حضرت علی نے یکے بعد دیگرے کفار کے علمبرداروں کو تہ تیغ کیاتو حضرت جبرئیل نے کہا یا رسول اللہ یقیناً علی ہمدردی کے لائق ہے تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہاں علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔ تو جبرئیل نے کہا کہ میں آپ دونوں میں سے ہوں۔
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ غزوہ احد میں حضرت علی کو سولہ زخم لگے تھے۔ حضرت علی نے احد سے واپس آ کر حضرت فاطمہ کو اپنی تلوار دی اور کہا اس کو دھو دو آج اس تلوار نے بڑا کام کیا ہے۔ رسول کریم ﷺ حضرت علی کی یہ بات سن رہے تھے۔ آپ نے فرمایا علی تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا اور بھی بہت سے تمہارے بھائی ہیں جن کی تلواروں نے جوہر دکھائے ہیں آپ ﷺ نے چھ سات صحابہ کے نام لیتے ہوئے فرمایا ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کم نہ تھیں۔
حضرت ابوطلحہ انصاری کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ جب احد کی جنگ ہوئی تو لوگ شکست کھا کر نبی کریم ﷺسے جدا ہو گئے اور حضرت ابو طلحہ نبی ﷺکے سامنے آڑ بن کرکھڑے رہے۔ حضرت ابوطلحہ ایسے تیر انداز تھے کہ زور سے کمان کھینچا کرتے تھے۔ انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں۔ جو کوئی آدمی تیروں کا ترکش اپنے ساتھ لئے گزرتا تھا تو آنحضرتﷺ اس سے فرماتے کہ اپنے تیرطلحہ کودے دو۔ جب وہ تیر چلاتے تو نبی کریم ﷺ جھانکتے اور ان کے تیر پڑنے کی جگہ کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہ کہتے میرے ماں باپ آپ پر قربان، سر اٹھا کر نہ دیکھیں کہیںکوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔ میرا سینہ آپ کے سینے کے سامنے ہے۔
غزوہ احد میں حضرت ابوطلحہ کے اس شعر کے پڑھنے کا بھی ذکر آتا ہے :
وَجْھِیْ لِوَجْھِکَ الْوِقَاءُ   ٭  وَنَفْسِیْ بِنَفْسِکَ الْفِدَاءُ
میرا چہرہ آپ کے چہرے کو بچانے کیلئے ہے اور میری جان آپ کی جان پر قربان ہے۔
پھر حضرت طلحہ بن عبیداللہ کا ذکر ہے۔ وہ انصاری تھے یہ قریش میں سے تھے۔ جنگ احد کے دن آنحضرت ﷺ کو بچاتے ہوئے یہ تیر اپنےہاتھوں پہ لیتے تھے۔ جنگ احد کے روز رسول اللہ ﷺکے ہمراہ ثابت قدم رہے اور آپ سے موت پر بیعت کی۔
عائشہ اور ام اسحاق جو حضرت طلحہ کی بیٹیاں تھیں ان دونوں نے بیان کیا کہ احد کے دن ہمارے والد کو چوبیس زخم لگے جن میں سے ایک چوکور زخم سر میں تھا اور پاؤں کی رگ کٹ گئی تھی۔ انگلی شل ہو گئی تھی اور باقی زخم جسم پر تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن جب خالد بن ولید نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا اور مسلمانوں میں انتشار پھیل گیا تو چند صحابہ دوڑ کر رسول اللہﷺ کے گرد جمع ہو گئے جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیس تھی۔ کفار نے شدت کے ساتھ اُس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم ﷺکھڑے تھے۔ یکے بعد دیگرے صحابہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔ علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم ﷺ کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے۔یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ ﷺ کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے حضرت طلحہ نےاپنا ہاتھ رسول اللہﷺ کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہ کے ہاتھ پر گرتا تھا مگر جانباز اور وفادار صحابی اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔ اِس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بیکار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ ان کا باقی رہ گیا۔ سالہا سال بعد اِسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہ کو کہا۔ ٹنڈا۔ اِس پر ایک دوسرے صحابی نے کہا، ہاں ٹنڈا ہے مگر کیسا مبارک ٹنڈا ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ طلحہ کا یہ ہاتھ رسول کریم ﷺ کے منہ کی حفاظت میں ٹنڈا ہوا تھا۔ احد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم ﷺکے منہ پر آگرے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص اُن جاںنثازوں میں سے ایک تھے جنہوں نے بڑی بہادری اور وفا کا مظاہرہ کیا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ سعد بن ابی وقاص کو آنحضرت ﷺ خود تیر پکڑاتے جاتے تھے اور حضرت سعد یہ تیر دشمن پربے تحاشا چلاتے جاتے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں برابر تیر چلاتے جائو۔ سعداپنی آخری عمر تک ان الفاظ کونہایت فخر کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے۔ حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص کے علاوہ رسول اللہﷺ کو کبھی کسی کیلئے اپنے ماں باپ فدا کرنے کی دعا دیتے نہیں سنا۔
اسی طرح حضرت ابودجانہ کی قربانی کا بھی ذکر ملتا ہے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ نے لکھا ہے کہ ابودجانہ نے بڑی دیرتک آپ کے جسم کواپنے جسم سے چھپائے رکھا اورجو تیر یا پتھر آتا تھا اسے اپنے جسم پرلیتے تھے۔ حتی کہ ان کا بدن تیروں سے چھلنی ہو گیا مگر انہوں نے اُف تک نہیں کی تاایسا نہ ہوکہ ان کے بدن میں حرکت پیدا ہونے سے آنحضرتﷺ کے جسم کاکوئی حصہ ننگا ہو جائے اور آپ کو کوئی تیر آلگے۔
پھر حضرت سہل بن حنیف عظیم المرتبت صحابی نے احد کے روز ثابت قدمی دکھائی۔ اس روز انہوں نے موت پر آنحضور ﷺ کی بیعت کی تھی۔ آپ آنحضورﷺ کے آگے ڈھال بن کر ڈٹے رہے۔ جب دشمن کے شدید حملے کی وجہ سے مسلمان بکھر گئے اُس دن انہوں نے آنحضور ﷺ کی طرف سے تیر چلائے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سہل کو تیر پکڑاؤ کیونکہ تیر چلانا اس کیلئے آسان امر ہے۔
پھر حضرت ام عمارہ بہادری کے جوہر دکھانے والی بڑی باوفا جاںنثار صحابیہ تھیں۔ یہ حضرت زید بن عاصم کی بیوی تھیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ غزوہ احد کے موقع پر میں یہ دیکھنے کیلئے روانہ ہوئی کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ میرے پاس پانی سے بھرا ہوا ایک مشکیزہ بھی تھا جو میں نے زخمیوں کو پلانے کیلئے ساتھ لے لیا تھا یہاں تک کہ میں آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گئی۔ اس وقت آپ صحابہ کے درمیان میں تھے اور اس وقت مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر اچانک صحابہ افراتفری میں ادھر ادھر ہو گئے۔ مشرکوں نے چاروں طرف سے آنحضرت ﷺپر یلغار کر دی۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں کھڑی ہو کر جنگ کرنے لگی۔ میں تلوار کے ذریعہ دشمنوں کو آپ کے قریب آنے سے روک رہی تھی۔ ساتھ ہی میں کمان سے تیر بھی چلا رہی تھی یہاں تک کہ میں خود بھی زخمی ہو گئی۔ ان کے کندھے پر بہت گہرا زخم لگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے زخمی کیا تو انہوں نے کہا ابن قمئہ نے۔ حضرت ام عمارہ بیان کرتی ہیں کہ جب ابن قمۂ آنحضرت ﷺ پر حملہ کرنے آپ کے قریب آیا تو میں نے اور مصعب بن عمیر نے اس کا راستہ روکا۔ اس وقت اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ جس پر یہ کندھے کا زخم مجھے لگایا تھا۔ میں نے اس پر کئی وار کئے مگر وہ خدا کا دشمن دو زرہیں پہنے ہوئے تھا۔
آنحضرت ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ احد کے دن میں دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تو دیکھتا کہ ام عمارہ میری حفاظت کیلئے دشمن سے لڑ رہی ہیں۔ غزوہ احد میں حضرت ام عمارہ کو بارہ زخم آئے جن میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی تھے۔
انکے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اےؓ نے لکھا ہے کہ ام عمارہ تلوار ہاتھ میں لے کر مارتی کاٹتی آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچی۔ اُس وقت عبداللہ بن قمئہ آپ پر وار کرنے کیلئے آگے بڑھ رہا تھا۔ ام عمارہ نے جھٹ آگے بڑھ کر وہ وار اپنے اوپر لے لیا اور پھر تلوار تول کر اس پر اپنا وار کیا مگر وہ ایک دوہری زرہ پہنے ہوئے مرد تھا اور یہ ایک کمزور عورت،اس لئے وارکاری نہ پڑا۔
جنگ میں ابوسفیان کے ساتھ مکالمے کا ذکر ملتا ہے اوریہ کہ قریش کس طرح واپس ہوئے۔ غزوہ احد کے دن جب آنحضرتﷺ صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر چڑھ گئے تو کفار بھی آپ کے پیچھے آئے۔ ابوسفیان نے تین بار پکار کر کہا کیا تم میں محمد ﷺ ہیں؟نبی ﷺ نے صحابہ کو جواب دینے سے روک دیا۔ پھر اس نے تین بار پکار کر پوچھا کیا تم میں ابوبکرہے؟ پھر تین بار پوچھا کیا تم میں ابن خطاب ہے؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا یہ تو مارے گئے۔ یہ سن کر حضرت عمر اپنے آپ کو قابو میں نہ کر سکے اور بولے اَے اللہ کے دشمن بخدا تم نے جھوٹ کہا ہے۔ جن کا تم نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں۔ ابوسفیان بولا یہ معرکہ بدر کے معرکہ کا بدلہ ہے۔ لڑائی تو ڈول کی طرح ہے کبھی اس کی فتح اور کبھی اُسکی فتح۔پھر ابو سفیان نے نعرہ لگایا اعل ھبل اعل ھبل۔ ہبل بت کی جے ہبل بت کی جے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کیا اسے جواب نہیں دو گے۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ہم کیا کہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کہو اللہ اعلیٰ واجل۔ اللہ ہی سب سے بلند اور بڑی شان والا ہے۔ پھر ابوسفیان نے کہا عزیٰ نامی بت ہمارا ہے اور تمہارا کوئی عزیٰ نہیں۔ نبی ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم اسے جواب نہیں دوگے۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ہم کیا کہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کہو کہ اللہ مولانا ولا مولا لکم کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔ اسکے بعد ابوسفیان نے پکار کر مسلمانوںسے کہا کہ آئندہ سال میدان بدر میں ہم تم سے پھر ملیں گے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ میں سے ایک شخص سے فرمایا کہہ دو کہ ہاں ہمارا تمہارا ملنے کا وعدہ رہا۔
خطبہ کے آخر پر حضور انور نے فرمایا: فلسطینیوں کیلئے دعائیں جاری رکھیں۔مغربی حکومتوں میں انصاف کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ۔ اب تو ان کے اپنے لکھنے والے لکھنے لگ گئے ہیں کہ ظلم کی انتہا ہو رہی ہے۔ امریکہ کے لیڈر صرف اپنی معیشت بہتر کرنے کیلئے ان جنگوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی پکڑ سے یہ لوگ بچ نہیں سکتے۔ احمدی بہرحال اپنی دعاؤں اور رابطوں سے تباہی سے بچنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ یو این کی جو مدد کرنے والی ایجنسی ہے، امریکہ اور یوکے وغیرہ نے انہیں مالی مدد دینا بند کر دیا ہے۔ یواین ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ اگر مدد نہ ملی تو فروری کے بعد ہم فلسطینیوں کو کوئی ایڈ نہیں پہنچا سکتے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اگر مغربی ملکوں نے مدد بند کی ہے تو تیل کی دولت رکھنے والے مسلمان ممالک نے کیوں اعلان نہیںکیا کہ ہم مدد کریں گے۔
اللہ تعالیٰ مسلمان ملکوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کا فساد بھی ختم ہو اب ایران کے ساتھ بھی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح یمن کے احمدیوں کیلئے بھی دعا کریں۔پاکستان کے احمدیوں کیلئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ شریروںکے شر ان پر الٹائے اور اللہ تعالیٰ ہر ملک میں احمدیوں کی حفاظت فرمائے۔ دنیا اس حقیقت کو پہچان لے کہ اُن کی بقا اسی میں ہے کہ اللہ کو پہچانیں اور اللہ کے بھیجے ہوئے کو مانیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے۔

…٭…٭…٭…