اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-02-01

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ26؍جنوری 2024ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

جنگ احد کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی جاں نثار ی کے ایمان افروز واقعات

تشہد،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ میں جو زخم پہنچے تھے ان کے متعلق بعض روایات اس طرح ہیں۔طبرانی کی روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے تو فرمایا اس قوم پر اللہ کا غضب انتہائی سخت ہو جاتا ہے جس نے اللہ کےنبی کے چہرہ کو زخمی کیا۔ پھر تھوڑی دیر رک کر فرمایا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نادان ہے۔ صحیحین کی روایت میں بھی یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بار بار فرما رہے تھے۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَاے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نادان ہے۔
حضور انور نے فرمایا :آنحضرت ﷺ کی رحمت جو اللہ تعالیٰ کے رنگ میں کامل طور پر رنگی ہوئی تھی اس حالت میں بھی غالب آئی جبکہ آپ زخمی تھے خون بہہ رہا تھا اور آپ نے پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ یہ ظلم جو یہ کر رہے ہیں یہ لاعلمی اور بیوقوفی کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ ان کو بخش دے۔ ان پر انکی غلطیوں کی وجہ سے عذاب نازل نہ کرنا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔ کیا شفقت اور رحمت کا مظاہرہ ہے۔
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ نے بھی سیرت خاتم النبیین میں تفصیل لکھی ہے کہ درہ میں پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی مدد سے اپنے زخم دھوئے اور جو دو کڑیاں آپ کے رخسار میں چبھ کر رہ گئی تھیں وہ ابوعبیدہ بن الجراح نے بڑی مشکل سے اپنے دانتوں کے ساتھ کھینچ کرباہر نکالیں حتی کہ اس کوشش میں ان کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے۔ اس وقت آپ کے زخموں سے بہت خون بہہ رہا تھا اور آپ اس خون کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ فرماتے تھے کہ کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بِالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلٰی رَبِّـھِمْ کہ کس طرح نجات پائے گی وہ قوم جس نے اپنے نبی کے منہ کو اس کے خون سے رنگ دیا اس جرم میں کہ وہ انہیں خدا کی طرف بلاتا ہے۔ اسکے بعد آپ تھوڑی دیر کیلئے خاموش ہوگئے اور پھر فرمایا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ یعنی اے میرے اللہ تو میری قوم کومعاف کر دے کیونکہ ان سے یہ قصور جہالت اور لاعلمی میں ہوا ہے۔ روایت آتی ہے کہ اسی موقع پر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی کہ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ یعنی عذاب وعفو کامعاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس سے تمہیں کوئی سروکار نہیں خدا جسے چاہے گا معاف کرے گااورجسے چاہے گا عذاب دے گا۔ پھر لکھتے ہیں کہ فاطمۃ الزہرا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وحشتناک خبر سن کر مدینہ سے نکل آئی تھیں وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد احد میں پہنچ گئیں اورآتے ہی آپ کے زخم کودھونا شروع کر دیا مگر خون کسی طرح بندہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔ آخر حضرت فاطمہ نے چٹائی کاایک ٹکڑا جلایا۔ اسکی خاک آپ کے زخم پرباندھی تب جاکر کہیں خون تھما۔ دوسری خواتین نے بھی اس موقع پرزخمی صحابیوں کی خدمت کر کے ثواب حاصل کیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس واقعہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ غزوئہ احد کے موقعہ پر ایک پتھر آپ کے خَود پرآلگا اور اسکے کیل آپ کے سر میں گھس گئے۔آپ بے ہوش ہوکر ان صحابہ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپ کے ارد گر د لڑتے ہوئے شہید ہوچکے تھے اوراسکے بعد کچھ اورصحابہ کی لاشیں آپ کے جسم اطہر پر جا گریں اور لوگوں نے یہ سمجھا کہ آپ مارے جا چکے ہیں مگرجب آپ کو گڑھے سے نکالا گیا اور آپ کو ہوش آیا تو آپ نے یہ خیال ہی نہ کیا کہ دشمن نے مجھے زخمی کیا ہے۔ میرے دانت توڑدیئے ہیں اورمیرے عزیزوں اوررشتہ داروں اور دوستوں کو شہید کر دیا ہے بلکہ آپ نے ہوش میں آتے ہی دعاکی کہ رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن۔ اَے میرے ربّ یہ لوگ میرے مقام کو شناخت نہیں کرسکے اس لئے توان کو بخش دے اوران کے گناہوں کو معاف فرما دے۔
احد میں فرشتوں کا حاضر ہونا اور ان کی لڑائی کرنے کے بارے میں بھی ذکر ملتا ہے۔ سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں دو آدمی دیکھے۔ ان پر سفید لباس تھا۔ بڑی سخت لڑائی کر رہے تھے۔ میں نے ان دونوں کو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ اسکے بعد دیکھا۔
محمد بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمایا اَے مصعب آگے بڑھ تو عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا مصعب شہید نہیں کر دئیے گئے؟ آپ نے فرمایا بالکل لیکن ایک فرشتہ ان کا قائمقام بنا ہے اور ان کا نام اس کو دے دیا گیا ہے۔ علامہ ابن عساکر نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ احد کے دن میں نے دیکھا کہ میں تیر چلاتا ہوں اور ان تیروں کو میرے پاس سفید کپڑوں والا خوبصورت شخص واپس لے آتا تھا۔ میں اس کو نہیں جانتا تھا حتی کہ اس کے بعد میں گمان کرتا تھا کہ وہ فرشتہ تھا۔
عمیر بن اسحاق سے روایت ہے کہ احد کے دن لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو گئے اور سعد آپ کے سامنے تیر اندازی کرتے رہے اور ایک نوجوان ان کو تیر اٹھا کر دیتا۔ جب بھی تیر پھینکتے وہ اس کو اٹھا کر لے آتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابواسحاق (یہ سعد بن ابی وقاص کی کنیت تھی)تیر چلا۔ جب جنگ سے فارغ ہوئے تو اس نوجوان کو کہیں نہیں دیکھا گیااور نہ اس کو کوئی جانتا تھا۔
اپنے ایک خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں جو فرشتے دیکھے گئے ان کے سروں پر سیاہ پگڑیاں تھیں اور ان کی ایک یونیفارم تھی۔ صحابہ نے ان فرشتوں کو مختلف حالتوں میں دیکھا تو اسی طرح سیاہ پگڑیاں انہوں نے پہنی ہوئی تھیں۔ اسی طرح جنگ احد میں جو فرشتے دکھائی دئیے ان کے سروں پر بطور نشان سرخ پگڑیاں تھیں۔ سرخ رنگ میں کچھ غم کا پیغام بھی تھا کیونکہ جتنا دکھ صحابہ کو جنگ احد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کی وجہ سے پہنچا ویسا دکھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں کبھی صحابہ کو نہیں پہنچا۔ ایک غم کے بعد دوسرے غم کی خبر ان کو ملی اور وہ غموں سے نڈھال ہو گئے۔ پس اس غزوہ میں فرشتوں کی علامت کیلئے بھی ایک ایسا رنگ چنا گیا جس میں غم اور دکھ کا پہلو شامل تھا۔
حضور انور نے فرمایا:صحابہ کی ثابت قدمی اور جانثاری کے واقعات بھی بہت ہیں کس طرح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کیں۔
ابن اسحاق کہتے ہیںکہ انس بن مالک کے چچا انس بن نضر کا گزر طلحہ بن عبید اللہ اور عمر بن خطاب وغیرہ مہاجرین اور انصار کے چند لوگوں کے پاس ہوا۔ یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ انس نے ان سے کہا تم لوگ کیوں بیٹھے ہوئے ہو۔ انہوں نے کہا رسول اللہﷺ تو قتل ہو گئے۔ انس نے کہا پھر تم رسول اللہ ﷺ کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے۔ جس طرح ان کا انتقال ہوا تم بھی اسی طرح مر جاؤ۔ پھر انس کفار کی طرف متوجہ ہوئے اور اس قدر لڑے کہ آخر شہید ہو گئے۔ انہی کے نام پر انس بن مالک کا نام رکھا گیا۔ انس بن مالک بیان کرتے ہیں اس روز ہم نے انس بن نضر کو اس حال میں پایا کہ ان کے جسم پر ستر زخموں کے نشان تھے اور ان کی لاش کو کوئی نہ پہچان سکا سوائے ان کی بہن کے۔ انہوں نے انگلیوں کے پوروں سے ان کو پہچانا۔
اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یوں لکھتے ہیں کہ اس وقت نہایت خطرناک لڑائی ہو رہی تھی اور مسلمانوں کے واسطے ایک سخت ابتلا اور امتحان کاوقت تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر بہت سے صحابہ ہمت ہار چکے تھے اور ہتھیار پھینک کرمیدان سے ایک طرف ہوگئے تھے۔ انہی میں حضرت عمربھی تھے۔ چنانچہ یہ لوگ اسی طرح میدان جنگ کے ایک طرف بیٹھے تھے کہ اوپر سے ایک صحابی انس بن نضر انصاری آگئے اور ان کو دیکھ کر کہنے لگے۔ تم لوگ یہاں کیا کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا۔ رسول اللہﷺ نے شہادت پائی اب لڑنے سے کیا حاصل ہے؟ انس نے کہا کہ یہی تو لڑنے کا وقت ہے تا جو موت رسول اللہ ﷺ نے پائی وہ ہمیں بھی نصیب ہو اور پھر آپ کے بعد زندگی کا کیا لطف ہے؟ پھر ان کے سامنے سعد بن معاذ آئے تو انہوں نے کہا۔ سعد مجھے تو پہاڑی سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ کہہ کر انس دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ جنگ کے بعد دیکھا گیا توان کے بدن پراسی سے زیادہ زخم تھے اور کوئی پہچان نہ سکتا تھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔ آخر ان کی بہن نے ان کی انگلی دیکھ کر شناخت کیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی اس بارے میں بیان فرمایا ہے کہ حضرت انس کے چچا جنگ احد میں شامل ہوئے اور انہوں نے خوب دادِ شجاعت دی۔ خوب لڑے اور خوب محمدﷺ کو کفار کے حملوں سے بچایا، آخر فتح ہوئی۔ انہوں نے سمجھا کہ اب میرا فرض پورا ہو گیا ہے۔ انہیں بھوک لگی ہوئی تھی اور چند کھجوریں ان کے پاس تھیں وہ میدان جنگ سے کچھ پیچھے ہٹ کر فتح کی خوشی میں ٹہلنے لگ گئے اور کھجوریں کھانے لگے کھجوریں کھاتے اور ٹہلتے ٹہلتے وہ ایک طرف آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک پتھر ہے جس پر حضرت عمر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ وہ ان کو دیکھ کر حیران ہو گئے کہ آج تو ہنسنے کا دن ہے خوش ہو نے کا دن ہے مبارکبادیوں کا دن ہے۔ ایسے موقع پر یہ رو کیوں رہے ہیں۔ چنانچہ وہ حضرت عمر سے مخاطب ہوئے اور انہیں کہا کہ ارے میاں آج تو خوشی کا دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور تم اس وقت رو رہے ہو۔ حضرت عمر نے کہا شاید تمہیں پتہ نہیں کہ فتح کے بعد کیا ہوا۔ انہوں نے کہا کیا ہوا۔ حضرت عمر نے کہا۔ دشمن کا لشکر پیچھے سے آیا اور اس نے دوبارہ حملہ کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور رسول کریم ﷺشہید ہو گئے۔ اس انصاری نے کہا عمر تو پھر بھی یہ رونے کا کونسا مقام ہے۔ ایک کھجور ان کے ہاتھ میں رہ گئی تھی۔ وہ انہوں نے اسی وقت پھینک دی ۔ حضرت عمر کی طرف دیکھا اور کہا عمر اگر رسول کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں تو پھر اس دنیا میں ہمارا کیا کام ہے۔ پھر جہاں وہ گئے ہیں وہیں ہم بھی جائیں گے یہ کہہ کر تلوار لی اور اکیلے ہی دشمن کے لشکر پر جو ہزاروں کی تعداد میں تھا حملہ آور ہو گئے۔ ایک آدمی کی ہزاروں کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہوتی ہے۔ چاروں طرف سے ان پر حملے شروع ہو گئے اور وہ وہیں شہید ہو گئے۔ جنگ کے بعد جب رسول کریمﷺ نے ان کی لاش تلاش کرائی تو ان کے جسم کے ستر ٹکڑے ملے بلکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ آخر انگلی کے ایک نشان کے ذریعہ ان کی ایک بہن نے یا کسی اور رشتہ دار نے ان کو شناخت کیا۔
حضور انور نے فرمایایہ تھا صحابہ کا عشق رسول۔ فرمایایہ ذکر چل رہا ہےانشاء اللہ آئندہ بھی بیان ہو گا۔
فرمایایمن کے احمدیوں کیلئے بھی دعا کریں وہ کافی مشکلات میں گرفتار ہیں آجکل۔ اسی طرح مسلم امہ کیلئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان میں بھی اکائی اور وحدت پیدا کرے اور عقل اور سمجھ دے۔ دنیا کے عمومی حالات کیلئے بھی دعا کریں۔ بڑی تیزی سے جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے دو مرحومین مکرم حافظ ڈاکٹر عبدالحمید گمانگا صاحب نائب امیر سیرالیون اورمکرمہ طاہرہ نذیر بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری رشید الدین صاحب مربی سلسلہ کا ذکر خیر فرمایااور نماز جمعہ کے بعد ہر دو مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی ۔

…٭…٭…٭…