اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-25

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ19؍جنوری 2024ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جنگ احد کے بارے میں ذکر ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں مزید بیان کروں گا۔ جیسا کہ بیان ہوا تھا کہ دشمن نے اعلان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی یہ خبر جس نے مشہور کی تھی جب مسلمانوں نے سنی تو مسلمانوں کی حالت کیا ہوئی۔ اس کی تفصیل میں بیان ہوا ہے کہ جب ابن قمئہ نے یہ سمجھا کہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا ہے اور اُس نے منادی کر دی کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منادی کرنے والا شیطان تھا ۔اس بارے میں کئی قول ہیں کہ اعلان کس نے کیا تھا۔ممکن ہے مختلف لوگوں نے کیا ہوکوئی شیطانی فطرت انسان بھی یہ اعلان کر سکتا ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النّبیینؐ میں لکھا ہے کہ اس وقت مسلمان تین حصوں میں منقسم تھے۔ایک گروہ وہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر میدان سے بھاگ گیا تھا ان میں حضرت عثمان بن عفان ؓبھی شامل تھے مگر قرآن شریف میں ذکر آتا ہے کہ اُس وقت کے خاص حالات اور لوگوں کے دلی ایمان اور اخلاص کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں معاف فرما دیا۔ ان لوگوں میں سے بعض مدینہ تک جا پہنچےجس کی وجہ سے وہاں بھی آنحضرت ﷺ کی خیالی شہادت اور لشکر اسلام کی ہزیمت کی خبر پہنچ گئی اورتمام شہر میں ایک کہرام مچ گیا۔مسلمان مرد عورتیں بچے بوڑھے اُحد کی طرف روانہ ہوئے اوربعض دوڑتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچے اور اللہ کا نام لے کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔دوسرے گروہ میں وہ لوگ تھے جو آنحضرت ﷺ کی شہادت کی خبر سن کر لڑنے کو بیکار سمجھتے تھے اور ایک طرف ہٹ کر سرنگوں ہو کر بیٹھ گئے تھے۔تیسرا گروہ وہ تھا جو برابر لڑ رہا تھا۔ان میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جو آنحضرت ﷺ کے اِردگردجمع تھے اور بے نظیر جاں نثاری کے جوہر دکھا رہے تھے۔ اوراکثر وہ تھے جومیدان جنگ میں منتشر طورپر لڑ رہے تھے۔ ان لوگوں اور نیز گروہ ثانی کے لوگوں کوجوں جوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ موجود ہونے کاپتہ لگتا جاتا تھا یہ لوگ دیوانوں کی طرح لڑتے بھڑتے آپ کے گرد جمع ہوتے جاتے تھے۔ اس وقت جنگ کی حالت یہ تھی کہ قریش کا لشکر گویا سمندر کی مہیب لہروں کی طرح چاروں طرف سے بڑھا چلا آتا تھا اور میدان جنگ میں ہرطرف سے تیر اورپتھروں کی بارش ہو رہی تھی۔ جان نثاروں نے اس خطرہ کی حالت کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد گھیرا ڈال کر آپ کے جسم مبارک کواپنے بدنوں سے چھپا لیا مگر پھربھی جب کبھی حملہ کی رو اٹھتی تھی تو یہ چند گنتی کے آدمی ادھر ادھر دھکیل دئے جاتے تھے اورایسی حالت میں بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریباً اکیلے رہ جاتے تھے۔
کسی ایسے ہی موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپؐ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپؐکا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ ایک اور پتھر جو عبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھا اُس نے آپؐکی پیشانی کو زخمی کیا اور تھوڑی دیر کے بعد تیسرا پتھر جوابن قمئہ نے پھینکا تھا آپؐکے رخسار مبارک پر آ کر لگا جس سے آپؐکے مغفریعنی خود کی دو کڑیاں آپؐکی رخسار میں چبھ کر رہ گئیں۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے دعا کی قبولیت کی فلاسفی کا مضمون بیان کرتے ہوئےایک لمبی تفصیل کے ساتھ جنگ احد کے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ آپؓفرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو پکڑنے کیلئے ایران کے بادشاہ نے ارادہ کیا تھا مگر ابھی پکڑنے والے نہ آئے تھے صرف پیغام لے کر یمن کے گورنر کے آدمی پہنچے تھے،اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کے لڑکے کو تحریک کی اور اس نے اپنے باپ کو مار دیا مگر احد کی جنگ میں دشمن نے آپ پر حملہ کیا پتھر مارے آپ کے دانت ٹوٹ گئے سر زخمی ہو گیا اور خَود کی کیلیں سر میں کھب گئیں آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے اور خیال کر لیا کہ آپ شہید ہو گئے۔اب کوئی کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی اتنی عزت منظور تھی کہ آپ کی خاطر ایران کے بادشاہ کو اتنی دور مروا دیا تو اس نے احد کے میدان میں کافروں کو آپ کو اس طرح پتھر کیوں مارنے دئیے؟ تو یہ اعتراضات درست نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں۔ یہ راز ہیں۔ بعض مواقع پر وہ تھوڑی سی بات پر پکڑ لیتا ہے اور بعض دفعہ کسی مصلحت کے ماتحت ڈھیل دیتا ہے تا انسان کی بے بسی اور بے سروسامانی ظاہر ہو۔
بہرحال یہ واقعہ چل رہا ہے۔ قتل کی افواہ کے بعد پھر آنحضرت ﷺ کا اچانک دیدار بھی ہوا صحابہ کو۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ ؓوہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس وقت سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو پہچانا کہ آپ زندہ سلامت موجود ہیں ۔ حضرت ابوعبیدہ ؓکہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو آپ کی آنکھوں کی وجہ سے پہچانا جو خَود کے نیچے سے روشن اور منور نظر آ رہی تھیں۔ مسلمانوں کو جیسے جیسے اطلاع ملتی گئی سب آپؐکی طرف آئے۔جب سب مسلمانوں نےآپؐکو دیکھ کر پہچان لیا تو وہ ا ٓپؐ کے گِردپروانوں کی طرح جمع ہو گئے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے لکھا ہے کہ جب قریش ذرا پیچھے ہٹ گئے اور جو مسلمان میدان میں موجود تھے وہ آنحضرت ﷺ کو پہچان کرآپؐکے گِرد جمع ہو گئے توآپؐ اپنے ان صحابہؓ کی جمعیت میں آہستہ آہستہ پہاڑ کے اوپر چڑھ کر ایک محفوظ درّہ میں پہنچ گئے۔راستے میں مکہ کے ایک رئیس ابی بن خلف کی نظر آپؐ پر پڑی اور وہ بغض و عداوت میں اندھا ہو کر یہ الفاظ پکارتے ہوئے آپؐکی طرف بھاگا کہ لَا نَجَوْتُ اِنْ نَجَا۔اگر محمد ﷺ بچ کے نکل گیا تو گویا میں تو نہ بچا۔ صحابہ نے اُسے روکنا چاہا مگر آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ اسے چھوڑ دو اور میرے قریب آنےدو۔اور جب وہ آپؐ پر حملہ کرنے کے خیال سےآپؐکے قریب پہنچا تو آپؐنے ایک نیزہ لے کر اُس پر ایک وار کیا جس سے وہ چکر کھا کر زمین پر گِرا اور پھر اُٹھ کر چیختا چلاتا ہوا واپس بھاگ گیا اورگو بظاہر زخم زیادہ نہیں تھا مگر مکہ پہنچنے سے پہلے وہ پیوند خاک ہوگیا۔
جب آنحضرت ﷺ درّہ میں پہنچ گئے تو قریش کے ایک دستے نے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑپر چڑھ کر حملہ کرنا چاہا لیکن آنحضرت ﷺ کے حکم سے حضرت عمرؓ نے چند مہاجرین کو ساتھ لے کر اسکا مقابلہ کیا اور اسے پسپاکر دیا۔ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت ﷺنے چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ کیا تو سَر مبارک کے زخم سے خون نکل جانے اور کمزوری کی وجہ سے طاقت نہ تھی۔یہ دیکھ کرحضرت طلحہ بن عبید اللہؓ آپؐکو اپنے کاندھوں پربٹھاکرچٹان کےاوپرلےگئے۔آپؐنےاُسی وقت فرمایاکہ ان پرجنت واجب ہوگئی۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ جب یوم اُحد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ دن سارے کا سارا طلحہ ؓ کا تھا۔
غزوہ اُحد میں آنحضرت ﷺ کو جو زخم لگے اس حوالے سے بخاری کی روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علیؓ ڈھال میں سے پانی ڈال رہے تھے۔حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی خون کو اور نکال رہا ہے تو انہوں نے بوری کا ایک ٹکڑا جلاکراُسکے ساتھ چپکا دیا جس سے خون رک گیا۔آپؐ نے فرمایا کہ وہ قوم کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کو زخمی کیااور اس کا رباعی دانت توڑڈالاجبکہ وہ اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بُلاتا ہے۔
حضور انور نے فرمایاباقی انشاءاللہ آئندہ ۔
بعدہ حضور انور نےفلسطین کیلئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ فلسطین کیلئے میں دعا کیلئےکہتا رہتا ہوں۔ اب یہ مسلمان ملکوں کا حال ہو گیا ہے کہ بجائے اسکے کہ اکٹھے ہو کے فلسطین کو بچانے کی فکر کریں خود مسلمانوں نے لڑنا شروع کر دیا ہے اور پاکستان اور ایران میں بھی اب سنا ہے چپقلش شروع ہو گئی ہے ایک دوسرے پہ بم بھی مارے ہیں انہوں نے۔ تو یہ خطرناک صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان مسلمان ملکوں کو لیڈروں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ ان کیلئےبھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ حقیقت میں ان کو اپنا مقصد کو سمجھنے کی توفیق دے اور ایک امت واحدہ بننے والے ہوں۔
خطبہ کے آخرپرحضورانور نے فرمایانماز کے بعد میں دو جنازےغائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک ہے سید مولود احمد صاحب ابن سید داؤد مظفر شاہ صاحب جوآپ حضرت مصلح موعود ؓ اور سیدہ ام طاہر صاحبہ کے نواسے میرے خالہ زاد بھی تھے اور میری اہلیہ کے بڑے بھائی تھے اوردوسرا جنازہ آکمید اگ محمد صاحب صدر جماعت مہدی آبادڈوری ریجن برکینا فاسوکا ہے، حضورانورنےفرمایااللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے ان کی اولاد کو بھی لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

…٭…٭…