اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2024-01-18

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ12؍جنوری 2024ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

جنگ احدمیںجوصحابہ آنحضرت ﷺ کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جاںنثاریاں دکھائیں تاریخ انکی نظیرلانے سے عاجز ہے، یہ لوگ پروانوں کی طرح آپﷺ کے ارد گرد گھومتے تھے

اورآپ کی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے، جووار بھی پڑتا تھا صحابہ اپنے اوپر لیتے تھے اور آنحضرت ﷺ کوبچاتے تھے اورساتھ ہی دشمن پربھی وارکرتے جاتے تھے

سارے یہی کہتے تھے کہ میرا چہرہ آپ ﷺکے چہرے کے سامنے رہے اور میری جان آپ کی جان کے سامنے اور آپ پر سلامتی ہو آپ پر قربان ہو

 

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جنگ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ذکر ہو رہا تھا۔ اس حوالے سے مزید تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہﷺ لوگوں میں دشمن سے سب سے زیادہ قریب تھے اور آپ کے ساتھ پندرہ افراد ثابت قدم رہے۔ آٹھ مہاجرین میں سے حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم تھے۔اور سات انصار میںسے حضرت حباب بن منذر، ابودجانہ، عاصم بن ثابت، حارث بن سمہ، سہل بن حنیف اور سعد بن معاذ اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم تھے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ آپ کے سامنے تیس افراد ثابت قدم رہے اور سارے یہی کہتے تھے کہ میرا چہرہ آپ ﷺکے چہرے کے سامنے رہے اور میری جان آپ کی جان کے سامنے اور آپ پر سلامتی ہو آپ پر قربان ہو۔
حضور انور نے فرمایا:مختلف روایات میں آنحضرت ﷺکے ساتھ ثابت قدم رہنے والے صحابہ کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ صحابہ آپ کے گرد آتے تھے اور پھر دشمن کے حملے سے حلقہ ٹوٹ جاتا تھا بکھر جاتے تھے پھر اکٹھے ہوتے تھے۔ بہرحال بات یہی ہے کہ صحابہ ثابت قدمی کا نمونہ دکھاتے رہے اور کسی کو یہ خوف نہیں تھا کہ موت آئے گی۔
یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے احد کے دن اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی۔اس روز آٹھ افراد نے آپ کے دست اقدس پر موت کی بیعت کی۔ ان بیعت کرنے والے خوش نصیبوں کے جو اسماء روایات میں بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر، حضرت علی ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر ، حضرت سعد، حضرت سہل بن حنیف ، حضرت ابودجانہ، حضرت حارث بن سمہ ، حضرت خباب بن منذر اور حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہم ۔ ان میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہوا۔
سیرت خاتم النّبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے صحابہ کی ثابت قدمی اور جانثاری کے بارے میں لکھا ہے کہ جوصحابہ آنحضرت ﷺ کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جانثاریاں دکھائیں تاریخ ان کی نظیرلانے سے عاجز ہے۔ یہ لوگ پروانوں کی طرح آپﷺ کے ارد گرد گھومتے تھے اورآپ کی خاطراپنی جان پرکھیل رہے تھے۔ جووار بھی پڑتا تھا صحابہ اپنے اوپر لیتے تھے اور آنحضرت ﷺ کوبچاتے تھے اورساتھ ہی دشمن پربھی وارکرتے جاتے تھے۔یہ چند گنتی کے جانثار اس سیلاب عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہرلحظہ مہیب موجوں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلاآتا تھا۔ دشمن کے ہرحملہ کی ہر لہر مسلمانوں کو کہیں کا کہیں بہا کر لے جاتی تھی مگرجب ذرا زور تھمتا تھا مسلمان بیچارے لڑتے بھڑتے پھر اپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ بعض اوقات تو ایسا خطرناک حملہ ہوتا تھا کہ آنحضرت ﷺ عملاً اکیلے رہ جاتے تھے۔ چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کے اردگرد صرف بارہ آدمی رہ گئے اور ایک وقت ایسا تھا کہ آپ کے ساتھ صرف دوآدمی ہی رہ گئے۔ ان جانثاروں میں حضرت ابوبکر، علی، طلحہ، زبیر، سعدبن وقاص، ابودجانہ انصاری، سعد بن معاذ اور طلحہ انصاری کے نام خاص طورپر مذکور ہیں۔
حضور انور نے فرمایا:اس حوالے سے آپ کے گرد صحابہ کی جو تعداد مختلف روایتوں میں مختلف آتی ہے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جب کفار نے رسول اللہ ﷺکو گھیر لیا تو آپﷺ نے فرمایا کون شخص ہے جو ہمارے لئے خود کو بیچ دے گا تو زیاد بن سکن پانچ انصاری صحابہ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور رسول اللہﷺ کے سامنے داد شجاعت دیتے دیتے ایک ایک کر کے شہید ہوگئے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت جب قریش کے حملہ کی ایک غیر معمولی لہر اٹھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کون ہے جو اس وقت اپنی جان خدا کے رستے میں نثار کر دے؟ ایک انصاری کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو وہ اورچھ اورانصاری صحابی دیوانہ وارآگے بڑھے اوران میں سے ایک ایک نے آپ کے اردگرد لڑتے ہوئے جان دے دی۔ اس پارٹی کے رئیس زیاد بن سکن تھے۔جب حملہ ذرا کم ہوا اور دوسرے صحابہ آ گئے تو آنحضرت ﷺ نے حکم دیا کہ زیاد کواٹھا کرمیرے پاس لائو۔ لوگ اٹھا کر لائے اورانہیں آنحضرت ﷺ کے سامنے ڈال دیا۔ اس وقت زیاد میں کچھ کچھ جان تھی مگروہ دم توڑ رہے تھے۔ اس حالت میں انہوں نے بڑی کوشش کے ساتھ اپنا سر اٹھایا اوراپنا منہ آنحضرت ﷺ کے قدموں پر رکھ دیا اوراسی حالت میں جان دے دی۔
حضرت مصعب بن عمیر کی شہادت کا بھی واقعہ لکھا ہے کہ غزوہ احد کے روز حضرت مصعب جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے کہ ابن قمئہ نے جو گھوڑے پر سوار تھا۔ آپ کے دائیں ہاتھ پر تلوار سے وار کیا اور اسے کاٹ دیا۔ اس پرحضرت مصعب نے جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا۔ ابن قمئہ نے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو آپ نے دونوں بازوؤں سے اسلامی جھنڈے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بعد ابن قمئہ نے تیسری مرتبہ نیزے سے حملہ کیا اور حضرت مصعب کے سینے میں گاڑ دیا۔ نیزہ ٹوٹ گیا حضرت مصعب گر پڑے۔جھنڈا توکسی دوسرے مسلمان نے فوراآگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مصعب کا ڈیل ڈول آنحضرت ﷺسے ملتا تھا ابن قمئہ نے سمجھاکہ میں نے محمدﷺکو مار لیا ہے۔ یایہ بھی ممکن ہے کہ اسکی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکہ دہی کے خیال سے ہو۔ بہرحال اس نے مصعب کے شہید ہوکر گرنے پرشور مچادیا کہ میں نے محمد (ﷺ) کو مار لیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہوگئی۔
جیسا کہ بیان ہو اہے کہ میدان احد میں چند لمحات کی لاپرواہی نے اسلامی لشکر کی فتح کو وقتی پسپائی میں بدل دیا مگر رسول اللہ ﷺہی دنیا کی جنگی تاریخ میں بہترین سپہ سالار اور پرحکمت فوری فیصلوں کے مالک تسلیم کئے جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے جنگ کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھی۔ چار گنا بڑے لشکر کے سامنے اپنے منتشر اور کمزور لشکر کو اس انداز میں محفوظ کیا کہ دشمن اسلامی لشکر کو پوری طرح کچل دینے کے بد ارادے پر عمل نہ کر سکا۔حضرت مصعب بن عمیر کی شہادت کے بعد رسول اللہ ﷺنے اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت علی کو عطا کیا آپ نے اسلامی لشکر کا علم ہاتھ میں لیا اور فتح کے نشہ میں چور دشمنوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ آپ کی تلوار ضرب پر ضرب لگا رہی تھی۔ منتشر اسلامی لشکر کے حوصلے بحال کر رہی تھی۔ حضرت علی نے رسول اللہ ﷺکے گرد جمع چند نفوس پر مشتمل اسلامی لشکر کی چھوٹی سی جماعت کے ساتھ مل کر ایسی جنگ لڑی کہ مشرکین کے نرغے سے نکلنے کا راستہ بن گیا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں اس مختصر جماعت نے راستہ بنایا اور میدان جنگ میں موجود منتشر اسلامی لشکر کی طرف بڑھے جو رسول اللہ ﷺ کی شہادت کی خبر سن کر حوصلے ہارتے جا رہے تھے اس لئے مشرکین مکہ نے بھی اسلامی لشکر کی واپسی کو ناکام بنانے کیلئے تابڑ توڑ حملے شروع کر دئیے مگر رسول اللہﷺ کے پیچھے ہٹنے کی حکمت عملی بھی ایسی کامیاب تھی کہ مٹھی بھر نفری نیم دائرے کی شکل میں کندھے سے کندھا ملائے دشمن کے حملوں کو ناکام بناتے ہوئے غیر محسوس انداز میں گھاٹی کی طرف کھسک رہی تھی۔ دشمن نے گھیراڈالنے کیلئے بھرپور طاقت کا استعمال کیا مگر آپ ﷺ نے حملہ آوروں کا ہجوم چیر کر راستہ بنا ہی لیا۔
علامہ عبدالرزاق نے زہری سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے رخ انور پر احد کے دن تلوار سے ستر وار کئے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تمام کے شر سے بچایا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آنحضرت ﷺکے پاس ہوتا تھا کیونکہ آپ بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے۔ احد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں۔ ایسی گھمسان کی جنگ ہورہی ہے کہ صحابہ برداشت نہیں کر سکتے مگر یہ مرد میدان سینہ سپر ہو کر لڑ رہا ہے۔ اس میں صحابہ کا قصور نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تارسول اللہ ﷺ کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جاوے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر تلوار پر تلوار پڑتی تھی اور آپ نبوت کا دعوی کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ میں ہوں۔
عتبہ بن ابی وقاص نے جو حضرت سعد بن ابی وقاص کا بھائی تھا اس نے آنحضرتﷺ پر ایک پتھر کھینچ مارا جو آپ کے منہ پر لگا اور آپ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ہونٹ پھٹ گیا۔ امام ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ دانت کا ایک ٹکڑہ ٹوٹا تھا جڑ سے نہیں اکھڑا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص جو عتبہ کے بھائی تھے انہیں جب علم ہوا کہ نبی پاک ﷺ پر حملہ کرنے والا ان کا یہ بھائی تھا تو وہ جوش انتقام میں اسکے تعاقب میں لشکر کے اندر گھس گئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت جتنی حرص مجھے اسے قتل کرنے کی تھی شاید ہی دنیا میں کسی اور چیز کی کبھی اتنی ہوئی ہو لیکن عتبہ انہیں چکما دے کر نکل گیا۔ حضرت حاطب کہتے ہیںکہ جب میں نے عتبہ بن ابی وقاص کی شرمناک جسارت دیکھی تو میں نے فوراً آنحضرت ﷺسے پوچھا کہ عتبہ کدھر گیا ہے آپ نے اس سمت اشارہ کیا جس طرف وہ گیا تھا۔ میں فوراً اس کے تعاقب میں روانہ ہوا یہاں تک کہ ایک جگہ میں اس کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے فورا ہی اس پر تلوار کا وار کیا جس سے اسکی گردن کٹ کر دور جا گری۔ میں نے بڑھ کر اسکی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور اسے لے کر آنحضرت ﷺکے پاس آیا۔ آپ نے یہ خبر سن کر دو مرتبہ یہ فرمایا۔ رضی اللہ عنک رضی اللہ عنک۔ یعنی اللہ تم سے راضی ہو گیا اللہ تم سے راضی ہو گیا۔
خطبہ کے آخر پر حضور انور نے مکرم ابوحلمی محمد عکاشہ صاحب آف فلسطین،مکرمہ امۃ النصیر ظفر صاحبہ اہلیہ حیدر علی ظفر صاحب مربی سلسلہ جرمنی،مکرمہ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ مکرم حبیب اللہ کاہلوں صاحب گھٹیالیاں اور مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم رشید احمد ضمیر صاحب بشیر آباد سٹیٹ کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد تمام مرحومین کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔

…٭…٭…