غزوۂ احد پر روانگی کے دوران پیش آنے والے واقعات کاایمان افروز تذکرہ نیز فلسطین کے معصوموں کیلئے دعا کی مکرر تحریک
تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
گذشتہ خطبے میں جنگِ احد کے متعلق ذکر ہورہا تھا۔ اس حوالے سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا ہے وہ مختصر طور پر بیان کرتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار کے لشکر نے بدر کی جنگ کے بعد بدر کے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اوراپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد انہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مُردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے ان کی آمد آئندہ جنگ کیلئے محفوظ رکھی جائے گی۔ چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ آیا ہمیں شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر۔ آپ ﷺ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتداء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اس کا مقابلہ کرسکیں۔ مگر وہ نوجوان مسلمان جو بدر کی جنگ میں شامل نہ ہوسکے تھے اور جن کے دلوں میں خدا کی راہ میں شہادت کی حسرت تھی۔ انہوں نے یہی خواہش کی کہ باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ اس موقعے پر حضور ﷺ نے اپنی ایک خواب بھی بیان کی جس میں آپ ﷺنے چند گائیں دیکھیں، جو کہ ذبح کی جارہی تھیں۔ اسی طرح دیکھا کہ آپؐکی تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ آپؐ نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ اور مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے۔ نیز یہ بھی دیکھا کہ آپ ﷺ ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہیں۔ صحابہؓ کے استفسار پر حضورِ اکرم ﷺ نے ان مناظر کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ گائیوں کے ذبح ہونے کی تعبیر تو یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ اس جنگ میں شہید ہوں گے۔تلوار کا سرا ٹوٹنے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہوگا یا اس مہم میں شاید مجھے ہی کوئی تکلیف پہنچے۔ زرہ میں ہاتھ ڈالنے کی تعبیر یہ ہے کہ ہمارا مدینے میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے۔ مینڈھے پر سوار ہونے کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے۔ گو اس خواب نے مسلمانوں پر یہ واضح کردیا گیا تھا کہ ان کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم ﷺ کی اپنی تھی الہامی نہیں تھی آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کیلئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا۔
جب باہر نکل کر جنگ کرنے کا فیصلہ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ؓ کو تیاری کا حکم دیا اور آپؐ خود بھی جنگ کی تیاری کرنے لگے۔اس وقت حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت اسید بن حضیرؓ نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگوں نے باہر نکل کر لڑنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐکی مرضی کے خلاف مجبور کردیا ہے۔ اس لیے اب بھی اس فیصلے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دو۔ آپؐ جو بھی فیصلہ فرمائیں گے اس میں ہی ہماری بھلائی ہوگی۔ جب آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ نے جنگی لباس پہن رکھا تھا۔ لوگوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں اپنا مدّعا پیش کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ نبی کیلئے یہ جائز نہیں کہ ہتھیار لگانے کے بعد اس وقت تک انہیں اتارے جب تک اللہ اسکے اور اسکے دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ فرمادے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے ساتھ روانہ ہوتے ہوئے تین نیزے منگوائے اور ان پر تین جھنڈے باندھے۔ قبیلہ اوس کا جھنڈا اسید بن حضیر ؓکو دیا، قبیلہ خزرج کا جھنڈاحباب بن منذر ؓ کو دیا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت علیؓ کو دیا۔ مدینے میں باقی رہنے والے لوگوں کو نماز پڑھانے کیلئے ابن ام مکتوم کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ مسلمانوں کے لشکر میں دو گھوڑے اور ایک سَو زرہ پوش تھے۔
راستے میں یہود کا ایک گروہ مسلمانوں کی جانب سے جنگ میں شرکت کیلئے آیا تو حضور ﷺ نے کفار کے بالمقابل یہود کی مدد لینے سے انکار کرتے ہوئے انہیں جنگ میں شرکت سے روک دیا۔ اسی طرح حضور ﷺ نے پندرہ سال سے کم عمر لڑکوں کو جنگ میں شرکت سے روکتے ہوئے انہیں بھی واپس بھجوا دیا۔
لشکرِ اسلامی نے جب رات قیام کیا تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ ؓکی قیادت میں پچاس سپاہیوں کو مقرر فرمایا جنہوں نے رات بھر اسلامی لشکر کے ارد گرد پہرہ دیا۔
عبداللہ بن ابی بن سلول پہلے تو ساتھ آیا تھا لیکن رستے میں واپس چلا گیا تھا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ سحری کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین کے مقام سے آگے کوچ فرمایا اور مدینہ اور احد کے درمیان میں شوط نامی ایک مقام پر پہنچ کر نماز کا وقت ہو گیا اور اس جگہ آپ نے نماز فجر ادا فرمائی۔ شوط وادی کناہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ اسی جگہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنے ساتھی منافقوں سمیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ کر واپس ہو گیا۔ واپسی پر عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ آپ نے میری بات نہیں مانی اور لڑکوں کی بات مانی ہے۔ہم کس بنا پر اپنی جانیں دیں۔ عبد اللہ بن ابی کے ساتھ منافقین کے لوٹ جانے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود صحابہؓ کی تعداد سات سَو رہ گئی۔اس موقعے پر انصار نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مدینے کے یہود میں سے جو ہمارے حلیف اور حمایتی ہیں کیوں نہ ہم ان سے مدد لے لیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں ان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
حضورِ اکرم ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد صحابہؓ سے تفصیلی خطاب فرمایا جس میں مسلمانوں کیلئے مکمل لائحہ عمل تھا کہ کس طرح دین پر عمل کرنا ہے۔اس جنگ میں قریش کے ساتھ قبیلہ بنی تہامہ اور قبیلہ بنو کنانہ بھی شامل ہوگئے اور یوں کفار کے لشکر کی تعداد تین ہزار تک جا پہنچی۔ کفار کا تمام لشکر مسلح تھا۔
حضورانور نے فرمایااس جنگ کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ بیان ہو جائے گی۔
بعدہ حضورانور نے فرمایا: فلسطینیوںکیلئےمیں دعاؤںکیلئےکہتارہتاہوں دعائیں کرتےرہیں۔ گذشتہ دنوں جنگ بندی ختم ہونےکےبعدجیساکہ خیال تھا وہی ہو رہا ہےاوراسرائیلی حکومت پہلےسےبڑھ شدت سےغزہ کےہرعلاقےمیں اب بمباری اور حملے کر رہے ہیں پھر معصوم بچےاورشہری شہیدہورہے ہیں۔ اب تواس حرکت کےخلاف امریکہ کےایک کانگریس کے نمائندے نےبھی جوغالباًیہودی ہیں یہ کہا ہےکہ اب بہت ہوگیا ہے۔امریکہ کواسےروکنےمیں اپناکردار ادا کرنا چاہئے۔ امریکہ کےصدربھی دبے دبے الفاظ میں اب یہ بیان دے رہے ہیں کہ یہ گولہ باری بند ہونی چاہئے جو شمال جنوب میں یکساں ہو رہی ہے۔ پہلے کہتےتھے شمال کی طرف چلے جاؤ کچھ نہیں ہو گا اب وہاں بھی یہی حال ہے۔
بہرحال یہ صدرصاحب امریکہ کےیہ الفاظ جوہیں یہ کسی انسانی ہمدردی کی وجہ سےنہیں ہیں کسی غلط فہمی میں ہمیں نہیں رہناچاہئےبلکہ یہ ان کےاپنے مفاد کی وجہ سےہے یہ اپنے ووٹ لینے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان کو فلسطینیوں سے یا مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔
پھرمسلمان ممالک ہیں توان کی آوازمیں کچھ زورتو پیداہورہاہےلیکن جب تک ایک ہوکر جنگ بندی کی کوشش نہیں کریں گےکوئی فائدہ نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی وحدت پیدا فرمائے۔غیرمسلم دنیاکوپتہ ہےکہ مسلمانوں میں وحدت نہیں ہےبلکہ مسلمان مسلمان کومارنےپہ قتل کرنےپہ لگاہواہے۔ یمن میں کیاکچھ نہیں ہورہااسی طرح دوسرےممالک ہیں۔ہزاروں بچےاور معصوم مررہےہیں مسلمانوں کے ہاتھوں بلکہ لاکھوں ہیں بعض جگہ تواوریہی چیز غیروں کوجرأت دلارہی ہےکہ ان پرظلم بھی کروتوکوئی فرق نہیں پڑتایہ توخوداپنےآپ پہ ظلم کرتےہیں۔ جب مسلمانوں کومسلمان کی جان کی فکرنہیں تودشمن پھرکیوں فکرکرےگا۔اللہ تعالیٰ نےتوبڑا سخت انذار فرمایا ہے قرآن شریف میں کہ مسلمان کامسلمان کوقتل کرنےپر جو انذارفرمایاہےوہ یہی ہےکہ وہ جہنمی ہوں گے۔ اللہ کرےکہ مسلمان ایک ہوکردنیاسےظلم کوختم کرنےکا ذریعہ بنیں نہ کہ اس میں بڑھنےکا۔
یو.این.اونےاپنی آوازمیں کچھ بلندی پیدا کرنے کی کوشش کی ہےلیکن انکی آوازکوکون سنتا ہے۔ کہہ تویہ دیتےہیں کہ ہم یہ کردیں گےوہ کردیں گے لیکن کچھ نہیں کر سکتے۔ان کی بات ماننےوالا ہی کوئی نہیں جوبڑی طاقتیں ہیں وہ اپناحق استعمال کرلیتی ہیں۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں پررحم فرمائے۔ بہرحال پہلے بھی میں نےجماعتوں کے ذریعہ پیغام بھیجاہوا ہےکہ اس ظلم کوروکنےاورختم کرنے کیلئے ہمیں دعاکےساتھ اپنےحلقہ احباب اوراپنی جماعتوں کےسیاست دانوں کو آوازاٹھانےکیلئے مسلسل توجہ دلانی چاہئےاسی طرح اپنےحلقہ احباب میں بھی یہ بات پھیلائیں کہ اس ظلم کوختم کرنےکیلئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ معصوموں کوظلم سے بچالے۔
آخر میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو مرحومین مکرمہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا عبدالحکیم اکمل صاحب مرحوم مبلغ سلسلہ ہالینڈاور ماسٹرعبدالمجید صاحب واقفِ زندگی استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایااور مغفرت اور بلندیٔ درجات کیلئےدعا کی۔
…٭…٭…