اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-12-07

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ1؍دسمبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کریم کے احکام کی عملی تفسیر تھی ،جہاں عدل وانصاف اور امن کا قیام بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں 

جنگ احد کے حوالہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ ،صحابہ کرام کے جوش ایمان وجذبہ شہادت کا دلگدازو ایمان افروز تذکرہ

فلسطینیوں کیلئے دعائیں کرتے رہیں

جنگ بندی ختم ہونے کے بعد پھر ان پر بلا تفریق بمباری ہو گی اور پھر معصوم شہید ہوں گے، کتنا ظلم ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے

ان کے مستقبل کے بارے میں بڑی طاقتوں کے ارادے بڑے خطرناک ہیں، ان کیلئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے


تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے حوالے سے کچھ بیان کروں گاکہ آپ کی شخصیت کے پہلو اور آپ کا اسوہ ان حالات میں کس طرح ہمارے سامنے آتا ہے۔ جنگ بدر کے حوالے سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح آپ نے قیدیوں کو سہولتیں مہیا فرمائیں۔ قیدی خود کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی ہدایت کے مطابق صحابہ اپنی خوراک سے بہتر خوراک ہمیں دیا کرتے تھے۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ جب ان قیدیوں کی رہائی کا معاملہ آیا تو بڑی آسان شرائط پر ان کو رہا کر دیا۔ بعض کا فدیہ تو صرف اتنا تھا کہ جن کو لکھنا پڑھنا آتا ہے وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ بدر کے قیدیوں میں ایک شخص ابوعزی جمعی تھا۔ اس نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ اَے محمد ﷺمیری پانچ بیٹیاں ہیں جن کا میرے سوا کوئی سہارا نہیں، مجھے معاف فرما دیں۔ آپ ﷺنے نہ صرف معاف کیا بلکہ اسے بغیر فدیہ لئے آزاد بھی کر دیا۔ یہ آپ کا اُسوہ تھا۔آپ کے دل میں ان کیلئے کسی ذاتی دشمنی کے جذبات نہیں تھے ۔ پھر آپ ﷺنے جنگ کے اصول و قواعد مقرر فرمائے معاہدوں کا بھی پاس کیا اور ان چیزوں پر انتہائی درجہ تک عمل بھی کیا۔ آجکل کی دنیا کی طرح نہیں کہ اصول و ضوابط تو بیشمار بنائے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں بلکہ دوہرے معیار ہیں۔ آپ کی زندگی تو قرآن کریم کے احکام کی عملی تفسیر تھی جہاں عدل و انصاف اور امن کا قیام بنیادی اصول بیان کئے گئے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ آنحضرت ﷺکےغزوات میں آپ کا طریق اور اسوہ کیا تھا، اس بارے میں بیان کروں گا۔ آج احد کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی جنگی تیاریوں اور جوش و خروش کی اطلاع آپ کے چچا حضرت عباس نے بھیجی جو مکہ میں تھے۔ مکی مسلمان حضرت عباس کو اپنا سہارا خیال کرتے تھے جبکہ حضرت عباس چاہتے تھے کہ آنحضرت ﷺکے پاس مدینہ چلے جائیں لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں لکھا کہ آپکا مکہ میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ حضرت عباس کی ارسال کردہ خبریں بڑی تفصیلی ہوتی تھیں۔ ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ قریش کا لشکر آپ کی طرف روانہ ہو چکا ہے ان کے پہنچنے تک ان سے مقابلے کی حتی المقدور تیاری کر لیجئے۔ یہ کل تین ہزار کا لشکر ہے جس کے آگے دو سو گھڑ سوار ہیں ان میں سات سو زرہ پوش ہیں اور تین ہزار اونٹ ہیں اور وہ اپنا تمام تر اسلحہ ساتھ لا رہے ہیں۔
قریش کا لشکر5شوال3ہجری کو مکہ سے نکلا اس جنگ میں قریش کی قیادت ابوسفیان کے ہاتھ میں تھی۔ شاہسواروں کا نگران خالد بن ولید تھا اور علمبردار بنو عبدالدار تھے۔ نیز بھالے اٹھائے ہوئے زرہیں پہنے ڈھالیں تھامے اور تیر کمان ساتھ لئے اپنے سینوں کو جوش انتقام سے بھر کر تین ہزار جنگجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کیلئے مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان میں سے دو ہزار نو سو قریش اور ان کے موالی اور دیگر قبائل میں سے تھے جبکہ سو کنانہ قبائل میں سے تھے۔ سات سو زرہیں دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ ہمراہ لئے تھے ۔ راستے میں کھانے کیلئے ذبح کئے جانے والے اونٹ اس کے علاوہ تھے۔ بجانے کیلئے دف اور پینے کیلئے خاص مقدار میں شراب بھی ساتھ اٹھائی۔
قریش نے حضرت عباس کو اپنے ساتھ اس جنگ میں لے جانے کی کوشش کی مگر عباس نے عذر کر دیا اور قریش کی اُس لاپرواہی کا ذکر کیا جو جنگ بدر کے موقع پر ان کے ساتھ کی گئی تھی کہ وہ گرفتار ہوئے تھے کسی نے ان کی رہائی میں اُن کی مدد نہیں کی۔ فوج کے ساتھ جانے والی عورتوں کی تعداد پندرہ بیان کی گئی ہے جن میں ابوسفیان نے اپنی بیوی ہند بنت عتبہ کو شامل کیا اسی طرح عکرمہ بن ابو جہل نے اپنی بیوی ام حکیم بنت حارث کو ساتھ لیا اورحارث بن ہشام نے اپنی بیوی فاطمہ بنت ولید کو اور صفوان بن امیہ نے اپنی بیوی برزہ بنت مسعود کو ساتھ لیا ۔ حضرت مصعب بن عمیر کی ماں اپنے بیٹے ابی عزیز بن عمیر کے ساتھ شامل ہوئی۔
ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ جنگ کے دوران جب وحشی کے پاس آتی تو اس سے کہتی کہ ایسا کام کرنا جس سے ہمارے دلوں کو آرام پہنچے۔ وحشی ایک حبشی غلام تھا اس کاایک نیزہ تھا جو بہت خطاکرتا تھا اور جس کے لگ جاتا تھا اس کو زندہ نہیں چھوڑتا تھا۔ وحشی جبیر بن مطعم کا غلام تھا اس نے وحشی کو بلا کر کہا کہ تو بھی لشکر کے ساتھ جا اور اگر تو نے حمزہ کومار دیا تو میں تجھے آزاد کر دوں گا کیونکہ حمزہ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے۔
قریش کا یہ لشکر دس گیارہ دن کے سفر کے بعد مدینہ کے پاس پہنچا اورچکر کاٹ کر مدینہ کے شمال کی طرف احد کی پہاڑی کے پاس ٹھہر گیا۔ اس جگہ کے قریب ہی عریض کاسرسبز میدان تھا جہاں مدینہ کے مویشی چرا کرتے تھے اورکچھ کھیتی باڑی بھی ہوتی تھی۔ قریش نے سب سے پہلے اس چراگاہ پر حملہ کرکے اس میں من مانی کی اور غارت مچائی۔ جب آنحضرت ﷺ کواپنے مخبروں سے لشکر کے قریب آجانے کی اطلاع موصول ہوئی تو آپ نے اپنے ایک صحابی حباب بن منذر کو روانہ فرمایا کہ جاکر دشمن کی تعدادکا پتہ کریں اور یہ بھی فرما یا کہ اگر دشمن کی طاقت زیادہ ہوتو علیحدگی میں مجھے اطلاع دینی ہے تاکہ مسلمانوں میں بددلی نہ پھیلے۔ اب لشکر کی آمد کی خبر مدینہ میں پھیل چکی تھی اور عریض پر جو اِن کا حملہ تھا اسکی اطلاع بھی عام ہوچکی تھی۔ گوعامتہ الناس کولشکر کفار کے تفصیلی حالات کا علم نہیں دیاگیا مگر پھر بھی یہ رات مدینہ میں سخت خوف اورخطرہ کی حالت میں گزری۔ خاص خاص صحابہ نے ساری رات آنحضرت ﷺکے مکان کے اردگرد پہرہ دیا۔
جب جنگ احد کی تیاری کیلئے مشاورت ہوئی تو اسی دوران رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ رات میں نے ایک خواب دیکھی ہے کہ ایک گائے ذبح کی جارہی ہے اور اپنی تلوار یعنی ذوالفقار کی دھار مَیں میںنے دندانہ پڑا دیکھا ہے پھر میں نے دیکھا کہ میں ایک مضبوط زرہ میں ہاتھ ڈال رہا ہوں اور مَیںایک مینڈھے پر سوار ہوں۔ صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا جہاں تک گائے کا تعلق ہے تو اس سے یہ اشارہ ہے کہ میرے کچھ صحابہ شہید ہوں گے اور جہاں تک میری تلوار میں دراڑ کا تعلق ہے تو اس سے یہ اشارہ ہے کہ میرے گھر والوں یا خاندان میں سے کوئی شخص قتل ہو گا۔اور مضبوط زرہ کا مطلب مدینہ ہے یعنی ہمارا مدینے میں رہ کر مقابلہ کرنا ٹھیک ہے۔ا ور مینڈھے سے مراد ہے کہ میں دشمن کے حامیوں کو قتل کروں گا۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا اگر تمہاری رائے ہو تو مدینہ میں قیام کرو اور عورتوں اور بچوں کو ہم قلعوں میں پہنچا دیں۔
رسول ﷺنے جو رائے دی یہی اکابر مہاجرین اور انصار کی رائے تھی اور عبداللہ بن ابی بن سلول نے بھی یہی رائے دی۔ البتہ مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا جن میں اکثریت نوجوان صحابہ کی تھی اور یہ لوگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے اور شہادت کے خواہش مند تھے اور دشمن سے لڑنے کے خواہاں تھے کہ یا رسول اللہ آپ ہمیں لے کر مدینہ سے باہر دشمن کے پاس چلیں۔کہیں دشمن یہ نہ سمجھےکہ ہم بزدل ہو گئے ہیں۔
ایاس بن اوس بن عتیق نے کہا بنو عبدالاشہل یہ امید کرتے ہیں کہ ذبح کی ہوئی گائے ہم لوگ ہوں دوسروں نے کہا یہ دو اچھائیوں میں سے ایک ہے کامیابی یا شہادت۔ حضرت حمزہ نے کہا اس کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی میں آج کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مدینہ سے باہر نکل کر میں اپنی تلوار سے ان کے ساتھ نہ لڑوں چنانچہ وہ جمعہ اور ہفتہ کے دن روزے سے رہے اور جب شہید ہوئے تو وہ روزہ سے تھے۔ نعمان بن مالک نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمیں جنت سے محروم نہ کریں۔ اُس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں جنت میں ضرور داخل ہوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکر؟ انہوں نے کہا کیونکہ میں اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور میں جنگ کے دن نہیں بھاگوں گا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے سچ کہا ہے۔ وہ اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ مالک بن سنان خدری اور ایاس بن عتیق اور ایک جماعت نے لڑائی کیلئے نکلنے پر خوب ترغیب دلائی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نےسیرت خاتم النّبیین میں لکھا ہے کہ اکثر صحابہ جو خاص طور پر نوجوان تھے جو بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اپنی شہادت سے خدمت دین کا موقع حاصل کرنے کیلئے بے تاب تھے آنحضرتﷺ سے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ شہر سے باہر نکل کرکھلے میدان میں مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان لوگوں نے اس قدر اصرار کیا اور اپنی رائے پیش کی کہ آنحضرت ﷺنے ان کے جوش کو دیکھ کران کی بات مان لی اورفیصلہ فرمایا کہ ہم کھلے میدان میں نکل کر کفار کامقابلہ کریں گے اور پھر جمعہ کی نماز کے بعد آپ نے مسلمانوں میں عام تحریک فرمائی کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے اس غزوہ میں شامل ہو کر ثواب حاصل کریں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: باقی اسکی تفصیل انشاء اللہ آئندہ بیان ہو گی۔ فلسطینیوں کیلئے دعائیں کرتے رہیں جنگ بندی ختم ہونے کے بعد پھر ان پر بلا تفریق بمباری ہو گی اور پھر معصوم شہید ہوں گے۔ کتنا ظلم ہو گا اللہ بہتر جانتا ہے۔ ان کے مستقبل کے بارے میں بڑی طاقتوں کے ارادے بڑے خطرناک ہیں۔ ان کیلئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔

…٭…٭…٭…