اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-11-30

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ24؍نومبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

ہمارے مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام میں کسی مہدی اور مصلح کی ضرورت ہے جو اسلام کی کشتی کو سنبھالے

لیکن جو آنے والا ہے ، جو پیشگوئیوں کے مطابق آیا جو وقت کی ضرورت کے مطابق آیا اس کو ماننے کو تیار نہیں

فلسطینیوں کیلئے بھی دعائیں کرتے رہیں اللہ تعالیٰ انہیں اُس ظلم سے نجات دےجوان پرہورہاہے


تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تحریرات اور اپنے ارشادات میں بیشمار جگہ اپنے آنے کی غرض بیان فرمائی ہے اور یہ ثابت فرمایا ہے کہ آپ کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنا عین وقت کی ضرورت تھا اور اللہ تعالیٰ کی سنت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ
اے حق کے طالبو سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ وقت وہی وقت نہیں ہے جس میں اسلام کیلئے آسمانی مدد کی ضرورت تھی کیا ابھی تک تم پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ گذشتہ صدی میں جو تیرھویں صدی تھی کیا کیا صدمات اسلام پر پہنچ گئے اور ضلالت کے پھیلنے سے کیا کیا ناقابل برداشت زخم ہمیں اٹھانے پڑے۔ کیا ابھی تک تم نے معلوم نہیں کیا کہ کن کن آفات نے اسلام کو گھیرا ہوا ہے۔ کیا اس وقت تم کو یہ خبر نہیں ملی کہ کس قدر لوگ اسلام سے نکل گئے کس قدر عیسائیوں میں جا ملے کس قدر دہریہ اور طبعیہ ہو گئے اور کس قدر شرک اور بدعت نے توحید اور سنت کی جگہ لے لی اور کس قدر اسلام کے ردّ کیلئے کتابیں لکھی گئیں اور دنیا میں شائع کی گئیں سو تم اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا اگر ضرور تھا تو تم دانستہ الہی نعمت کو رد مت کرو اور اس شخص سے منحرف مت ہوجاؤ جس کا آنا اس صدی پر اس صدی کے مناسب حال ضروری تھا اور جس کی ابتدا سے نبی کریم نے خبر دی تھی۔
حضور انور نے فرمایا: ہمارے مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن یہ ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام میں کسی مہدی اور مصلح کی ضرورت ہے جو اسلام کی کشتی کو سنبھالے لیکن جو آنے والا ہے ، جو پیشگوئیوں کے مطابق آیا جو وقت کی ضرورت کے مطابق آیا اس کو ماننے کو تیار نہیں۔
حضور انور نے فرمایا:حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف دعویٰ ہی نہیں کیا بلکہ اپنی سچائی کی تائید میں بیشمار نشانات بھی دکھائے۔ایک نشان کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں :ایک عظیم الشان نشان یہ ہے کہ آج سے تیئس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام موجود ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلہ کو مٹا دیں اور ہر ایک مکر کام میں لائیں گے مگر میں اس سلسلہ کو بڑھاؤں گا اور کامل کرو ں گا اور وہ ایک فوج ہو جائے گی۔ اور قیامت تک ان کا غلبہ رہے گا اور میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک شہرت دوں گا اور جوق در جوق لوگ دور سے آئیں گے اور ہر ایک طرف سے مالی مدد آئے گی۔ مکانوں کو وسیع کرو کہ یہ تیاری آسمان پر ہو رہی ہے۔ اب دیکھو کس زمانہ کی یہ پیشگوئی ہے جو آج پوری ہوئی۔ یہ خدا کے نشان ہیں جو آنکھوں والے ان کو دیکھ رہے ہیں مگر جو اندھے ہیں ان کے نزدیک ابھی تک کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔
حضور انور نے فرمایا:آج بھی جماعت احمدیہ کی ترقی اور ہر سال لوگوں کا لاکھوں کی تعداد میں جماعت میں شامل ہونا قربانیوں میں بڑھنا آپ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں آپ کا پیغام نہ پہنچا ہو جہاں آپ کے پیغام کی وجہ سے سعید روحوں کو اسلام کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی ہو اور انہوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو بلکہ بعض جگہ ایسے واقعات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود لوگوں کی رہنمائی فرمائی ہے اور وہ جماعت میں شامل ہوئے۔ مخالفین کی مخالفت کے باوجود افراد جماعت کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط فرمایا اور فرماتا چلا جا رہا ہے ۔ پس آج بھی جو ہم اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے دیکھ رہے ہیں یہ ایک احمدی کیلئے مضبوطی ایمان کا ذریعہ ہیں۔حضور انور نے فرمایا: بعض لوگوں کے واقعات میں اس وقت پیش کرنا چاہتا ہوں۔
بابائیو اسلام بیک صاحب روسی ہیں قرغزستان کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرا تعلق قرغزستان میں کاشغر قشلاق سے ہے اور کہتے ہیں میرے خط لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کرتے ہوئے حقیقی اسلام یعنی جماعت میں شامل ہو رہا ہوں۔ احمدیت میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اسلام کی خوبیوں کو بہت عمدہ طریق پر بیان کیا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ صرف امام مہدی ہی اس طرح اسلام کی خوبیوں کو بیان کر سکتے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے متقی بنا دے اور دس شرائط بیعت پر عمل کرنے والا بنا دے۔
حضور انور نے فرمایا:پھر ایک اور مثال ہے ایمان کی مضبوطی کی ،للہ تعالیٰ کی تائید کی۔ ارجنٹائن کی ایک خاتون ہیں مریلا صاحبہ انہوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن وہ مسلمانوں کے عملی رویے کی وجہ سے اسلام سے دور جا رہی تھیں۔ موصوفہ کا جماعت احمدیہ سے تعارف ہوا اوربیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئیں۔ کہنے لگیں کہ مجھے بیعت کر کے اطمینان ہوا ہے کیونکہ میں نے جماعت کی تعلیمات اور عمل میں مطابقت پائی ہے اور حقیقی اخوت کی فضا محسوس کی ہے۔ اس میں ہر ایک کو خواہ نیا آنے والا ہو خدمت کا موقع دیا جاتا ہے اور کسی قسم کی تفریق نہیں ہے فرق نہیں ہے۔ موصوفہ کی بیٹی جو کہ غیر مسلم ہے سنی اسلامی سنٹر میں پڑھ رہی تھی۔جو اُن کا ہائی اسکول تھا جس پر عربوں نے پیسہ خرچ کیا ہے جب اسکول کی ایڈ منسٹریشن کو اس کی والدہ کے جماعت میں شامل ہونے کا پتہ چلا تو اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا اور جماعت کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ جب اسکول والوں کو علم ہوا کہ ان کی بیٹی نے اپنے اسکول کے پراجیکٹ کے تحت اپنی ذاتی خواہش سے جماعت کے مشن ہاؤس کیلئے خاص ڈیکوریشن کے piecesبھی تیار کئے ہیں تو اس پر اسکول کی انتظامیہ سخت ناراض ہوئی اور اس بچی کو کہا کہ جماعت احمدیہ کی حمایت میں تمہارے لئے اسکول میں مشکلات ہوں گی۔ تم اور تمہاری والدہ جماعت سے علیحدہ ہو جاؤ۔ جب اس کی والدہ کو علم ہوا تو اس نے فوراً بغیر کسی تردد کے خود ہی اپنی بیٹی کو اس اسلامی اسکول سے تبادلہ کروا لیا اور کہنے لگیں کہ اب مجھے بھی اور میری بیٹی کو بھی تسکین ہے کہ ہمیں کوئی بھی ہمارے مذہب کی بناء پر تنگ نہیں کرے گا۔ میں نے جماعت کو حق خیال کرتے ہوئے قبول کیا ہے تو پھر میں غیروں کے سامنے بھی خوشی اور فخر سے اس کا اظہار کروں گی خواہ انہیں برا ہی لگے۔حضور انور نے فرمایا: یہ ایمان ہے جو ان لوگوں میںپیدا ہو رہا ہے۔
حضور انور نے فرمایا: بخاراکے ایک مخلص احمدی ہیں سنت سلطانوو صاحب۔ بخارا ازبکستان سے انکا تعلق ہے اور رشیا میں ملازمت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں اکیلا ہی احمدی ہوں اور اپنی اہلیہ اور بچے کو اسلام احمدیت کی تعلیمات سے متعارف کراتا رہتا ہوں۔ شوق ہے کہ میرے بیوی بچے بھی احمدی ہو جائیں۔ بہت دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسلام احمدیت کے نور سے منور کرے۔ کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری خواب میں آئے اور میرے دل پر سر رکھ کر مسلسل سورۃ اخلاص کی تلاوت فرما رہے ہیں جس سے مجھے بہت ہی دلی سکون ملا۔ اسی طرح میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ موجود ہوں اور وہاں میں نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کو بھی دیکھا مجھے اس خواب سے یہ اطمینان ملا کہ جنت سے مراد اسلام احمدیت ہے جس کی تعلیم جنت نما ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری اہلیہ اور بیٹے کو بھی اس جنت میں لے کر آئے گا۔ ابھی اس خواب کو چند دن ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے انیس سالہ بیٹے کا دل اسلام احمدیت کیلئے کھول دیا اور اس نے بیعت کر لی ہے۔ میرے لئے بہت خوشی کا دن تھا۔ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح میری اہلیہ کے دل کو بھی کھولے اور اسلام احمدیت کی آغوش میں لے آئے۔ حضور انور نے فرمایا: یہ جوش اور جذبہ ہے ان لوگوں کا۔
حضور انور نے بورکینا فاسو کے شہداکا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:برکینا فاسو کے شہیدوں نے اپنی جان دے کر وہاں کے احمدیوں کا ایمان کمزور نہیں کیا بلکہ ہر روز ان کے ایمان میں مضبوطی آ رہی ہے۔ ان غریب لوگوں نے اپنا تھوڑا بہت سامان جو بھی تھا گھر میں، گھر بار اور جو روزی کا سامان تھا جس پر ان کا انحصار تھا سب کچھ چھوڑ دیا لیکن اپنا ایمان نہیں چھوڑا۔ ان لوگوں کو احمدیت قبول کئے ابھی چند سال گزرے ہیں لیکن ایمان میں ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی اور ہستی نہیں جو اس طرح ان کے ایمانوں کو مضبوط کر رہی ہے۔
ایک طرف تو احمدیت کی مخالفت کے باوجود ایمان کی مضبوطی کے ہم نظارے دیکھتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی کثرت سے نظر آتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے کیلئے کھول رہا ہے۔
حضور انور نے دُنیا بھر سے قبول احمدیت کے بہت سارے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔ حضور انور نے مارشل آئی لینڈزکے ایک عیسائی لیکچرار کی قبول احمدیت کا ایمان افروز واقعہ بیان کرنے کے بعدفرمایا:کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف پھیر رہا ہے۔ کہاں تو عیسائیت دنیا میں اپنے جھنڈے گاڑنے کی باتیں کرتی تھی اور کہاں اب عیسائی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے آرہے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر بھی ان نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کی آنکھیں نہیں کھلتیں تو پھر ان کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ اسلام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کیلئے جماعت احمدیہ کے ذریعہ کام کروا رہا ہے اس نے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھیلنا اور پھلنا اور پھولنا ہے کوئی نہیں جو اس خدائی کام کو روک سکے لیکن ہر احمدی کو اس بات کو بھی سمجھنا چاہئے کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کو مان لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی جو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کا حقیقی نمونہ ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے کی عملی تصویر ہوں۔ اور جب یہ ہو گا تو تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بھی بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔
حضور انور نے فرمایا:فلسطینیوں کیلئے بھی دعائیں کرتے رہیں اللہ تعالیٰ انہیں اس ظلم سے نجات دے جو ان پر ہو رہا ہے۔
خطبہ کے آخر پر حضور انورنے عبدالاسلام عارف صاحب مربی سلسلہ،مکرم محمد قاسم خان صاحب کینیڈا سابق نائب ناظر بیت الماخرچ ربوہ،مشہور شاعر مکرم عبد الکریم قدسی صاحب، مکرم میاں رفیق احمد گوندل صاحب اور مکرمہ نسیمہ لئیق صاحبہ آف امریکہ اہلیہ مکرم سید لئیق احمد صاحب شہیدماڈل ٹاؤن لاہورکا ذکر خیر فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد تمام مرحومین کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔

…٭…٭…٭…