جنگ بدرکے فوری بعد کے واقعات میں سے
فرات بن حیان کا قبول اسلام، کعب بن اشرف کا قتل، حضرت حفصہ سے آنحضرت ﷺکی شادی، حضرت حسن کی پیدائش اور آپ کے مقام ومرتبہ کا تذکرہ
فلسطینیوں کیلئےدعائیں جاری رکھیں، اب تو ظلم کی انتہا ہوتی جا رہی ہے
حماس سے جنگ کے نام پر معصوم بچوں عورتوں بوڑھوں بیماروں کو مارا جا رہاہے، ہر قسم کے جنگی اصول و ضوابط کو اس نام نہاد مہذب دنیا نے پس پشت ڈال دیا ہے
تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:گذشتہ خطبے کے آخر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ضمن میں جو تاریخ بیان ہورہی تھی اس میں فرات بن حیان کے قبول اسلام کا ذکر ہوا تھااس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ وہ گرفتار ہوکر قیدیوں میں تھا۔ غزوہ بدرکے روز بھی وہ زخمی ہوا تھا لیکن کسی طرح قید سے بھاگ نکلا تھا۔حضرت ابوبکرؓ اُسے دیکھتے ہی کہنے لگے کہ اب بھی تم اپنے طرز عمل کو نہیں بدلو گے۔ فرات بولا اگر اس دفعہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بچ کر نکل گیا تو پھر میں قابو نہ آؤں گا۔ حضرت ابوبکر کہنے لگےاگر تم نے بچ کر نکلنا ہی ہے تو ایک ہی طریقہ ہے پھر اسلام قبول کر لو۔فرات بن حیان حضرت ابوبکرؓ کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا اور ایک انصاری دوست کے پاس سے گزرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں مسلمان ہوں۔اُس انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ آپؐنے اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا ہے تو پھر یہ اس کا اور اللہ کا معاملہ ہےاور اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رہا کردیا۔
ایک دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ قریش کے ایک تجارتی قافلہ کی روک تھام کیلئے آنحضرت ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ ؓکی سرداری میں اپنے صحابہ کا ایک دستہ 3 ہجری میں قَرَدَہ کے مقام پر بھجوایا۔ سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓنے یوں لکھا ہے کہ بنو سلیم اور بنو غطفان کےحملوں سے کچھ فرصت ملی تو مسلمانوں کو ایک اور خطرہ کے سدباب کیلئے وطن سے نکلنا پڑا۔اب تک قریش اپنی تجارت کیلئےحجاز کے ساحلی راستے سے شام کی طرف جاتے تھے لیکن انہوں نے یہ راستہ ترک کردیا کیونکہ اس علاقہ کے قبائل مسلمانوں کے حلیف بن چکے تھے۔اس لیے انہوں نے نجدی راستہ اختیار کرلیا جو عراق کو جاتا تھا اور جس کے آس پاس مسلمانوں کے جانی دشمن قبائل سلیم و غطفان آباد تھے۔ چنانچہ جمادی الآخر کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع موصول ہوئی کہ قریش کا ایک قافلہ نجدی راستے سے گزرنے والا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خبر کے ملتے ہی زید بن حارثہؓ کی سرداری میں اپنے اصحاب کا ایک دستہ روانہ فرمادیا۔ زیدؓ نے نہایت ہوشیاری سے اپنے فرض کو ادا کیااور نجد کے مقام قَرَدَہ میں ان کو جادبایا۔ اس اچانک حملے سے گھبرا کر قریش کے لوگ مال و متاع چھوڑ کر بھاگ گئے۔ زیدبن حارثہؓ اور ان کے ساتھی کثیر مالِ غنیمت کے ساتھ بانیل و مرام واپس مدینے آگئے۔
حضور انور نے فرمایا:ایک واقعہ کعب بن اشرف کے قتل کا ہے جو مدینے کے سرداروں میں سے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے میں شامل تھا۔بعد میں اس نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ بخاری میں درج ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نمٹے گا؟ اُس نے اللہ اور اُس کے رسولؐ کو سخت دکھ دیا ہے۔محمد بن مسلمہؓ کھڑے ہوئے اور کہاکہ میں اُسے مارڈالوں گا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایاہاںمحمد بن مسلمہ کعب کے پاس آئے اور کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اور ہمیں مشقت میں ڈال دیا ہے۔ میں تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم سے اُدھار لوں۔کعب نے کہا واللہ وہ دن دُور نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہوکر اُسے چھوڑ دوگے۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہاکہ ہم نے اُس کی پیروی اختیار کرلی ہے اس لیے ہم اُسے نہیں چھوڑ سکتے۔کعب نے کہا کہ اُدھار کے بدلے اپنی عورتیں یا بیٹے میرے پاس رہن رکھ دو۔ محمد بن مسلمہؓ نے کہا کہ یہ ناممکن ہے البتہ ہم اپنے ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں۔اس پر کعب راضی ہوگیااور محمد بن مسلمہؓ اور اُن کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ کرکےواپس چلے آئے۔جب رات ہوئی تو یہ واپس کعب کے مکان پر پہنچے اور اُسے اُس کے گھر سےنکال کر ایک طرف کو لے آئےاورقابو کرکے اُسے قتل کردیا۔
جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اوریہودی لوگ سخت جوش میں آگئے دوسرے دن صبح کے وقت یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کردیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں سن کر فرمایا کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا تھا اور پھر آپ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی اورتحریک جنگ اورفتنہ انگیزی اورفحش گوئی اور سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں۔ جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے۔ اسکے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کے لئے ہی امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اورفتنہ وفساد کابیج نہ بوئو۔ چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہنے اورفتنہ وفساد کے طریقوں سے بچنے کا ازسرنو وعدہ کیا۔ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔
بعض مؤرخین اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک ناجائز قتل کروایالیکن واضح ہو کہ یہ ناجائز قتل نہیں تھاکیونکہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقاعدہ امن کا معاہد ہ کرچکا تھااور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تو درکنار رہا اُس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ بیرونی دشمن کےخلاف مسلمانوں کی امداد کرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا لیکن اُس نے مسلمانوں سے غداری کی اور مدینہ میں فتنہ و فساد کا بیج بوکر جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے کیے۔اس کے جرموں کا مجموعہ ایسا تھا کہ اس کے خلاف یہ تعزیری قدم اُٹھایا گیا۔چنانچہ آج کل کے مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت، عہد شکنی،اشتعال، جنگ اور سازش کے مجرموں کو سزا دی جاتی ہے تو پھر اعتراض کس چیز کا؟پھر آج کل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اس سے بھی بڑھ کر ہورہا ہے جو کئی لحاظ سے جائز بھی نہیں۔
دوسرا سوال خاموشی سے اسکے قتل کے طریق کا ہے۔ عرب میں اُس وقت ہر شخص اور قبیلہ آزاد اور خود مختار تھا۔ ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کر کے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا؟
معاہدہ کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور اُمورِ سیاسی میںجو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں۔
پس اگر آپؐنے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اُسے واجب القتل قرار دیا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی۔خصوصاً جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خو دیہود نے کعب کی اس سزا کو اُس کے جرموں کی روشنی میں واجبی سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور اس پر اعتراض نہیں کیا۔
اس عرصہ میں حضرت حفصہؓ کی دوسری شادی بھی ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمربن خطابؓ کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہؓ تھا۔ وہ ایک مخلص صحابی خنیس بن حذافہ ؓکے عقد میں تھیں جو جنگ بدر سے واپس آکر بیمار ہوگئےاورجانبر نہ ہوسکے۔اُن کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت عثمان بن عفان ؓاور بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ سےحفصہ سے شادی کی درخواست کی لیکن دونوں نے خاموشی اختیار کی اور کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر ؓکو بہت ملال ہوا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔ آپؐنے فرمایا کہ کچھ فکر نہ کرو۔ خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کوعثمان وابوبکر کی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمان کو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی۔ یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ حفصہ کے ساتھ شادی کر لینے اور اپنی لڑکی ام کلثوم کوحضرت عثمان کے ساتھ بیاہ کر دینے کاارادہ کرچکے تھے جس سے حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان دونوں کواطلاع تھی اور اسی لئے انہوں نے حضرت عمر کی تجویز کوٹال دیا تھا۔
شعبان3 ہجری میں حضرت حفصہ ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر حرم نبوی ؐمیں داخل ہوگئیں۔اُن کی وفات کم و بیش تریسٹھ سال کی عمر میں 45 ہجری میں ہوئی۔
حضور انور نے فرمایا:2 ہجری کے واقعات میں حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہ ؓکے نکاح کا ذکر گزر چکا ہے۔ اُن کے ہاں رمضان 3ہجری میں یعنی نکاح کے دس ماہ بعد ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنؓ رکھااور جن کے متعلق ایک دفعہ آپؐنے فرمایا کہ میرا یہ بچہ سیّد یعنی سردار ہے اور ایک وقت آئے گا کہ خدا اسکے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔چنانچہ اپنے وقت پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور انور نے فلسطینیوں کیلئے دعا کی تحریک کی ۔فرمایا: دعائیں جاری رکھیں۔ اب تو ظلم کی انتہا ہوتی جا رہی ہے۔ حماس سے جنگ کے نام پر معصوم بچوں عورتوں بوڑھوں بیماروں کو مارا جا رہاہے۔ ہر قسم کے جنگی اصول و ضوابط کو اس نام نہاد مہذب دنیا نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کو بھی سمجھ دے۔ مسلمان حکومتیں بھی آواز اٹھاتی ہیں آجکل تو بڑی کمزور آواز ہے۔ بعض آوازیں اٹھی ہیں۔ اس سے زیادہ زور دار آواز تو بعض غیر مسلم لوگوں اور سیاستدانوں اور حکومتوں نے اٹھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بھی جرأت اور حکمت پیدا فرمائے۔
یو این کے سیکرٹری جنرل بھی اچھا بولتے ہیں آجکل تو زیادہ اچھا بول رہے ہیں لیکن ان کی آواز کی لگتا ہے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کے بعد یا اگر یہ مزید پھیل گئی اور عالمی جنگ کی صورت اختیار کر لی تو یواین کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے۔ لگتا ہے کہ اب دنیا اپنی تباہی کو قریب تر لے کے آ رہی ہے اور اس تباہی کے بعد جو لوگ بچیں گے انہیں اللہ تعالیٰ عقل دے اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا کریں اور اس کی طرف لوٹ کر آئیں۔ بہرحال ہمیں اس حوالے سے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر رحم فرمائے۔ ٭