اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-26

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ20؍اکتوبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا پانی حضرت فاطمہ ؓاور حضرت علی ؓپر چھڑکتے ہوئے یہ دعا کی

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا نَسْلَھُمَا
اَے میرے اللہ! تُو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے


یہ دعا شادی کرنیوالے جوڑوں کیلئے اُن کے ماں باپ کو بھی کرنی چاہئے
اگر دین کو مقدم رکھا جائے اور دعا کی جائےاور والدین بھی اپنا کردار ادا کریں تو رشتے قائم رہتے ہیں


اللہ تعالیٰ حماس اور اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ کرے اور معصوم و مظلوم فلسطینیوں کی حفاظت فرمائے، مزید ان پر ظلم نہ ہوں اور جہاں بھی ظلم ہیں،ظلم کو دُنیا سے ختم کرے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ20؍اکتوبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : آج بھی بدر کے فوری بعد ہونے والے بعض واقعات کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے کروں گا۔
تاریخ میں آنحضرت ﷺ کے داماد ابو العاص کے قبول اسلام کا واقعہ درج ہے ۔آنحضرتﷺ نے جمادی الاولیٰ چھ ہجری میں زید بن حارثہ کی کمان میں ستّر صحابہ کے ساتھ ایک سریہ عیص مقام کی طرف روانہ فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر ملی تھی کہ شام کی طرف سے قریش مکہ کا ایک قافلہ آرہا ہےاور اس قافلے کے تجارتی سامان کا مقصد مسلمانوں پر حملہ اور جنگ کا تھا۔بہرحال انہوں نے اسکو روک لیا، سازو سامان قبضہ میں لے لیا اور بعض قیدی بھی پکڑے جن میں ابو العاصؓ بھی شامل تھے۔
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ سریہ عیص کے قیدیوں میں آنحضرت ﷺ کے داماد ابوالعاص بھی تھے جو حضرت خدیجہؓ مرحومہ کے قریبی رشتے داروں میں سےتھے اور ابھی شرک پر قائم تھے۔ ابوالعاص نےکسی طرح حضرت زینبؓ کو اپنے قید ہونے کی اطلاع بھجوادی۔ جب آنحضرتﷺ اورآپؐ کےصحابہ صبح کی نماز میں مصروف تھے تو حضرت زینبؓ نے بلند آواز سے پکارکر کہا کہ اَے مسلمانو! میں نے ابو العاص کو پناہ دی ہے۔آنحضرت ﷺ نے نماز سے فارغ ہوکر صحابہ کو فرمایا کہ جو زینبؓ نے کہا آپ لوگوں نے سن لیا ہوگا۔ واللہ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ مومنوں کی جماعت میں سے کوئی کسی کافر کو پناہ دے تو اُسکا احترام لازم ہے۔ پھرآپؐ نے زینبؓ کو فرمایا کہ جسے تم نے پناہ دی ہے اُسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں اور ابوالعاص کا مال اُسے واپس لَوٹادیااور زینبؓ کو ابوالعاص کی خاطر تواضع کرنے کا فرمایا اور اُس سے خلوت میں ملنے سے منع فرمایا۔ چند دن بعد ابوالعاص نے مکہ واپس جا کر اپنے کاروبار کے لین دین سے فراغت حاصل کی اورواپس آنحضرت ﷺکی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔آنحضرت ﷺنے حضرت زینبؓ کو بغیر کسی جدید نکاح کے اُن کی طرف لَوٹادیا۔
حضور انور نے فرمایا:اس سے یہ فتویٰ بھی مل گیا کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کے کفر کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہے تو خاوند کے ایمان لانے پر دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔
حضرت زینبؓ اپنے خاوند کے قبول اسلام کے بعد زیادہ دیرتک زندہ نہیں رہیں اور آٹھ ہجری میں اُن کا انتقال ہوگیا۔حضرت ام ایمن ؓ، حضرت سودہؓ، حضرت ام سلمہ ؓاور حضرت ام عطیہ ؓنے آنحضرت ﷺ کی ہدایات کے مطابق اُنہیں غسل دیاجبکہ آنحضرتﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خود قبر میں اُتر کراُنہیں سپر دخاک کیا۔حضرت ابوالعاصؓ بھی اسکے بعد زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور بارہ ہجری میں وفات پائی۔
غزوہ سویق دو ہجری ذوالحجہ میں ہوا جسکا سبب یہ ہے کہ جب مشرکین میدان بدر سےشکست خوردہ اور غمناک مکہ کی طرف واپس آئے توابو سفیان نے خود پر تیل لگانا حرام کردیا اور نذر مانی کہ وہ غسل نہیں کرے گا یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺاور آپؐکے صحابہ سے بدرکا انتقام لے لے۔
ایک روایت کے مطابق ابو سفیان دو سو سواروں کے ساتھ جبکہ دوسری روایت کے مطابق چالیس سواروں کو لے کر اپنی قسم کو پوراکرنے کیلئے نکلااورمدینے کے قریب پہنچ کرامداد حاصل کرنے قبیلہ بنونضیر کےرئیس حیی بن اخطب کے پاس گیا جس نے انکار کردیاپھر وہ سلام بن مشکم کے پاس گیا جس نے مسلمانوں کی راز کی باتیں بتائیں اور رسول اللہ ﷺ کے روزانہ کا معمول بتایا۔ابو سفیان نےقریش کے چند لوگوں کو مدینے سے تین میل کے فاصلے پر ایک نخلستان وادی عریض میں بھیجا جہاں انہوں نے کھجوروں کےجُھنڈ جلا دیے اورایک مسلمان انصاری کو قتل کردیا۔ ابوسفیان نے اس کامیابی کو اپنی قسم کا پورا ہونا سمجھا اور اپنا لشکر لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔جب رسول اللہﷺ کو اس کا علم ہوا تو دو سو صحابہؓ کے ساتھ اُسکے تعاقب میں نکلے اورقرقرۃ الکدر پہنچ گئے۔ابو سفیان اوراُسکا لشکر بھاگتے ہوئے ستو کے تھیلے پھینکتے جارہے تھےاور مسلمان وہ اُٹھاتے جارہے تھے اس لیے اس غزوہ کا نام غزوہ سویق یعنی ستوؤں والا غزوہ پڑگیا۔ ابو سفیان اور اُسکا لشکر بھاگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ مدینے واپس آگئےاور صحابہؓ کے پوچھنے پر فرمایا کہ یہ غزوہ ہی ہے۔
سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے پہلی عید الاضحی کے بارے میں لکھا ہے کہ اسی سال ماہ ذی الحجہ 2ہجری میں دوسری اسلامی عید یعنی عید الاضحی مشروع ہوئی جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو تمام اسلامی دنیا میں منائی جاتی ہے۔اس عید میں ہر ذی استطاعت مسلمان کیلئے واجب ہے کہ کوئی جانور قربان کرکے اسکا گوشت اپنے عزیزو اقارب، دوستوں، ہمسایوں اور دوسرے لوگوں میں تقسیم کرےاور خود بھی کھائے۔چنانچہ عید الاضحی کے دن اور اسکے بعد دو دن تک اسلامی دنیا میں لاکھوں کروڑوں جانورفی سبیل اللہ قربان کیے جاتے ہیں اور حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ اور حضرت ہاجرہ ؑکی عظیم الشان قربانی کی یاد زندہ رکھی جاتی ہےاورجس کی بہترین مثال آنحضرتﷺ کی زندگی تھی۔ہر ایک مسلمان کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے آقا و مالک کی راہ میں اپنی جان اور مال اور اپنی ہر ایک چیز قربان کردینے کے واسطے تیار ہے۔یہ عید بھی عید الفطر کی طرح ایک عظیم الشان اسلامی عبادت حج کی تکمیل پر منائی جاتی ہے۔
حضرت فاطمہؓ کا نکاح بھی دو ہجری میں ہوا۔ حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں نے حضرت فاطمہؓ سے شادی کی درخواست کی لیکن رسول کریم ﷺخاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آپؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپؐحضرت فاطمہؓ کی شادی مجھ سے کریں گے؟ آپؐنے فرمایا کیا تمہارے پاس مہر کیلئے کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے پاس گھوڑا اور زرہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ گھوڑا ضروری ہے البتہ زرہ کو بیچ دو۔چنانچہ میں نے 480؍درہم میں اپنی زرہ کو بیچ کر مہر کی رقم کا انتظام کیا۔ آپؐنے اس رقم میں سے مٹھی بھر بلالؓ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے کچھ خوشبو خرید لاؤاور کچھ لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ حضرت فاطمہ ؓکا جہیز تیار کرو۔چنانچہ حضرت فاطمہؓ کیلئے ایک چارپائی، چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی تیار کیا گیا۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐنے حضرت علیؓ سے یہ رشتہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے ربّ نے مجھےایسا کرنے کاحکم فرمایا۔رخصتانہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے ایک برتن میں وضو کیا پھر وہ پانی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ پریہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکا کہ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا نَسْلَھُمَا یعنی اے میرے اللہ! تو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے۔
یہ دعا شادی کرنےوالے جوڑوں کیلئے اُن کے ماں باپ کو بھی کرنی چاہئے۔ آج کل دنیا کی ہوا وہوس کی وجہ سے شادی کے بعد لڑکے اور لڑکی کے درمیان مسائل پیدا ہوجاتے ہیں جن میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔ اگر دین کو مقدم رکھا جائے اور اس طرح دعا کی جائےاور والدین بھی اپنا کردار اس طرح ادا کریں تو رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔
شادی کے بعد ایک مخلص صحابی حضرت حارثہ بن نعمان انصاریؓ نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کرواکے حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓکی رہائش کیلئے پیش کردیا تھا۔ حضرت فاطمہ ؓنے نبی کریم ﷺسے چکی چلانے کی وجہ سے ہاتھ میں تکلیف کا اظہارکرکے کسی خادم کے انتظام کا کہا تو آپؐ نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓکو فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر کہو، تینتیس دفعہ سبحان اللہ کہو اور تینتیس دفعہ الحمد للہ کہو۔ یہ تم دونوں کیلئے خادم سے بہتر ہے۔آنحضرت ﷺ کیلئے خادم کا مہیا کرنا مشکل نہ تھا لیکن ممکن تھاکہ لوگ کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ ان اموال کو اپنے لیے جائز سمجھ لیتے۔پس احتیاط کے طور پر آپؐ نے اپنے پاس بغرض تقسیم آنے والے غلام اور لونڈیوں میں سے کچھ نہ دیا۔
خطبہ کے آخر میں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت میں دوبارہ دنیا کے حالات کے حوالہ سے دعا کیلئے بھی کہنا چاہتا ہوں۔
اب تو مغربی دنیا بلکہ امریکہ کے بھی بعض لکھنے والوں نے یہ اخباروں میں لکھا ہے کہ بدلے کی بھی کوئی انتہا ہونی چاہئے اور امریکہ اور مغربی ممالک کو حماس اور اسرائیل کی جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور صلح اور جنگ بندی کی کوشش کرنی چاہئے۔ لکھنے والے یہ بھی لکھتے ہیں کہ لگتا ہےکہ یہ لوگ جنگ بند کروانے کی بجائے بھڑکانے پر تلے ہوئے ہیں۔
اسی طرح امریکہ کی کل خبر تھی کہ وزارت خارجہ کے ایک بڑے افسر نے اس بات پر استعفیٰ دے دیا کہ اب انتہا ہوچکی ہے۔ فلسطینی معصوموں پر بہت زیادہ ظلم ہورہا ہے۔ اور بڑی طاقتوں کواس کا خیال کرنا چاہیے۔ توان لوگوں میں بھی شرفاء موجود ہیں۔ اسی طرح بعض دفعہ میڈیا پہ آتا ہے بعض یہودی Rabbi بھی اسرائیل کے ظلم کے خلاف بول رہے ہیں۔روس کے وزیر خارجہ نے بھی بیان دیا ہے کہ اگر اسی طرح یہ ممالک اپنا رویہ رکھے رہے تو یہ جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی۔حضور انور نے فرمایا پورے خطے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیل جائے گی۔ پس ان لوگوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
اسی طرح مسلمان ممالک کو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ایک ہوکر اور ایک آواز ہوکر بولنا چاہئے۔ اگر دنیا کے ترپن، چوّن ممالک جو مسلمان کہے جاتے ہیں، ایک آواز میں بولیں تو یہ بڑی طاقت ہوگی اور اسکا اثر بھی ہوگا ورنہ اکا دکا آوازیں کوئی اثر نہیں رکھتیںاور یہی ایک طریقہ ہے دنیا میں امن قائم کرنے کا اور اس جنگ کے خاتمے کا۔ پس مسلمان ممالک کو دنیا کو تباہی سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ ان کو اسکی توفیق بھی دے لیکن بہرحال ہمیں دعاؤں پر زور دینا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ اس جنگ کا بھی خاتمہ کرے اور معصوم مظلوم فلسطینیوں کی حفاظت فرمائے، مزید ان پر ظلم نہ ہوں اور ظلم کو دنیا سے ختم کرے جہاں بھی ظلم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی بھی توفیق دے۔ آمین

…٭…٭…٭…