اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-19

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ13؍اکتوبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے مسلمان عورتوں کی تعلیم وتربیت کا وہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی
احادیث نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور ضروری حصہ آپؓکی روایات پر مبنی ہے، آپؓسے مروی روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے
آپؓکے تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑے صحابہ ؓبھی اس سلسلے میں آپ سے رابطہ کرتےتھے
اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں اور بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا
اگر دنیا اسرائیلی عورتوں اور بچوں کو معصوم سمجھتی ہے تو فلسطینی عورتیں اور بچے بھی معصوم ہیں
تمام بڑی مغربی طاقتیں انصاف کو ایک طرف رکھ کر فلطین پر ظلم کیلئے اکٹھی ہو رہی ہیں،اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو توفیق دے کہ یہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امن قائم کرنے والی بنیں
ہمارے پاس تو دعا کا ہتھیار ہے اس لیے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اس حوالے سے دعا کرنی چاہئے، غزہ میں بعض احمدی گھرانے بھی گِھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے اور سب معصوموں کو محفوظ رکھے

 

تشہد،تعوذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض واقعات جو بدر کے موقعے پر یا بدر سے واپسی پر پیش آئے، ان کا تذکرہ ہورہا تھا۔اس موقعے پر آنحضرت ﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کا بھی ذکر ہے۔اس لیے یہاں اس کا بھی ذکر کردیتا ہوں۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہاکی تحریک پر آنحضرت ﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے شادی کی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ شادی کے بعد حضور اکرمﷺ نے انہیں فرمایا کہ قبل اس سے کہ مَیں تم سے نکاح کرتا تم مجھے دو مرتبہ رؤیا میں دکھائی گئیں۔
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہوئی تو آپؓکی چھوٹی عمر کے متعلق منافقین یا شریروں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اگر آپ کی عمر کے متعلق کوئی ایسی بات ہوتی تو یہ لوگ ضرور اعتراضات کی بارش کردیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کا نَو سال کی عمر میں شادی ہونا تو صرف بےسروپا اقوال ہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ باوجود صغر سنی کےحضرت عائشہ کا حافظہ اور ذہن غضب کا تھا اور آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور تربیت کے تحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ انتہائی تیزی سے ترقی کی اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میں لے آنے سے آپؐکی منشا یہی تھی کہ ان کی تربیت کرسکیں اور تا انہیں آپؐکی صحبت میں رہنے کا لمبے سے لمبا موقع مل سکے اور آپ اس نازک اور عظیم الشان کام کی اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عائد ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کا وہ کام سر انجام دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ احادیث نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور ضروری حصہ آپؓ کی روایات پر مبنی ہے۔ آپؓسے مروی روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔ آپؓکے تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑے صحابہ ؓبھی اس سلسلے میں آپ سے رابطہ کرتے۔ آپؐنے ایک موقعے پر فرمایا کہ عورتوں میں کاملات بہت کم گزری ہیں۔ پھر آپ نے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا ذکر کیا اور فرمایا کہ عائشہ کو عورتوں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ثرید کو عرب کے دیگر کھانوں پر حاصل ہے۔
حضرت عائشہؓ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد کم و بیش48 سال زندہ رہیں اور 58 ہجری کے ماہ رمضان میں اپنے محبوبِ حقیقی سے جاملیں۔ بوقت وفات آپ کی عمر68سال تھی۔
بدر کے قیدیوں میں آنحضرتﷺ کی بیٹی حضرت زینبؓکے خاوند ابوالعاص بن الربیع بھی شامل تھے۔ انہیں آزاد کروانے کیلئے حضرت زینبؓ نے مکّے سے اپنا وہ ہار بھجوایا جو انکی شادی کے موقعے پر انکی والدہ حضرت خدیجہ ؓ نے انہیں دیا تھا۔ آپ ﷺ نے وہ ہار دیکھا تو چشم پُرآب ہوگئے اور صحابہ سے فرمایا اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کے قیدی کو رہا کردو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کردو۔ صحابہ نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ! حضورِ اکرم ﷺ نے ابوالعاص کو اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ مکہ جاتے ہی اپنی اہلیہ زینب کو مدینے ہجرت کی اجازت دیں گے۔
ابوالعاص نے مکہ جاکر زینب کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ کچھ عرصے بعد ابوالعاص بھی ہجرت کرکے مدینے آگئے اور یوں خاوند اور بیوی دوبارہ اکٹھے ہوگئے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آج کل جو دنیا کے حالات ہیں ان کے بارے میں اس وقت مَیں دعا کیلئے بھی کہنا چاہتا ہوں۔گذشتہ چند دنوں سے حماس اور اسرائیل کی جنگ چل رہی ہے۔اس جنگ کی وجہ سے اب دونوں طرف کے معصوم شہری بشمول عورتوں اور بچوں کے مارے جارہے ہیں۔اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں اور بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ آنحضرت ﷺ نے اسکی بہت سختی سے تاکید فرمائی ہے۔ اس جنگ میں پہل حماس نے کی ہے، قطع نظر اس کے کہ اسرائیلی فوج پہلے کتنے ہی معصوم فلسطینیوں کو قتل کرچکی ہے، مسلمانوں کو بہرحال اسلامی تعلیم کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ اسرائیلی فوج نے جو کیا وہ ان کا فعل ہے۔ اس پر ردعمل دینے کے اور طریقے ہوسکتے ہیں۔
اگر کوئی جائز لڑائی ہے تو وہ فوج سے ہوسکتی ہے مگر عورتوں اور بچوں اور بےگناہوں سے نہیں۔
اس لحاظ سے حماس نے جو قدم اٹھایا وہ غلط تھا، اس کا نقصان زیادہ ہوا۔ جو حماس نے کیا اس کا بدلہ حماس تک محدود رہتا تو اچھا تھا۔ مگر جو اَب اسرائیلی حکومت کر رہی ہے وہ انتہائی خطرناک فعل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب رکے گا نہیں۔ اسرائیلی حکومت کا تو یہ اعلان ہے کہ ہم غزہ کو بالکل مٹا دیں گے۔ اس کیلئے انہوں نے بے تحاشا بمباری کی، اور پورے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنادیا۔ اب نئی صورت یہ پیدا ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک ملین سے زیادہ لوگ غزہ سے نکل جائیں۔ اس پر شکر ہے کہ کچھ مری مری سی ہی سہی کچھ تو آواز اقوام متحدہ کی نکلی ہے کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے اور یہ غلط ہوگا۔ ان معصوم شہریوں کا جو جنگ نہیں کر رہے کوئی قصور نہیں۔ اگر دنیا اسرائیلی عورتوں اور بچوں کو معصوم سمجھتی ہے تو یہ فلسطینی عورتیں اور بچے بھی معصوم ہیں۔
ان اہل کتاب کی اپنی کتاب بھی یہی کہتی ہے کہ اس طرح کا قتل و غارت جائز نہیں۔ مسلمانوں پر الزام ہے کہ انہوں نے غلط کیا تو یہ لوگ اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیں۔
بہرحال ہمیں بہت دعا کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے سفیر نے یہاں یہی کہا ہے کہ حماس ایک جنگجو گروہ ہے وہ حکومت نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال اٹھایا اور ان کی یہ بات درست ہے کہ اگر حقیقی انصاف قائم کیا جاتا تو یہ باتیں پیدا ہی نہ ہوتیں۔ اگر بڑی طاقتیں اپنے دوہرے معیار نہ رکھیں تو ایسی بدامنی اور یہ جنگیں کبھی نہ ہوں۔ اب تمام بڑی مغربی طاقتیں انصاف کو ایک طرف رکھ کر فلسطین پر ظلم کیلئے اکٹھی ہورہی ہیں اور ہرطرف سے فوجیں بھجوانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ میڈیا میں غلط رپورٹنگ ہورہی ہے۔ یہ لوگ جسکی لاٹھی اسکی بھینس کے اصول پر کاربند ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت ہے اِنہوں نے اُن کے آگے ہی جھکنا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ بھڑکانے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز بنائی گئی مگر انصاف نہ کرنے کی وجہ سے وہ ناکام ہوئی اور دوسری عالمی جنگ ہوگئی۔جس میں سات کروڑ انسان اپنی جان سے گئے۔ پھر اقوام متحدہ بنائی گئی مگر اب اس کا بھی یہی حال ہورہا ہے اور وہ بھی بری طرح ناکام ہورہی ہے۔ یہ بنائی تو اس لیے گئی تھی کہ اسکے ذریعے انصاف قائم کیا جائے گا اور مظلوموں کا ساتھ دیا جائے گا۔ جنگوں کے خاتمے کی کوشش ہوگی۔ مگر ان مقاصد کا دُور دُور تک پتا نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے مفادات کیلئے کوشاں ہے۔ اب جب اس ناانصافی کی وجہ سے جنگ ہوگی تو اس سے ہونے والے نقصان کا عام آدمی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا۔ایسے حالات میں مسلمان ملکوں کو ہوش سے کام لینا چاہئےاور اپنے اختلافات مٹا کر وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔مسلمان طاقتوں کو چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔
اللہ تعالیٰ مسلمان حکومتوں کو عقل دے اور یہ ایک ہوکر انصاف قائم کرنے والے بنیں۔ دنیا کی طاقتوں کو بھی عقل عطا فرمائے کہ یہ دنیا کو جنگ میں دھکیلنے کی بجائے اسے تباہی اور بربادی سے بچانے کی کوشش کریں۔ ان بڑی طاقتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر تباہی ہوگی تو یہ بڑی طاقتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔
ہمارے پاس تو دعا کا ہتھیار ہے اس لیے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اس حوالے سے دعا کرنی چاہئے۔ غزہ میں بعض احمدی گھرانے بھی گِھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے اور سب معصوموں کو محفوظ رکھے۔
اللہ تعالیٰ حماس کو بھی عقل دے اور یہ لوگ خود اپنے لوگوں پر ظلم کرنے کے ذمہ دار نہ بنیں۔ کسی قوم کی دشمنی انصاف سے دور کرنے والی نہ ہو، یہی قرآن کریم کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی توفیق دے کہ یہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امن قائم کرنے والی بنیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دنیا میں امن اور خوشحالی دیکھنے والے ہوں۔ آمین
خطبے کے آخرمیں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب آف حلقہ مسجد فضل لندن یو.کےکا ذکر خیر فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ حاضر ادا کی۔ اسی طرح حضور انور نے مکرمہ وسیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر شفیق سہگل صاحب (سابق امیر ضلع ملتان)کا بھی ذکر خیر فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔

…٭…٭…٭…