اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 

فرمودہ5؍مئی2023ءبمقام مسجدمبارک ،اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

 

تم خدا کی عظمتوں کے ایسے قائل ہوجاؤ اور اس کی محبت میں ایسے کھوئے جاؤ کہ گویا تم نے اس کی عظمت اور جلال اوراس کے حسن لازوال کودیکھ لیا ہے
ادنیٰ درجہ کا عدل یہ ہوتا ہے کہ جتنا لو اتنا دو، اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنا لے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے، پھر اس سے بڑھ کر ایتاء ذی القربی کا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ماں بچے کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضے کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے، قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اللہ ترقی کرکے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ5؍مئی2023ءبمقام مسجدمبارک ،اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ النحل کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی اور ترجمہ پیش فرمایا:
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۝۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(ترجمہ)اللہ یقینا عدل کا اور احسان کا اور غیر رشتہ داروں کو بھی قرابت والے شخص کی طرح جاننے اور اسی طرح مدددینے کا حکم دیتا ہے اور ہرقسم کی بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم سمجھ جاؤ۔
حضور انور نے فرمایا:یہ آیت ہر جمعہ کو خطبہ ثانیہ اور عیدین کے خطبہ ثانیہ میں بھی پڑھی جاتی ہے۔ اس میں بعض نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے اوربعض برائیوں کا ذکر ہے جن سے رُکنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور حقیقی مؤمن کی یہی نشانی ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر اور نصائح پر عمل کرے ورنہ وہ مقام نہیں ملتا جو ایک مسلمان کو حقیقی مؤمن بناتا ہے۔ اس آیت میں جن نیکیوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی عدل احسان اور ایتایٔ ذی القربی کاان کے حوالے سے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پیش کروں گا۔ آپ نے اسکی تفسیر ایسے عارفانہ رنگ میں بیان فرمائی ہے جس سے حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ سے تعلق کا عرفان ملتا ہے جو ایک مؤمن کو ایمان اور یقین کی نئی منزلوں تک لے جاتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات پر اگرانسان غور کرے اوراُنہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرے تو ایک ایسا لائحہ عمل ہمیں ملتا ہے جو حقیقت میں ہمیں خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی جوڑتا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور یوں ایک ایسے حسین معاشرے کو بھی قائم کرتا ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا معاشرہ ہے اور یہی چیز ہے جو معاشرے کے امن کی بھی ضمانت ہے اور دنیا کے امن کی بھی ضمانت ہے لیکن افسوس ہے کہ دنیا کی اکثریت ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنے پر تلی ہوئی ہے چاہے وہ مسلمان دنیا ہے یا غیر مسلم دنیا ہے۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کا نام تو لیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نام پر ظلم و تعدی میں بڑھے ہوئے بھی ہیں۔ ایسے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے والوں کا فرض ہے یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بھی اصلاح کریں اور دنیا کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کا تمہیں یہ حکم ہے کہ تم اس سے اور اسکی خلقت سے عدل کا معاملہ کرو۔ یعنی حق اللہ اور حق العباد بجا لاؤ اور اگر اس سے بڑھ کر ہو سکے تو نہ صرف عدل بلکہ احسان کرو یعنی ایسے اخلاص سے خدا کی بندگی کرو کہ گویا تم اس کو دیکھتے ہو۔ پہلے تو حقوق العباد کے بارے میں بتایا پھر فرمایا کہ خدا کی بندگی بھی ایسے انداز سے کرو کہ گویا کہ تم اسے دیکھتے ہو اور حقوق سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مروت کا سلوک کرو ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی بے غرض ہو کر کرو اور اللہ کی مخلوق کی خدمت ہے وہ بھی بے غرض ہو کے کرو جیسے کوئی قرابت کے جوش سے کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :آیت اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى میں خدا تعالیٰ نے تینوں مرتبے انسانی معرفت کے بیان کر دیئے اور تیسرے مرتبہ کو محبت ذاتی کا مرتبہ قرار دیا اور یہ وہ مرتبہ ہے جس میں تمام اغراض نفسانی جل جاتے ہیں اور دل ایسا محبت سے بھر جاتا ہے جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسی مرتبہ کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِيْ نَفْسَہُ ابْـتِغَاۗءَ مَرْضَاتِ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ یعنی بعض مومن لوگوں میں سے وہ بھی ہیں کہ اپنی جانیں رضائے الٰہی کے عوض میں بیچ دیتے ہیں اور خدا ایسوں ہی پر مہربان ہے اور پھر فرمایا بَلٰي۝۰ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ۝۰۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ یعنی وہ لوگ نجات یافتہ ہیں جو خدا کو اپنا وجود حوالہ کر دیں اور اسکی نعمتوں کے تصور سے اس طور سے اسکی عبادت کریں کہ گویا اس کو دیکھ رہے ہیں سو ایسے لوگ خدا کے پاس سے اجر پاتے ہیں اور نہ ان کو کچھ خوف ہے اور نہ وہ کچھ غم کرتے ہیں۔
پھر ایک جگہ فرمایا:يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۝ اِنَّمَا نُـطْعِمُكُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا۝ یعنی مومن وہ ہیں جو خدا کی محبت سے مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روٹی کھلانے سے تم سے کوئی بدلہ اور شکر گذاری نہیں چاہتے اور نہ ہماری کچھ غرض ہے۔ ان تمام خدمات سے صرف خدا کا چہرہ ہمارا مطلب ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہا لسلام فرماتےہیں خدا تم سے کیا چاہتا ہے۔ یہی کہ تم تمام نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ ان سے بھی نیکی کرو جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم مخلوق خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ کہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں کیونکہ احسان میں ایک خودنمائی کا مادہ بھی مخفی ہوتا ہے اور احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دیتا ہے لیکن وہ جو ماں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرتا ہے وہ کبھی خود نمائی نہیں کر سکتا۔ پس آخری درجہ نیکیوں کا طبعی جوش ہے جو ماں کی طرح ہو اور یہ آیت نہ صرف مخلوق کے متعلق ہے بلکہ خدا کے متعلق بھی ہے خدا سے عدل یہ ہے کہ اسکی نعمتوں کو یاد کر کے اسکی فرمانبرداری کرنا اور خدا سے احسان یہ ہے کہ اسکی ذات پر ایسا یقین کر لینا کہ گویا اسکو دیکھ رہا ہے اور خدا سے اِیتاء ذی القربی یہ ہے کہ اسکی عبادت نہ تو بہشت کے طمع سے ہو اور نہ دوزخ کے خوف سے۔ بلکہ اگر فرض کیا جائے کہ نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے تب بھی جوش محبت اور اطاعت میں فرق نہ آوے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقوق العباد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کریہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اور ذوالقربی ہیں۔ اب سوچنا چاہئے کہ مراتب تین ہی ہیں۔ اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے۔ پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے۔ اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتا ہے جیسی ماں اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے۔
ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:مخلوق سے ایسے پیش آؤکہ گویا تم ان کے حقیقی رشتہ دار ہو۔ یہ درجہ سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ احسان میں ایک مادہ خود نمائی کا ہوتا ہے اور اگر کوئی احسان فراموشی کرتا ہو تو محسن جھٹ کہہ اٹھتا ہے کہ میں نے تیرے ساتھ فلاں احسان کیا لیکن طبعی محبت جو ماں کو بچے کے ساتھ ہو تی ہے اس میں کوئی خودنمائی نہیں ہوتی۔ اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولاد سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں۔ یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اسی کا اشارہ ایتاء ذی القربی میں کیا گیا ہے کہ اس قسم کی محبت خدا کے ساتھ ہونی چاہئے نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر۔
حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام فرماتے ہیں :ادنیٰ درجہ کا عدل یہ ہوتا ہے کہ جتنا لو اتنا دو۔ اس سے ترقی کرے تو احسان کا درجہ ہے جتنا لے وہ بھی دے اور اس سے بڑھ کر بھی دے۔ پھر اس سے بڑھ کر ایتاء ذی القربی کا درجہ ہے یعنی دوسروں کے ساتھ اس طرح نیکی کرے جس طرح ماں بچے کے ساتھ بغیر نیت کسی معاوضے کے طبعی طور پر محبت کرتی ہے۔ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل اللہ ترقی کرکے ایسی محبت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ میں تو قائل ہوں کہ اہل اللہ یہاں تک ترقی کرتے ہیں کہ مادری محبت کے اندازے سے بھی بڑھ کر انسان کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ احسان کے درجے سے بھی آگے بڑھو اور ایتایٔ ذی القربی کے مرتبہ تک ترقی کرو اور خلق اللہ سے بغیر کسی اجر یا نفع و خدمت کے خیال کے طبعی اور فطری جوش سے نیکی کرو۔ تمہاری خلق اللہ سے ایسی نیکی ہو کہ اس میں تصنع اور بناوٹ ہر گز نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے موقع پر یوں فرمایا کہ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُكُوْرًا یعنی خدا رسیدہ اور اعلی ترقیات پر پہنچے ہوئے انسان کا یہ قاعدہ ہے کہ ا سکی نیکی خالصۃ للہ ہو تی ہے اور اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس کے واسطے دعا کی جاوے یا اس کا شکریہ ادا کیا جاوے۔ نیکی محض اس جوش کے تقاضا سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے ۔ ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی ہے اور نہ انجیل میں۔ ورق ورق کرکے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کانام و نشان نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق دیتے ہوئے حق بیعت ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انور نے فرمایا:پاکستان کے حالات کیلئے بھی دعا کرتے رہیں۔ یہ دعا بھی ہمیشہ کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو سلامت رکھے اور کبھی ہمارے ایمان متزلزل نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا وہ تعلق پیدا ہو جائے جو ایتایٔ ذی القربی کا تعلق ہے۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے بھی پہلے سے بڑھ کر دیکھیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔اور جو دشمن ہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں اور ناقابل اصلاح ہیںاللہ تعالیٰ انہیں خود تباہ کرے اور انشاء اللہ جب ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو گا تو دشمن کی تباہی کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے۔ ٭٭