اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-19

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ13؍جنوری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (برطانیہ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت عبد اللہ بن حجشؓ،حضرت صالح شقرانؓ،حضرت مالک بن دُخشمؓ،حضرت عکاشہؓ،حضرت خارجہ بن زیدؓ، کے
اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروزتذکرہ
مہدی آباد برکینا فاسو میں9؍احمدیوں کی افسوس ناک شہادت،شہداء کی بلندیٔ درجات نیز برکینا فاسو کے حالات کیلئے احباب جماعت کو دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ13؍جنوری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (برطانیہ)

تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:
جیسا کہ مَیں نے گذشتہ خطبے میں بتایا تھا کہ بعض صحابہ کےذکرکاکچھ حصّہ رہ گیا ہےوہ بیان کروں گا۔ آج اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن جحشؓ کے متعلق پہلے بیان ہوگا۔ آپؓکا تعلق قبیلہ بنو اسد سےتھا۔ آپؓکا قددرمیانہ اورسر کےبال بہت گھنے تھے۔ایک مہم کے موقعے پر آپؓکو امیرمقرر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سےفرمایا کہ مَیں تم پر ایسے شخص کو امیرمقرر کررہا ہوں جو تم سے بہتر تو نہیں لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہے۔ایک روایت کےمطابق اسلام میں سب سےپہلے جھنڈے کی ابتدا حضرت عبداللہ بن جحش نے کی اور سب سے پہلا مالِ غنیمت بھی آپؓنے تقسیم کیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓعبداللہ بن جحشؓ کی سربراہی میں جانے والی ایک مہم کاذکرفرماتے ہیں۔اس مہم میں مسلمانوں نے شھرحرام میں بامرِ مجبوری قتال کیا تھا۔جب اس بات کی خبرآنحضرتﷺ کو ملی تو آپؐسخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ مَیں نے تمہیں شھرِحرام میں لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔اس پر عبداللہ بن جحشؓ اور ان کے ساتھی سخت پشیمان ہوئے۔ اورانہوں نے خیال کیا کہ بس اب ہم خدا اور اس کے رسول کی ناراضگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ صحابہ نے بھی ان کو سخت ملامت کی اور کہا کہ تم نے وہ کام کیا جس کا تم کو حکم نہیں دیا گیا تھا اورتم نے شہرِ حرام میں لڑائی کی حالانکہ اس مہم میں تو تم کومطلقا لڑائی کاحکم نہیں تھا۔بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنی وحی نازل ہوکر مسلمانوں کی تشفی کاموجب ہوئی اور وہ آیت یہ ہے:


يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْہِ۝۰ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْہِ كَبِيْرٌ۝۰ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ وَكُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۝۰ۤ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللہِ۝۰ۚ وَالْفِتْنَۃُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۝۰ۭ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا۝۰ۭ


یعنی لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شہرِحرام میں لڑنا کیسا ہے؟ تُو ان کو جواب دے کہ بے شک شہر ِحرام میں لڑنا بہت بری بات ہے لیکن شہرِحرام میں خدا کے دین سے لوگوں کو جبراً روکنا بلکہ شہرِحرام اور مسجد حرام دونوں کا کفر کرنا یعنی ان کی حرمت کو توڑنا اور پھر حرم کے علاقہ سے اسکے رہنے والوں کو بزور نکالنا جیسا کہ اے مشرکو تم لوگ کررہے ہو یہ سب باتیں خدا کے نزدیک شہرِحرام میں لڑنے کی نسبت بھی زیادہ بُری ہیں اوریقینا شہرِ حرام میں ملک کے اندر فتنہ پیدا کرنا اُس قتل سے بدتر ہے جو فتنہ کوروکنے کیلئے کیا جاوے۔ اور اے مسلمانو کفار کا تو یہ حال ہے کہ وہ تمہاری عداوت میں اتنے اندھے ہورہے ہیں کہ کسی وقت اور کسی جگہ بھی وہ تمہارے ساتھ لڑنے سے باز نہیں آئینگے اور وہ اپنی یہ لڑائی جاری رکھیںگے حتی کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں بشرطیکہ وہ اس کی طاقت پائیں۔
حضرت عبداللہ بن جحشؓ کی تلوار احد کے دن ٹوٹ گئی تھی۔ رسول اللہﷺ نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی جو اُن کےہاتھ میں تلوار کی طرح ہوگئی۔ ایک موقعےپر حضرت امام شعبی نے بنو اسد کی چھ خوبیاں گنوائیں جس میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر اس بات کا ذکر فرمایا کہ اسلام میں سب سے پہلا علَم بنی اسد میں سے ایک شخص عبداللہ بن جحش کو دیاگیا ۔نیزبنو اسد کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں سب سے پہلا مالِ غنیمت بھی عبداللہ بن جحش نے تقسیم کیا۔ عبد اللہ بن جحش احدکے دن شہید ہوئے تو حضرت زینب بنت خزیمہ آپؓ کے نکاح میں تھیں، ان کی شہادت کے بعد حضور ﷺ نے حضرت زینب سے شادی کرلی۔
اگلا ذکر حضرت صالح شقران ؓکا ہے۔ بعض کے نزدیک حضرت شقرانؓ اور ام ایمنؓ حضورﷺ کو اپنے والد کی طرف سے ورثےمیں ملے تھے۔ غزوہ بدر کےبعدآپؐنے انہیں آزاد فرمادیا تھا۔ حضور ﷺ کے وصال کےبعد جن اشخاص کو آپؐکو غسل دینے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں حضرت صالح شقرانؓ بھی شامل تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے حضرت شقران ؓکے صاحبزادےکو حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی طرف روانہ کیا اور لکھا کہ مَیں تمہاری طرف ایک صالح آدمی کو بھیج رہا ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ہاں اسکے والد کا جو مقام ہے، اسکے مطابق اس سے سلوک کرنا۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں آپؓکی وفات ہوئی۔
اگلا ذکر حضرت مالک بن دُخشم کا ہے۔ آپؓکا نام مالک بن دخیشن یا ابنِ دخشن بھی بیان ہوا ہے۔ سہیل بن عمرو کو قیدی بنانے کے موقعے پر حضرت مالک نے جو اشعار کہے تھے ان میں یہ ذکر ملتا ہے کہ مَیں نے سہیل کو قیدی بنایااور اسکے بدلے میں کسی قوم کے دوسرے فرد کو قیدی بنانا نہیں چاہتا۔غزوہ احد کے دن مالک بن دُخشم حضرت خارجہ کے پاس سے گذرے انہیں 13؍زخم آئے تھے۔ مالک نے ان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ محمدﷺ کو قتل کردیا گیا ہے۔اس پر حضرت خارجہ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہے بھی تو اللہ بہر حال زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا۔محمدﷺ نےاسلام کا پیغام پہنچادیا ہے اس لیے تم بھی اپنے دین کیلئے قتال کرو۔ ایک اور روایت کے مطابق اسکے بعد حضرت مالک سعد بن ربیع کےپاس سے گذرے انہیں 12 مہلک زخم آئے تھے۔ حضرت مالک نے ان سے بھی یہی بات کہی تو سعد بن ربیع نے بھی فرمایا کہ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ نے اپنے ربّ کاپیغام پہنچادیا ہے، پس اسلام کی خاطر لڑو۔
لوگوں میں سے بعض نے آنحضرتﷺ سے حضرت مالک کی نسبت یہ عرض کیا کہ مالک منافقین کی پناہ گاہ ہے۔ آپؐنے فرمایا کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟ لوگوں نے کہا کہ پڑھتا ہے لیکن وہ ایسی نماز ہے جس میں کوئی خیرنہیں۔ اس پر حضورﷺ نےدو بار فرمایا کہ مجھے نماز پڑھنے والوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے۔
ایک روایت کے مطابق حضورﷺ نے حضرت مالک بن دُخشمؓ کےساتھ عاصم بن عدی کو مسجد ضرار کو منہدم کرنےکیلئے بھجوایا تھا۔ آپؓکے متعلق ذکر ملتا ہے کہ ان کی نسل آگے نہیں چلی۔
پھر حضرت عکاشہؓ کاذکر ہے۔ ان کی حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں12؍ہجری میں شہادت ہوئی۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایک شخص جنتی تھا مگر پھربھی زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتا تھا اور وہ عکاشہ تھے۔غزوہ بدر کے فوراً بعد 2؍ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش کو ایک مہم پر روانہ فرمایا اس سریہ میں عکاشہؓ بھی عبداللہ کے ساتھ تھے۔ غزوہ احد کے موقع پر حضورﷺ مسلسل تیراندازی فرماتے رہے،جس کی وجہ سے کمان کا ایک حصّہ ٹوٹ گیا۔ حضرت عکاشہؓ نے کمان باندھنے کیلئے ڈورآپؐ سے لی مگر وہ ڈور چھوٹی پڑ گئی۔ آپؓنے عرض کیا کہ ڈور چھوٹی پڑ گئی ہے تو آپؐنے فرمایااس کو کھینچو، حضرت عکاشہ کہتے ہیں کہ مَیں نے ڈور کو کھینچا اور خدا کی قسم وہ اتنی لمبی ہو گئی کہ مَیں نے کمان کے سرے پر اسے دو تین بَل بھی دیے۔
ایک مہم کے موقع پر حضورﷺنے مدینے میں خطرےکا اعلان کیا تو گھڑ سوارآپؐکے پاس جمع ہونے لگے۔ ان سواروں میں حضرت عکاشہؓ بھی شامل تھے۔
اگلا ذکر ہےحضرت خارجہ بن زیدؓکا۔ آپ کی کنیت ابوزید تھی۔بعض دیگر صحابہ کے ساتھ انہوں نے یہود سے توریت میں مذکور بعض باتوں کے بارے میں سوال کیا تو یہود نے بتانے سےانکار کردیا۔ جس پر قرآنی وحی بھی نازل ہوئی۔
اگلا ذکر زیاد بن لبیدؓ کا ہے۔ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ آپ کی نسل مدینہ اور بغداد میں مقیم تھی۔ حضرت زیاد کو حضورﷺ نے ایک قوم کی طرف انہیں دین سکھانے کیلئےبھی بھجوایا تھا۔ آپؓ41ہجری میں حضرت معاویہ کے دورِ حکومت میں فوت ہوئے۔
پھر حضرت خالد بن بُکیرؓ کا ذکر ہے۔یہ قبیلہ بنو سعد سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں بھی حضورﷺ نے دین کی تعلیم دینے اور قرآن پڑھانے کیلئے ایک قوم کی طرف دیگر پانچ اصحاب کے ہمراہ روانہ فرمایا۔ اُن لوگوں نے جو دین سیکھنےکیلئےانہیں ساتھ لےکرگئے تھے بعد میں دھوکے سے شہید کردیا تھا۔
پھر حضرت عمّار بن یاسرؓ کا ذکر ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں کہ ایک دفعہ حضرت رسول اللہﷺ ایک غلام عمارکے پاس سے گزرے اور حال دریافت فرمایا۔ عمار نے بتایا کہ دشمن مجھے مارتے رہے اور جب تک آپؐکے خلاف کلمات نہ کہلوالیے مجھے نہ چھوڑا۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم دل میں کیا محسوس کرتے ہو۔ عمارؓ نے بتایا کہ دل میں تو غیرمتزلزل ایمان ہے۔ اس پر آپؐنے فرمایا کہ اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو معاف کردے گا۔ جنگِ صفین میں آپؓنہایت بہادری سے شریک رہے اور شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے فرمایا کہ ایک افسوس ناک خبرہےکہ بورکینا فاسو میں پرسوں ہمارے 9؍احمدی نہایت ظالمانہ طریقےسے شہید کردیے گئے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اس کی تفصیلات بعض آگئی ہیں بعض ابھی آرہی ہیں۔ ان کا ذکران شاءاللہ مَیں اگلے خطبے میں کروں گا۔
حضورانور نے شہداءکےبلندیٔ درجات کیلئے دعا کی اور احبابِ جماعت کو دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایاکہ وہاں کے حالات ابھی بھی خراب ہیں، دہشت گرد دھمکی دےکر گئے ہیں۔ ان کیلئے دعا بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے انہیں محفوظ رکھے۔ آمین۔
…٭…٭…٭…