اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-01-26

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ13؍جنوری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (برطانیہ)

عشق وو فا اورایمان واخلاص سےپُربورکینافاسو کے 9؍احمدیوں کی دردناک شہادت اور اس افسوسناک واقعہ کا تفصیلی ذکر
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ13؍جنوری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (برطانیہ)

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ البقرۃ کی آیات155 اور 156 کی تلاوت وترجمہ کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس آیت کے حوالے سے فرمایا:اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کیلئے یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں۔جماعت احمدیہ میں گزشتہ سو سال سے زائد عرصے سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں پیش کی جارہی ہیں۔ کیا ان کی قربانیاں رائیگاں گئیں؟
جہاں اللہ تعالیٰ ان شہداءکے مقام کو بلند کرتا رہا ہے وہاں جماعت کو پہلے سے بڑھ کرترقیات سے نوازتا رہاہے۔ ان شہیدوں نے جو مقام پایا ہےاور جہاں ان کے درجات ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والے ہیں وہاںاس دنیا میں بھی ہمیشہ کیلئے ان کے نام روشن ہیں۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان کا جان دینا نہ صرف اپنے لیے بلکہ جماعت کی زندگی کا بھی باعث بن رہا ہے۔یہی تو ہیں جو پیچھے رہنے والوں کی زندگی اور ترقیات کا ذریعہ بن رہے ہیں تو پھر وہ مُردہ کس طرح ہوسکتے ہیں۔
جماعت احمدیہ میں جان کی یہ قربانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دَور میں حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب ؓکی قربانی سے شروع ہوئی۔ جان کی قربانی شروع میں افغانستان اور برصغیر کے احمدیوں کے حصے میں رہی۔ 2005ء میں افریقہ کے ملک کانگو میں ایک احمدی نے خالصتاًجماعت کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ لیکن گزشتہ دنوںبرکینا فاسو میںعشق ووفا، ایمان و یقین سےپُرجو نمونہ افریقن احمدیوں نے دکھایا وہ بے مثال ہے۔اُن کو موقع دیا گیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کا انکار کردو اور اس بات پر یقین کرو کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو ہم تمہاری جان بخشی کردیں گے لیکن اُن لوگوں نے جن کا ایمان پہاڑوں سےزیادہ مضبوط نظر آتا ہے جواب دیا کہ جان تو ایک دن جانی ہی ہے آج نہیں تو کل لہٰذا اس کو بچانے کیلئےہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کرسکتے۔جس سچائی کو ہم نے دیکھ لیا ہے اس کو ہم نہیں چھوڑ سکتےاور یوں ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا۔ان کی عورتیں اور بچے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اورکسی نے کوئی واویلا نہیں کیا۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ  والسلام کے زمانے میں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی قربانی کے بعد دنیائے احمدیت میں قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
یہ اپنی دنیاوی زندگیوں کی قربانی دے کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے والے بن گئے۔انہوں نے جان، مال اوروقت کی قربانی کے عہد کو ایسا نبھایاکہ بعد میں آکر پہلے آنے والوں سے سبقت لے گئے۔اللہ تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کواُن بشارتوں کا وارث بنائے جو اللہ تعالیٰ نے اُس کی راہ میں قربانیاں کرنے والوں کو دی ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ اب مختصراً ان شہدا ءکے حالات زندگی بیان کروں گا۔تفصیلات کے مطابق برکینا فاسو کاایک شہر ڈوری ہے جہاں مہدی آباد میں نئی آبادی ہوئی تھی۔ 11؍ جنوری کو نو(9) احمدی بزرگوں کو عشاء کے وقت مسجدکے صحن میں باقی نمازیوں کے سامنے اسلام اور احمدیت سے انکار نہ کرنے کے باعث ایک ایک کرکے شہید کردیا گیا۔چار موٹر سائیکلوں پر آٹھ مسلح افراد مسجد میں آئےتھے ۔ جب یہ احمدیہ مسجد میں آئے تو اُس وقت عشاء کی اذان ہو رہی تھی۔اذان کے بعد مؤذن سے اعلان کروایا کہ احباب جلدی مسجد میں آجائیں کچھ لوگ آئے ہیں اور انہوں نے کوئی بات کرنی ہے۔پھر اُن کے پوچھنے پر الحاج ابراہیم بدگا صاحب نے بتایا کہ وہ امام مسجد ہیں۔پھر ان کے پوچھنے پر کہ نائب امام کون ہے آگوما عبدالرحمٰن صاحب نے بتایا کہ وہ نائب امام ہیں۔ جسکے بعدانہوں نے عقائد جماعت احمدیہ کے بارے میں امام صاحب سے کافی سوالات کیے۔امام صاحب نے بتایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور آنحضرت ﷺ کو ماننے والے ہیں۔ ہمارا تعلق احمدیہ مسلم جماعت سے ہے۔جب امام صاحب نے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰؑ وفات پاگئے ہیں اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام امام مہدی ہیں۔تب دہشت گردوں نے کہا کہ احمدی پکے کافر ہیں۔
پھر ملحقہ سلائی سینٹر میں حضرت مسیح موعودؑاور خلفاء کی تصاویر کے بارے میں پوچھا۔امام صاحب نے ایک ایک تصویر کا تعارف کروایا۔انہوں نے کہا کہ مسیح موعودؑ کا دعویٰ (نعوذ باللہ)جھوٹا ہے۔ جسکے بعد انہوں نے مسجد میں موجود تقریباً 70نمازیوں میں سے عمر کے حساب سے بچوں نوجوانوں اوربزرگوں کےگروپ بنائے۔دس بارہ لجنہ بھی موجود تھیں۔ بڑی عمر کے افراد کو کہا کہ وہ مسجد کے صحن میں آجائیںاورامام صاحب سے کہا کہ اگر وہ احمدیت سے انکار کردیں تواُن کی جان بخش دی جائیگی۔امام صاحب نے جواب دیا کہ میرا سر قلم کردیں مگر میں احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔دہشت گردوں نے زمین پر لٹاکر اُن کی گردن پر چھرا رکھا اور ذبح کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے کھڑا کرکے مار دیں تو انہوں نےاُن کو گولیاں مارکر شہید کردیا۔دہشت گرد سمجھے کہ باقی افراد ڈر کرمان جائیں گے اور ایک اور بزرگ کو بلاکر کہا کہ احمدیت سے انکار کرنا ہے یا مرنا ہے تو انہوں نےبھی یہی کہا کہ احمدیت نہیں چھوڑ سکتااور پھر اُن کے سر پر گولیاں مار کر اُن کو بھی شہید کردیا۔اس طرح باقی افراد کو ایک ایک کرکے بلایا اور شہید کردیا۔ کسی ایک نے بھی ذرا سی بھی کمزوری نہ دکھائی اور نہ ہی احمدیت سے انکار کیا۔ کسی ایک کا بھی ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر یقین و وفا اور دلیری کا مظاہرہ کیا اوراللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جانیں پیش کردیں۔
ہر شہید کو کم و بیش تین گولیاں ماری گئیں۔ان میں دو جڑواں بھائی بھی شامل تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید ؓکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بہت سےان کے قائم مقام پیدا کردے گا۔پس ہم گواہ ہیں کہ آج افریقہ کے رہنے والوں نے اس کا نمونہ دکھادیا اورقائمقامی کا حق ادا کردیا۔
دہشت گردوں کے مسجد میں آنے اور ساری کارروائی مکمل ہونے میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت بنتا ہے۔باقی افراد جس کرب سے گزرے ہوں گے اسکا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کےسامنے ان کے پیاروں کو شہید کیا جارہا تھا۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان تمام شہداء کا تعارف کروایااور نماز جمعہ کےبعد نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔
(امام الحاج ابراہیم بدگا صاحب) اس علاقےکے سب سے بڑےوہابی امام اور ایک بہت صاحبِ علم آدمی تھے۔آپ نے بہت تحقیق کے بعد بیعت کی تھی اور بعد میں ایک پُرجوش مبلغ کی حیثیت میں سامنے آئے۔آپ کی عمر 68سال تھی۔تعلیم کیلئے سعودی عرب میں مقیم رہے۔تماشق زبان کے عالَم تھے۔احمدیت سے قبل کئی دیہات کے چیف تھے۔علاقے کے بڑے بڑے علماءان کے پاس بیٹھنے میں اپنی شان سمجھتے تھے۔1998ء میں ڈوری میں باقاعدہ احمدیہ مشن قائم ہونے کی خبرپانے اورجماعت کے عقائد کا علم ہونے پر7؍ افراد کے ساتھ مشن ہاؤس آئے اور بہت تحقیق کے بعد بیعت کی۔سمجھ کر صداقت کو قبول کیا اور پھر قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی۔بےخوف داعی الی اللہ اور فدائی احمدی تھے۔آپ کی کوششوں سے علاقے بھرمیں احمدیت پھیلی اور کئی جماعتیں قائم ہوئیں۔قتل کی دھمکیوں کے باوجود تبلیغ کا جنون تھا۔ خلا فت سے بھی بے انتہا وفا کا تعلق تھا۔
(الحسن آگمانئیل صاحب)شہادت کے وقت ان کی عمر 71؍سال تھی۔ پیشے کے لحاظ سے کسان تھے۔ 1999ء میں احمدیت قبول کی ۔بیعت کے وقت سے اخلاص و وفا میں ترقی کرتے چلے گئے ۔نماز وں میں باقاعدہ اور تہجد کے پابندتھے۔جماعت کیلئے جان، مال اور وقت کی ان کی قربانی غیر معمولی ہے۔گذشتہ سال وقف عارضی کی تحریک پر مہدی آبادمیں سب سے پہلے اپنا نام لکھوایا۔اس واقعہ میں آپ کے جڑواں بھائی آگمالی ائیل حسینی کی بھی شہادت ہوئی ہے۔
(حسینی آگمالی ائیل صاحب)ان کی عمر بھی 71 سال تھی اور1999ءمیں بیعت کی تھی ۔اپنے گاؤں کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔اس وقت زعیم انصار اللہ کے طور پر خدمت بجا لا رہےتھے۔پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کیا کرتے تھے۔نماز تہجد کے پابند تھے۔ ان کے جڑواں بھائی بھی اس واقعہ میں شہید ہوئے ہیں۔ دونوں بھائی ایک ہی دن دنیا میں آئے اور ایک ہی دن دنیا سے گئے۔
(حمیدو آگ عبدالرحمٰن صاحب)ان کی عمر 67 سال تھی۔پیشے کے لحاظ سے کسان تھے۔1999ءمیں بیعت کی تھی۔دل کے صاف اور حلیم طبع تھے۔جماعتی کاموں میں صف اوّل کے شمار ہوتے تھے اپنی فیملی کو بھی اسکی تلقین کرتے تھے۔خطبہ جمعہ انتہائی توجہ اور باقاعدگی سے سنتے تھے۔
(صُلَحِ آگ ابراہیم صاحب)پیشے کے اعتبار سے کسان تھے۔نماز باجماعت کے پابند تھےاور باقاعدگی سے چندہ ادا کیا کرتے ۔ مجلس انصار اللہ کے متحرک رکن تھے۔صاحب علم ، مذہبی اور علمی گفتگوکرنے والے ، نہایت شریف طبیعت کے مالک تھے۔ہر ایک سے حسن سلوک کرنا آپکا خاص وصف تھا۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کیلئے غرباءکی مالی مدد کیا کرتےتھے۔
(عثمان آگ سودے صاحب)ان کی عمر59 سال تھی ۔ پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے۔مہدی آباد کی مسجد کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ نمازوں کے پابندتھے اور تہجد باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے۔ مغرب پر آتے اور عشاء کے بعد واپس جاتے۔ہر کوئی گواہی دیتا کہ انتہائی مخلص تھے۔مجھےبھی دعا کے خطوط باقاعدگی سے لکھتےتھے۔
(آگالی آگماگوئیل صاحب)یہ1970ءمیں پیدا ہوئے اور اپنے والد صاحب کے ساتھ 1999ءمیں احمدیت قبول کی۔پیشے کے اعتبار سے کسان تھے۔بہت مخلص احمدی تھے۔نمازوں اور چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے ۔
(موسیٰ آگ ادراہی صاحب)شہادت کے وقت ان کی عمر53سال تھی۔ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ تہجد اور نمازوں میں باقاعدہ تھے۔ہر کوئی گواہی دیتا ہے کہ یہ ایک مخلص اور فدائی احمدی ہونے کا نمونہ تھے۔مجھے باقاعدگی سے دعائیہ خطوط لکھتے تھے۔
(آگوما آگ عبدالرحمٰن صاحب)شہادت کے وقت ان کی عمر44سال تھی۔1999ءمیں 20 سال کی عمرمیں احمدیت قبول کی اور پھرجماعت کے ساتھ اخلاص ووفا میں ترقی کی۔انتہائی مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ دہشت گردوں کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بتایا کہ میں نائب امام ہوں۔تہجد اور نمازوں کے پابند تھے۔جماعتی کاموں کیلئے پورے علاقے میں سائیکل سےلمبے لمبے سفر کرتے۔جب آٹھ افراد کو شہید کردیا گیا تو سب سے چھوٹے تھےلیکن بڑی شجاعت سے جواب دیا کہ جس راہ پر بزرگوں نے قربانی دی ہے میں بھی قربان ہونے کیلئے تیار ہوں۔
حضورانور نے فرمایا کہ پس یہ احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں۔ اپنے پیچھے ایک نمونہ چھوڑ کر گئےہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ایمان و یقین میں بڑھائے۔دشمن سمجھتا ہے کہ اس طرح احمدیت ختم ہوجائے گی لیکن احمدیت پہلے سے بڑھے گی اور پنپے گی،انشاء اللہ۔
حضور انور نے فرمایا کہ شہداءکے خاندانوں کی ضرورت پورا کرنے اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے خلافت رابعہ کے زمانے میںسیّدنا بلال فنڈقائم کیا گیا تھا جس سے شہدا ءکیلئے خرچ کیا جاتا ہے ۔ جوشہدا ءکیلئے دینا چاہیں وہ اس فنڈ میں ادائیگی کریں اور یہ ان شہدا ءپر کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ان کی ضروریات کا خیال رکھیں اوران کو پورا کریں ۔ ٭٭٭