اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-16

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ10؍فروری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پُر معارف ارشادات پر مشتمل بصیرت افروز خطبہ جمعہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ10؍فروری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گزشتہ خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات قرآن کریم کی عظمت اور اہمیت کے بارے میں بیان کر رہا تھا۔ آج اس سلسلہ میں مزید کچھ پیش کروں گا۔
قرآن کریم کے فضائل اور اہمیت کو بیان فرماتے ہوئے اپنی تصنیف تحفہ قیصریہ میں جو ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر آپ نے تصنیف فرمائی تھی جس میں ملکہ کو اسلام کا پیغام دیا۔ اس میں تحریر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی دوبارہ قائم ہوگئی۔
آپ فرماتے ہیں:یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں مکمل طور پر علم سے نوازا گیا ہے اور عملی ہدایات دی گئی ہیں چنانچہ فرمایا چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی قرآن کریم ہی وہ مکمل کتاب ہے جس کی تعلیم صحیح راستے پہ رہنمائی کرتی ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْمیں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اتم ہیں وہ حاصل ہو جائیں۔قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کر لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے اسکا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اسکے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کئے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیب کی مثال جوقرآن شریف میں دی گئی ہے بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ ان میں پیدا ہو جاتا ہے۔
پھر فرماتے ہیں کہ قرآن مجید ایک ایسی پاک کتاب ہے جو اس وقت دنیا میں آئی تھی جبکہ بڑے بڑے فساد پھیلے ہوئے تھے اور بہت سی اعتقادی اور عملی غلطیاں رائج ہو گئی تھیں اور تقریبا سب کے سب لوگ بد اعمالیوں اور بد عقیدگیوں میں گرفتار تھے۔ اسی کی طرف اللہ جل شانہ قرآن مجید میں اشارہ فرماتا ہے۔ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ یعنی تمام لوگ کیا اہل کتاب اور کیا دوسرے سب کے سب بدعقیدگیوں میں مبتلا تھے اور دنیا میں فساد عظیم برپا تھا۔ غرض ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام عقائد باطلہ کی تردید کیلئے قرآن مجید جیسی کامل کتاب ہماری ہدایت کیلئے بھیجی جس میں کل مذاہب باطلہ کا ردّ موجود ہے اور خا ص سورہ فاتحہ میں جو پنج وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے اشارہ کے طور پر کل عقائد کا ذکر ہے۔
اب غور سے اگر انسان پانچ وقت نمازوں میں یہ پڑھے تو بڑا معرفت حاصل کر سکتا ہے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ قرآن ایک معجزہ ہے آپ فرماتے ہیں :معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آ جائے۔ کوئی مثال پیش نہ کر سکے۔ خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو جیسا کہ قرآن شریف کا معجزہ ہے جو ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ پس وہ اگرچہ بنظر سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے۔ پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کیلئے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیسا کہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کے لحاظ سے او رنہایت لذیذ اور مصفیٰ اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کا التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیز زبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود گزرنے تیرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے۔
قرآن کریم دعویٰ کرتا ہے کہ یہ متقیوں کیلئے ہدایت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان آیات میں جو معرفت کا نکتہ مخفی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ الۗمّۗ۝ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝۰ۚۖۛ فِيْہِ۝۰ۚۛھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۝ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین۔ یعنی یہ وہ کتاب ہے جو خدا تعالیٰ کے علم سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور چونکہ اس کا علم جہل اور نسیان سے پاک ہے۔ جہالت اور بھول چوک سے پاک ہے اس لئے یہ کتاب ہر ایک شک و شبہ سے خالی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا علم انسانوں کی تکمیل کیلئے اپنے اندر ایک کامل طاقت رکھتا ہے اس لئے یہ کتاب متقین کیلئے ایک کامل ہدایت ہے۔ اور ان کو اس مقام تک پہنچاتی ہے جو انسانی فطرت کی ترقیات کیلئے آخری مقام ہے۔
پھر قرآن بطور دین کامل ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن شریف نے دین کے کامل کرنے کا حق ادا کردیا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا یعنی آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے اور میں اسلام کو تمہارا دین مقرر کرکے خوش ہوا۔ سو قرآن شریف کے بعد کسی کتاب کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں کیونکہ جس قدر انسان کی حاجت تھی وہ سب کچھ قرآن شریف بیان کرچکا اب صرف مکالماتِ الہیہ کا دروازہ کھلا ہے اور وہ بھی خود بخود نہیں بلکہ سچے اور پاک مکالمات جو صریح اور کھلے طور پر نصرت الٰہی کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں اور بہت سے امور غیبیہ پر مشتمل ہوتے ہیں وہ بعد تزکیہ نفس محض پیروی قرآنِ شریف اور اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتے ہیں۔افسوس کہ ہمارے مخالفین یہ معرفت کی باتیں سننا نہیں چاہتے اور ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم نے قرآن کریم میں تحریف کر دی۔
پھرامتیازی خوبیوں کا مزید ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: اب میں قرآن شریف کی امتیازی خوبیاں جو انسانوں کی طاقت سے برتر ہیں ذیل میں بیان کرتا ہوں۔فرمایا اول یہ کہ اس میں ایک زبردست طاقت ہے جو اپنے پیروی کرنے والوں کو ظنی معرفت سے یقینی معرفت تک پہنچا دیتی ہے۔ صرف ظن نہیں ہوتا بلکہ یقین ہوتا ہے اور معرفت یقینی پیدا ہو جاتی ہے۔ اوروہ یہ کہ جب ایک انسان کامل طور پر اس کی پیروی کرتا ہے تو خدائی طاقت کے نمونے معجزہ کے رنگ میں اس کو دکھائے جاتے ہیں اور خدا اس سے کلام کرتا ہے اور اپنے کلام کے ذریعہ سے غیبی امور پر اس کو اطلا ع دیتا ہے اور میں اِن قرآنی برکات کو قصہ کے طورپر بیان نہیں کرتا بلکہ میں وہ معجزات پیش کرتا ہوں کہ جو مجھ کو خود دکھائے گئے۔ وہ تمام معجزات ایک لاکھ کے قریب ہیں بلکہ غالباً وہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں خدا نے قرآن شریف میں فرمایا تھا کہ جو شخص میرے اس کلام کی پیروی کرے وہ نہ صرف اس کتاب کے معجزات پر ایمان لائے گا بلکہ اسکو بھی معجزات دئیے جائیں گے۔ سو میں نے بذاتِ خود وہ معجزات خدا کے کلام کی تاثیر سے پائے جو انسان کی طاقت سے بلند اور محض خدا کا فعل ہیں۔ وہ زلزلے جو زمین پرآئے وہ طاعون جو دنیا کو کھا رہی ہے وہ انہی معجزات میں سے ہیں جو مجھ کو دیئے گئے۔
قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی خوبیوں میں سے اس کی تعلیم بھی ہے کیونکہ وہ انسانی فطرت اورانسانی مصالح کے سراسر مطابق ہے۔ مثلاً توریت کی یہ تعلیم ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ۔ اور انجیل یہ کہتی ہے کہ بدی کاہرگز مقابلہ نہ کر بلکہ اگر کوئی تیری دائیں گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی پھیر دے مگر قرآن شریف کہتا ہے کہ جَزٰۗؤُا سَيِّئَۃٍ سَيِّئَۃٌ مِّثْلُہَا۝۰ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَي اللہِ۔ یعنی بدی کا بدلہ تو اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص اپنے قصور وار کا گناہ بخشے اور اس گناہ کے بخشنے میں وہ شخص جس نے گناہ کیا ہے اصلاح پذیر ہوسکے اورآئندہ اپنی بدی سے بازآسکے تو معاف کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہوگا ورنہ سزا دینا بہتر ہوگا۔ کیونکہ طبائع مختلف ہیں۔
پھر فرمایا کہ انجیل کا ایک حکم ہے کہ تو غیر عورت کو شہوت کی نظر سے مت دیکھ مگر قرآن شریف کہتا ہے کہ توہرگز نہ دیکھ۔ حضور انور نے فرمایا:عورتوں کو نہ دیکھو۔نہ شہوت کی نظرسے نہ بے شہوت کے کیونکہ یہ کبھی نہ کبھی تیرے لئے ٹھوکر کا باعث ہوگا۔ یہ کہہ دیتے ہیں جی ہم تو بڑی پاک نظر سے دیکھ رہے ہیں پاک نظر سے بھی نہیں دیکھنا کیونکہ تمہارے لئے ٹھوکر کا باعث ہو گا بلکہ ضرورت کے وقت خوابیدہ چشم سے نہ نظر پھاڑ کر رفع ضرورت کرنا چاہئے۔ یعنی اگر ضرورت پڑے بھی تو پھر نیم آدھ کھلی آنکھوں سے دیکھو تا کہ پوری طرح نظر نہ آئے۔ نظریں پھاڑ پھاڑ کر نہ دیکھو ۔ پھر فرمایا اور انجیل کہتی ہے کہ اپنی بیوی کو بجز زنا کے ہرگز طلاق نہ دے مگر قرآن شریف اس بات کی مصلحت دیکھتاہے کہ طلاق صرف زنا سے مخصوص نہیں بلکہ اگرمرد اور عورت میں باہم دشمنی پیدا ہو جاوے اور موافقت نہ رہے یا مثلاً اندیشہ جان ہو یا اگرچہ عورت زانیہ نہیں مگر زنا کے مقدمات اس سے صادر ہوتے ہیں اور غیر مردوں کو ملتی ہے تو اِن تمام صورتوں میں خاوند کی رائے پر حصر رکھا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب دیکھے تو چھوڑ دے۔ مگر پھر بھی تاکید ہے اور نہایت سخت تاکید ہےکہ طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔
اب قانون میں بھی یہ لکھا جاتا ہے کہ جواز وجہ کیا ہے؟ وہ پوچھتے ہیں کافی مقدموں میں کہ کیا وجہ ہے ؟کیوں طلاق ہو رہی ہے ؟کیوں علیحدگی ہو رہی ہے؟ ثبوت دینے پڑتے ہیں سارے۔ تو بہرحال فرمایا کہ یہ آسانی سے نہیں ہو جاتی۔ اس لئے ان کو بھی اپنا قانون بنانا پڑا۔ دنیا کے قانون تو بہرحال بنتے بھی ہیں ٹوٹتے بھی ہیں۔ ان میں مزید بہتری پیدا کرنے کیلئے کوشش کرتے رہتے ہیں یہ لوگ۔ پھر بھی کوئی نہ کوئی سقم رہ جاتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا قانون ایسا ہے جو عین فطرت کے مطابق ہے۔ دوبارہ یہاں یہ واضح کر دوں کہ صرف مرد کو ہی طلاق کا حق نہیں ہے بلکہ عورت بھی پسند ناپسند یا کسی بھی وجہ سے خلع لے سکتی ہے اور اگر مرد قصور وار ٹھہرے اور بعض زیادتیاں کرے، ثابت ہو جائیں تو پھر یہ خیال مردوں کا کہ حق مہر ادا نہیں ہو گا، وہ حق مہر بھی ان کو ادا کرنا پڑتا ہے اور حقوق بھی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس لئے کسی لڑکے یا عورت کے ذہن میں یہ خیال نہ آئے کہ صرف مرد کو حق دیا گیا ہے۔ جب عورت کے حوالے سے بات ہو گی تو وہاں اس کی تفصیل بھی بیان ہو جائے گی۔
خطبہ کے آخر پرحضور انور نے فرمایایہ مضمون جاری ہے اور بھی آپؑکے ارشادات ہیں وہ وقتاً فوقتاً بیان کرتا رہوں گا اس حوالے سے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم کی صحیح تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
…٭…٭…٭…