اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-02-23

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت  خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ17؍فروری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی عظیم الشان شخصیت
آپؓکے سخت ذہین وفہیم اور علوم ظاہری وباطنی سے پُر ہونے کے متعلق غیروں کی آراء پر مبنی حضور انور کا بصیرت افروز خطبہ جمعہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ17؍فروری2023ءبمقام مسجدمبارک، اسلام آباد (ٹلفورڈ)یو.کے

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے کہ 20فروری کا دن جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے اور اس مناسبت سے جماعتوں میں جلسے بھی ہوتے ہیں۔ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰــــۃ والسلام کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت کی تھی جو بہت سی خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت اسے حاصل ہو گی۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق اُس مدت کے اندر جو آپ نے بیان فرمائی تھی بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلیفۃ المسیح الثانی کے مقام پر بھی بٹھایا۔ پھر ایک لمبا عرصہ بعد آپ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ اعلان فرمایا کہ میں ہی مصلح موعود ہوں۔ آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کئے جانے ذہین و فہیم ہونے کے اپنے بھی اور غیر بھی معترف ہیں اور اس کا اعتراف غیروں نے کھل کر کیا ہے۔
علامہ نیاز فتح پوری صاحب جو کہ مشہور اہل قلم ، محقق اور ادیب تھے، ماہنامہ نگار کے مدیر تھے انہوں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ کیا تو حضرت مصلح موعود کو ایک خط میں لکھا: تفسیرِ کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے۔ میں اسے بڑی نگاہِ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ ا س میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحرِ علمی آپ کی وسعتِ نظر آپ کی غیر معمولی فکر و فراست آپ کا حسنِ استدلال اسکے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔ میرے نزدیک یہ اردو میں بالکل پہلی تفسیر ہے جو بڑی حد تک ذہنِ انسانی کو مطمئن کر سکتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس تفسیر کے ذریعہ سے جو خدمت اسلام کی انجام دی ہے وہ اتنی بلند ہے کہ آپ کے مخالف بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے۔وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ۔
پھر جناب اختر اُرینوی صاحب ایم۔اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یکے بعد دیگرے خلیفۃ المسیح الثانی کی تفسیر کبیر کی چند جلدیں پروفیسر عبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج اور حال پرنسپل شبینہ کالج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں تو وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدی کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کیلئے دیں اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا کر انہوں نے اِن کے خیالات دریافت کئے۔ ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی۔ پروفیسر عبدالمنان صاحب نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے؟ شیوخ خاموش رہے۔ کچھ دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہاکہ پٹنہ میں ساری عربی تفسیریں ملتی نہیں ہیں۔ مصر اور شام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا کہ مرزا محمود کی تفسیر کے پائے کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی۔ آپ جدید تفسیریں بھی مصر اور شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے۔ عربی اور فارسی کے علماء جو بیٹھے ہوئے تھے مبہوت رہ گئے۔
مولوی ظفر علی خان نے کہا:احرار یوکان کھول کر سن لو تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے ۔ مرزا محمود کے پاس قرآن کا علم ہے تمہارے پاس کیا خاک دھرا ہے ۔تم میں سے ہے جو کوئی قرآن کے سادہ حرف بھی پڑھ سکے ۔ تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا۔ تم خود کچھ نہیں جانتے تم لوگوں کو کیا بتاؤ گے۔ مرزا محمود کی مخالفت تمہارے فرشتے بھی نہیں کر سکتے۔ مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اسکے اشارے پر اسکے پاؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ تمہارے پاس کیا ہے گالیاں اور بدزبانی۔ تف ہے تمہاری غداری پر۔ پھر لکھتے ہیں کہ مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں مختلف علوم کے ماہر ہیں دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے۔ میں حق بات کہنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ یہ میں ضرور کہوں گا کہ اگر تم نے مرزا محمود کی مخالفت کرنی ہے تو پہلے قرآن سیکھو۔ مبلغ تیار کرو غیر ممالک میں ان کے مقابلے میں تبلیغ اسلام کرو۔ یہ کیاشرافت ہے کہ مرزائیوں کو گالیاں دلوا دیں۔ کیا یہ تبلیغ اسلام ہے۔ یہ تو اسلام کی مٹی خراب کرنا ہے۔
حضور انور نے فرمایا:حضرت مصلح موعودؓکی بعض تقاریر کے متعلق بھی بیان کرتا ہوں۔
اسلام میں اختلافات کا آغاز یہ آپ کا ایک لیکچر ہے جو ماڈرن ہسٹاریکل سوسائٹی کے اجلاس میں اسلامیہ کالج لاہور میں آپ نے دیا۔ ایسا عالمانہ اور تاریخ اسلام پر مکمل عبور رکھتے ہوئے یہ لیکچر تھا کہ بڑے بڑے تاریخ دان بھی خودکو آپ کے سامنےطفل مکتب سمجھنے لگے ۔ اس پہ جو تاثرات ہیں غیروں کے وہ یہ ہیں۔
سید عبد القادر صاحب ایم۔ اے پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور لکھتے ہیں کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے ۔میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصل وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا۔ میرا خیال ہے کہ ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہو گا۔
پھر حضرت مصلح موعود کا ایک خطاب اسلام کے اقتصادی نظام سے متعلق تھا جو لاہور میں احمدیہ ہاسٹل میں ہوا۔ یہ تقریر تقریباً اڑھائی گھنٹے تک جاری رہی۔ اس تقریر کی صدارت مسٹر رامچندر مچندہ صاحب ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور نے کی تھی۔تقریر کے بعد انہوںنے اپنے صدارتی ریمارکس میں کہا کہ :میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی قیمتی تقریر سننے کا موقع ملا اور مجھے اِس بات سے خوشی ہے کہ تحریک احمدیت ترقی کر رہی ہے اور نمایاں ترقی کر رہی ہے۔ جو تقریر اِس وقت آپ لوگوں نے سنی ہے اسکے اندر نہایت قیمتی اور نئی نئی باتیں حضرت امام جماعت احمدیہ نے بیان فرمائی ہیں مجھے اس تقریر سے بہت فائدہ ہوا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے بھی اِن قیمتی معلومات سے فائدہ اٹھایا ہوگا۔ مجھے اس بات سے بھی خوشی ہے کہ اس جلسہ میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی شامل ہیں۔
انہوںنے کہا کہ آج حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ اسلام تمام انسانوں میں مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہے۔ میں غیر مسلم دوستوں سے کہوں گا کہ اس قسم کے اسلام کی عزت و احترام کرنے میں آپ لوگوں کو کیا عذر ہے؟ آپ لوگوں نے جس سنجیدگی اور سکون سے اڑھائی گھنٹہ تک حضرت امام جماعت احمدیہ کی تقریر سنی اگر کوئی یورپین اس بات کو دیکھتا تو حیران ہوتا کہ ہندوستان نے اتنی ترقی کر لی ہے۔
تقریر سننے کے بعد اکثر کی زبان پر تعریفی کلمات تھے ایک کثیر طبقے نے اس بات کا اقرار کیااور کہا کہ اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ آپ موجودہ زمانے میں ہندوستان کے بہترین عالم ہیں۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ علم اقتصاد کے متعلق قرآنی حقائق و معارف کا انکشاف اور یورپ کے اقتصادی فلسفہ کا ردّ آج تک کسی انسان کی طرف سے ایسے رنگ میں پیش نہیں ہوا کہ خود منکرین اسلام ایسے نظام کی فضیلت کا اقرار کرے اور خود اشتراکیت کے حامی اشتراکیت کی خامیاں تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہوں۔ چنانچہ مولوی شیر علی صاحب کا بیان ہے کہ انہوں نے تقریر کے بعد بعض غیر احمدی نوجوانوں کو آپس میں یہ گفتگو کرتے سنا کہ اگر اب بھی تم نے کمیونزم کی تائید کی تو تم پر لعنت ہے۔ اسی طرح ایک پروفیسر صاحب حضور کی تقریر سن کر روپڑے۔
حضور انور نے فرمایا:پھر اسکے ترجمے بھی ہوئے مختلف زبانوں میں۔ چنانچہ سپین کے سپریم ٹریبیونل کے پریذیڈنٹ ایس وائی ڈی جَوس کاسٹن نےاس کا ترجمہ پڑھ کر مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر کو لکھاکہ :میں آپ کے نوازش نامے کا بہت شکرگزار ہوں۔ اسکے ساتھ ایک بہترین کتاب ہے جس کے مطالعہ نے میری طبیعت پر نہایت شاندار اور اعلیٰ تاثرات پیدا کئے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس ملک سپین میں اور اسکے باہر بھاری کامیابی عطا کرے گا۔ کتاب حالات حاضرہ کے متعلق نہایت دلچسپ ہے۔
حضور انور نے فرمایا:پھر ویمبلے کانفرنس تو جماعت کی تاریخ میں کافی مشہور ہے۔ اس میں آپ کا مضمون پڑھا گیا۔ مضمون کے خاتمہ پر پریذیڈنٹ نے مختصر الفاظ میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ :
مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے۔ میں صرف اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب خوبی خیالات اور اعلی درجہ کے طریقِ استدلال کیلئے خلیفۃ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حاضرین کے چہرے زبانِ حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں۔ پھر حضرت صاحب کی طرف مخاطب ہو کر عرض کیا کہ آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارک باد عرض کرتا ہوں آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھا گیا۔
ایک صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئےاور انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ہندوستان میں تیس سال کام کیا ہے اور مسلمانوں کے حالات اور دلائل کا مطالعہ کیا ہے۔ کیونکہ میں ایک مشنری کی حیثیت سے ہندوستان میں رہا ہوں مگر جس خوبی صفائی اور لطافت سے آپ نے آج کے مضمون کو پیش کیا ہے میں نے اس سے پہلے کبھی کسی جگہ بھی نہیں سنا۔ مجھے اس مضمون کو سن کرکیا بلحاظ خیالات کیا بلحاظ ترتیب اور کیا بلحاظ دلائل بہت گہرا اثر ہوا ہے۔
خطبہ کےآخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:اللہ تعالیٰ ہمیں اس علم و عرفان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔