اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-12

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ6؍اکتوبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

 

عصماء اور ابوعفک یہودی کے قتل کا ذکر کسی حدیث میں نہ پایا جانا اور بعض مؤرخین کا اِن کے متعلق خاموش ہونایقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصے بناوٹی ہیں

مگر چونکہ ان واقعات سے آنحضرتﷺ کے خلاف اعتراض کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اس لیے بعض عیسائی مؤرخین نے حسبِ عادت نہایت ناگوار صورت میں اِن کا ذکر کیا ہے

آنحضرت ﷺ نے ان کے قتل کے متعلق کوئی حکم نہیں دیا، آپؐپر یہ الزام ہی غلط ہے اور یہ سب من گھڑت باتیں ہیں جو آپؐکی طرف منسوب کی گئی ہیں


تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
عصماءکے قتل کا واقعہ جو گذشتہ خطبے میں بیان کیا تھا۔ایک دوسرا واقعہ بھی ابو عفک یہودی کے قتل کاہے جومحض ایک من گھڑت کہانی لگتی ہے۔ تفصیل اس طرح ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کون ہے جو میرے لیے اس خبیث سے نپٹ سکتا ہے یا اُس کو مار سکتا ہے۔ یہ شخص بہت بوڑھا تھا۔اس کی عمر 120 برس ہوچکی تھی۔یہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکایا کرتا تھا اور اپنے شعروں میں آپؐ کے خلاف بدزبانی اور گستاخی کیا کرتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر حضرت سالم بن عمیرؓ اٹھے اور نذر مانی کہ یا تو میں اُسے قتل کردوں گا یا اس کوشش میں اپنی جان دے دوں گا۔چنانچہ حضرت سالم بن عمیرؓموقع کی تلاش میں رہے اور ایک رات شدید گرمی میں جب ابوعفک اپنے گھر کے باہر صحن میں سویا ہوا تھا اُس کو قتل کردیا۔
یہ واقعہ بھی کسی معتبر سند سے مروی نہیں ہےبلکہ اس واقعہ میں بھی اندرونی تضادات ہیں۔
ابن سعد اور واقدی کے نزدیک حضرت سالم بن عمیرؓ نے اس یہودی کا قتل کیا جبکہ بعض دیگر روایات میں سالم بن عمیراور سالم بن عبداللہ بن ثابت انصاری کا نام ہے۔قتل کے سبب میں بھی اختلاف ہے۔ ابن ہشام اور واقدی کے نزدیک سالم نے خود جوش میں آکر قتل کیا جبکہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قتل کیا گیا۔ مذہب کا بھی اختلاف ہے۔ابن سعد کے نزدیک ابوعفک یہودی تھاجبکہ واقدی کے نزدیک یہ یہودی نہیں تھا۔پھر زمانہ قتل میں بھی اختلاف ہے۔واقدی اور ابن سعد کے نزدیک یہ واقعہ عصماء بنت مروان کے قتل کےبعد کا واقعہ ہے جبکہ ابن اسحاق اور ابن ہشام کے نزدیک یہ عصماء کے قتل سے پہلے کا واقعہ ہے۔
ان واضح اختلافات سے ظاہر ہےکہ یہ محض جعلی اور بناوٹی واقعہ ہے۔اسی طرح عصماء کے قتل کے بعد جس طرح یہودیوں کا کوئی ردّ عمل ثابت نہیں اسی طرح یہاں بھی یہود کا کوئی رد عمل ثابت نہیں۔ پس ان کا خاموش رہنا اس واقعہ کے فرضی ہونے پر دلیل قاطع ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ان واقعات کا زمانہ جنگ بدر سے قبل یا معاً بعد کا بیان کیا جاتا ہے۔جملہ مؤرخین کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کی پہلی مخاصمت غزوہ بنو قینقاع ہے۔ اگر بدر سے پہلے ہوتا تومؤرخین اس کے ذیل میں ضرور ذکر کرتے اور ان واقعات کے بعد یہودی اعتراض کرسکتے تھے کہ مسلمانوں نے اُن سے چھیڑ چھاڑ میں پہل کی لیکن کہیں یہ ذکر نہیں ملتا کہ مدینے کے یہود نے ان واقعات کو لے کر ایسا سوال اُٹھایا ہو۔
حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں بیان فرمایا کہ جنگ بدر کے حالات کے بعد مؤرخین نے دو ایسے واقعات درج کیے ہیں جن کا کتب حدیث اور صحیح تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا اور درایات پر بھی غور کیا جائے تو یہ درست ثابت نہیں ہوتے مگر چونکہ ان واقعات سے آنحضرتﷺ کے خلاف اعتراض کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اس لیے بعض عیسائی مؤرخین نے حسبِ عادت نہایت ناگوار صورت میں اِن کا ذکر کیا ہےمگر حقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعات درست ثابت ہی نہیں ہوتے۔
اوّل کتب احادیث میں اِن واقعات کا ذکر نہیں پایا جاتا۔دوم جو شخص حدیث اور تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی رکھتا ہے اُس سے یہ بات مخفی نہیں ہوسکتی کہ مسلمان محدثین اور مؤرخین نے کبھی کسی روایت کے ذکر کو محض اس بناپر ترک نہیں کیا کہ اس سے اسلام اور بانی اسلام پر بظاہر اعتراض وارد ہوتا ہے۔
چنانچہ عصماء اور ابو عفک کے واقعات سے ملتے جلتے کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کے قتل کے واقعات حدیث اور تاریخ کی تمام کتابوں میں پوری صراحت اور تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور کسی مسلمان راوی اور محدث یا مؤرخ نے اِن کے بیان کو ترک نہیں کیا۔ اندریں حالات عصماء اور ابوعفک یہودی کا قتل کسی حدیث میں نہ پایا جانا اور بعض مؤرخین کا اِن کے متعلق خاموش ہونا اس بات کو قریباً قریباً یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ قصے بناوٹی ہیں اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پاکر تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔
اگر یہ واقعات درست بھی ہوں تو ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن کے تحت یہ وقوع پذیر ہوئے قابل اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے۔ان ایام میں مسلمانوں کی حالت اُس شخص کی طرح تھی جو ایک ایسی جگہ میں گِھر جاوے جس کے چاروں طرف دُور دُور تک خطرناک آگ شعلہ زن ہو اور اُس کیلئے کوئی راستہ باہر نکلنے کا نہ ہو۔پھر اُس کے پاس وہ لوگ کھڑے ہوں جو اُس کے جانی دشمن ہوں۔مسلمانوں کی ایسی نازک حالت میں اگر کوئی شریراور فتنہ پرداز شخص اُن کے آقا اور سردار کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہہ کہہ کر لوگوں کو اُس کے خلاف اُکساتا اور اُبھارتا تھا تو اُس زمانے کے حالات کے تحت اُس کا علاج سوائے قتل کے اور کیا ہوسکتا تھااور جن حالات میں معمولی قتل بھی قصاص کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ مسٹر مارگولیس جیسا شخص جو عموماً ہر اَمر میں مخالفانہ پہلو لیتا ہے ان واقعات کی وجہ سے مسلمانوں کو قابل ملامت نہیں قرار دیتا۔وہ لکھتے ہیں کہ چونکہ عصماء نے اپنے اشعار میں اگر وہ اُس کی طرف صحیح طور پر منسوب کیے گئے ہیں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کے قتل پراُن کے دشمنوں کو عمداًاُبھارا تھا اس لیے اُس کا قتل خواہ اُسے دنیا کے کسی معیار کے مطابق ہی جج کیا جاوے ایک بے بنیاد اور ظالمانہ فعل نہیں سمجھا جاسکتا۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اشتعال انگیزی کا وہ طریق جو ہجو کے اشعار کی صورت میں اختیار کیا گیا عرب جیسے ملک میں دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتا تھاکیونکہ عربوں میں اشتعال انگیز اشعار کی وجہ سے صرف افراد تک معاملہ محدود نہیں رہتا تھا بلکہ سالم کے سالم قبائل میں خطرناک جنگ کی آگ مشتعل ہوجایا کرتی تھی۔ اسکی جگہ اسلام میں یہ صحیح اصول قائم کیا گیا ہے کہ جرم کی سزا صرف مجرم کو ہونی چاہیے نہ کہ اُس کے عزیزواقارب کو بھی۔
مسٹر مارگولیس کو صرف یہ اعتراض ہے کہ کیوں نہ باقاعدہ اعلان کرکے مجرموں کو سزا دی گئی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ان واقعات کو درست بھی سمجھا جائے تو وہ بعض مسلمانوں کے محض انفرادی فعل تھے جو اُن سے سخت اشتعال کی حالت میں سرزد ہوئےاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا حکم نہیں دیا تھا۔
دوسرے اگر بالفرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی سمجھا جائے تو پھر بھی اُس زمانے کے حالات ایسے تھے کہ عصماء اور ابو عفک کے قتل کے متعلق باقاعدہ ضابطے کا طریق اختیار کیا جاتا اور مقتولین کے متعلقین کو بروقت اطلاع ہوجاتی تو اُس کے نتائج بہت خطرناک ہوسکتے تھےاور اس بات کا اندیشہ تھا کہ یہ واقعات مسلمانوں اور یہودیوں اور مسلمانوں اور مشرکین مدینہ کے درمیان ایک وسیع جنگ کی آگ مشتعل کردیتے۔تعجب ہے کہ مسٹر مارگولیس نے جہاں محض قتل کے فعل کو عرب کے مخصوص حالات کے مطابق جائز قرار دیا ہے وہاں طریقہ قتل کے متعلق اُن کی نظر اُس زمانے کے مخصوص حالات تک کیوں نہیں پہنچی۔ اگر وہ اس پہلو میں بھی حالات کو مدنظر رکھتے تو غالباً اُنہیں یقین ہوجاتا کہ قتل کا طریق صحیح ہےاور اُس وقت کے حالات اور امن عامہ کے مفاد کیلئے مناسب اور ضروری تھا۔
خلاصہ کلام یہ کہ اوّل تو عصماء اور ابو عفک یہودی کے قتل کے واقعات روایتاً اور درایاتاً درست ثابت ہی نہیں ہوتے اور اگربالفرض انہیں درست سمجھا بھی جاوے تو اُ س زمانے کے حالات کے تحت قابل اعتراض نہیں سمجھے جاسکتے۔پھر جو بھی صورت ہو قتل کے یہ واقعات بعض مسلمانوں کے انفرادی افعال تھے جو سخت اشتعال کی حالت میں اُن سے سرزد ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے متعلق کوئی حکم نہیں دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام ہی غلط ہے اور یہ سب من گھڑت باتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔
یہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ ہمیں اُس نے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور ہر بات کو ہم دیکھ کر پرکھ کر اور اُس کی حقیقت کو سمجھ کر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر آنے والا کوئی بھی الزام ہو اُس کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان علماء کو بھی عقل دے جواس قسم کی باتوں کو رائج کرکے صرف اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضور انور نے آخر میں پروفیسرڈاکٹر ناصر احمد خان صاحب آف کینیڈا المعروف پرویز پروازی، مکرم شریف احمد بھٹی صاحب آف ربوہ ،پروفیسر عبدالقادر ڈاہری صاحب سابق امیر جماعت ضلع نوابشاہ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد شریف خان صاحب آف امریکہ کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ تمام مرحومین کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔

…٭…٭…٭…