اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-10-05

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ29؍ستمبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے


غزوۂ بدر کے بعد وقوع پذیر ہونے والے بعض واقعات کا بیان اور توہین رسالت کی سزا سے متعلق ایک مشتبہ روایت پر سیر حاصل بحث


تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جنگ بدر کے بعد کے واقعات کا ذکر ہو رہا تھا۔ ان واقعات سے جہاں ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور زندگی کے متعلق پتا چلتا ہے وہاں بعض تاریخی باتیں بھی علم میں آتی ہیں۔ بعض غلط روایات کی نشاندہی بھی ہوتی ہے جنہوں نے اسلام کا غلط چہرہ غیروں کے سامنے پیش کیا ہے۔
آج جو واقعات مَیں بیان کرنے لگا ہوں ان میں پہلا واقعہ عمیر بن وہب کا ہے۔ یہ جنگ میں شکست کے بعد ناکامی کا بدلہ لینے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کیلئے مدینہ آئے تھے۔
ایک مرتبہ یہ حطیم کے پاس بیٹھے صفوان بن امیہ کے ساتھ جنگِ بدر میں شکست اور سرداران قریش کی ہلاکت کے متعلق باتیں کررہے تھے۔ عمیر نے کہا کہ اگر مجھ پر ایک آدمی کا قرض نہ ہوتا اور مجھے اپنے بعد اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو مَیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کردیتا۔ اس پر صفوان نے دونوں امور اپنے ذمہ لے لیے اور کہا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو نعوذ باللہ قتل کردو۔ عمیر نے اپنی تلوار کو زہر میں بھگویا اور مدینہ روانہ ہوگئے۔ مدینے پہنچ کر مسجد نبوی کے پاس اپنی اونٹنی کو بٹھایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر فرمایا یہ خدا کا دشمن ضرور کسی برے ارادے سے آیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ پیغمبر خدا! عمیر بن وہب ننگی تلوار لیے آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے میرے پاس لے آؤ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے آپ کے پاس لے آئے۔
عمیر نے جاہلیت کے طریق کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمیر! خدا نے ہمیں تمہارے اس جاہلیت کے سلام سے بہتر سلام سکھایا ہے۔
عمیر نے اپنی بات بیان کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اپنے بیٹے کے سلسلے میں آیا ہوں جو آپ لوگوں کی قید میں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس تلوار کا مقصد کیا ہے؟ لیکن عمیر نے دوبارہ یہی کہا کہ مَیں اپنے قیدی کے متعلق بات کرنے آیا ہوں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں! بلکہ تم اور صفوان بن امیہ ایک روز حطیم کے پاس بیٹھے مقتولین بدر کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔ یہ کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو بیان کردی۔ عمیر یہ سب سن کر حیران رہ گیا اور فوراً اسلام قبول کرلیا۔ عمیر نے کہا کہ جب ہم دونوں نے یہ بات کی تب وہاں کوئی تیسرا نہ تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات سوائے اللہ کے کسی نے نہیں بتائی۔ پھر عمیر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مکے واپس جانے اور اہل مکہ کو اسلام کی دعوت دینے کی اجازت چاہی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمائی۔
دوسری جانب صفوان مکہ میں ہر ایک کو کہتا کہ جلد ہی مَیں تمہیں ایک ایسی خوش خبری سناؤں گا کہ تم بدر کا صدمہ بھول جاؤ گے۔ وہ ہر آنے والے سے عمیر کی کارگزاری کے متعلق پوچھا کرتا۔ آخر ایک روز اسے عمیر کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع مل گئی۔ جب عمیر مکہ پہنچے تو وہ سیدھے اپنے گھر گئے اور اہلِ خانہ کو اسلام کی دعوت دی۔ پھر صفوان کے پاس گئے اور اسے اسلام کی حقانیت پر آگاہ کیا۔ صفوان نے عمیر کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا۔
بدر کے بعد بعض لوگ مسلمان ہوئے مگر وہ منافقانہ رنگ رکھتے تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل اوس اور خزرج کے قبائل کا مشترکہ سردار بننے والا تھا۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد یہ ممکن نہ ہوسکا چنانچہ یہ اسلام کے خلاف مخفی سازشیں کرنے لگا۔
بدر سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی کہ بنو سلیم اور بنو غطفان کے لوگ مدینے پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ اطلاع ملتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم اور غطفان کی جانب پیش قدمی کا ارادہ فرمایا اور تین سو صحابہ کرام کے ہمراہ آپ روانہ ہوگئے۔
جب بنو سلیم اور بنو غطفان کو مسلمانوں کی اس اچانک آمد کی خبر ملی تو وہ خوفزدہ ہوگئے اور بھاگ کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جاچھپے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام چند دن وہاں مقیم رہے اور اس دوران کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدِ مقابل آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ چونکہ یہ لوگ جنگ کے ارادے سے آئے ہوئے تھے اس لیے اس دور کے دستور کے مطابق ان کے مال پر قبضہ کرنا جائز تھا۔ پس ایک روایت کے مطابق اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مالِ غنیمت میں پانچ سو اونٹ ملے تھے۔
اس مہم کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ دن مدینہ سے باہر رہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد شوال 2ہجری میں خدا تعالیٰ کے حکم پر مسلمانوں کی پہلی عید الفطر منائی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں عیدوں کے متعلق صحابہ کو فرمایا کہ ان دنوں میں کوئی شخص روزہ نہ رکھے بلکہ کھائے پیئےاور خوشیاں منائے۔
دونوں عیدوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے مشرقی جانب واقع عید گاہ تشریف لے جاتے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسلام کی عیدیں اپنے اندر ایک عجیب شان رکھتی ہیں اور ان سے اسلام کی حقیقت پر بڑی روشنی پڑتی ہے اور یہ اندازہ کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کس طرح اسلام مسلمانوں کے ہر کام کو ذکر الٰہی کے ساتھ پیوند کرنا چاہتا ہے۔
جنگِ بدر کے بعد اور جنگِ اُحد سے پہلے دو مشتبہ واقعات کا بھی ذکر ملتا ہے۔
پہلا واقعہ ایک یہودی عورت عصماء بنتِ مروان کے قتل کا ہے، یعنی اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا قتل کیا گیا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت عمیر بن عدی ایک نابینا صحابی تھے۔ رمضان ۲ ہجری کے آخری ایام تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیرؓ بن عدی کو عصماء بنتِ مروان کی جانب بھیجا کیونکہ وہ اسلام کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ حضرت عمیرؓ رات کے اندھیرے میں اسکے گھر میں داخل ہوئے۔ اس عورت کے ارد گرد اس کے بچے سو رہے تھے اور وہ اپنے ایک بچے کودودھ پلا رہی تھی۔ عمیرؓ نے اسکے سینے پر تلوار رکھی اور اسے قتل کردیا۔ پھر عمیر نے واپس آکر فجر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر بتایا کہ انہوں نے عصماء بنت مروان کو قتل کردیا ہے۔
ایک روایت کے مطابق جب عمیر بن عدی نے عصماء بنت مروان کو قتل کردیا تو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تم ایسے شخص کی طرف دیکھنا چاہو جس نے اللہ اور اسکے رسول کی نصرت کی ہے تو عمیر بن عدی کی طرف دیکھ لو۔
استیعاب میں عمیر بن عدی کے حالات کے تحت لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو بھی قتل کیا تھا کیونکہ وہ آنحضور ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی۔
حضور انور نے فرمایا کہ تاریخ و سیرت کی بعض کتابوں میں یہ واقعہ ملتا ہے مگرصحاحِ ستہ اور حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے کے بعض لوگوں نے اس طرح کے فرضی اور من گھڑت واقعات کو نہ صرف اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے بلکہ توہینِ رسالت کی سزا کے ضمن میں پیش کیا ہے۔
آج کل کے ملاں ایسے واقعات کو لے کر دلیل دیتے ہیں کہ جو توہین رسالت کرے اسے قتل کردو۔ حالانکہ توہین رسالت کی کسی قسم کی کوئی سزا اسلام میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس قسم کے واقعات کی کوئی حقیقت ہے۔
مثلاً اگر اس حدیث کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سند کے لحاظ سے یہ روایت ضعیف ہے بلکہ اسے موضوع بھی کہا گیا ہے۔ درایت کے اعتبار سے بھی اس روایت پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں مثلاً صحابی نابینا ہونے کے باوجود بھی اس عورت کے گھر اکیلے کیسے پہنچے؟ عورت کو رات کے اندھیرے میں کیسے ڈھونڈ نکالا؟ اگر ٹٹول ٹٹول کر پہچانا تو اس کے باوجود بھی کوئی نہ جاگا۔ ٹٹول ٹٹول کر یہ بھی اندازہ لگا لیا کہ وہ عورت بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ پھر یہ کہ مقتولہ نے موت کو سامنے دیکھ کر بھی دفاع یا مزاحمت کی کوشش نہ کی۔ اس عورت کا خاوند وہاں سو رہا تھا اس کو بھی کوئی خبر نہ ہوئی۔ غرض اس طرح کے اور بہت سے سوالات اس روایت کے متعلق پیدا ہوتےہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ شدت پسند ملاں نے اس قسم کے من گھڑت واقعات کو اہمیت دے کر اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بدنام کیا ہے اور یہ ملاں آج کل اسی طرح کی من گھڑت کہانیاں بنا کر احمدیوں کے خلاف بھی شدت پسندی کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو بھڑکاتے رہتے ہیں۔
خطبہ کے اختتام پر حضور انور نے فرمایا کہ دوسرا واقعہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے وہ ان شاءاللہ آئندہ بیان کروں گا۔

…٭…٭…٭…