اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-28

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ22؍ستمبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

غُلِبَتِ الرُّوْمُ۝ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۝

اہل روم مغلوب کئے گئے قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آجائیں گے

یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے،جس طرح یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز یہ پوری ہو گئی ادھر رومی غالب آئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی(حضرت مسیح موعودؑ)

تاریخ روم کے مصنفین کو کیا معلوم کہ اس خونی معرکہ سے دُور ایک پیغمبرانہ ہاتھ رومیوں کی مدد کیلئے دراز تھا اور وہی اس انقلاب اور تغیر کا سب سے بڑا روحانی سبب تھا(ایڈورڈ گبن)


تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
کچھ عرصہ پہلے غزوۂ بدرکے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق میں واقعات بیان کیے تھے۔ آج بدر کے حوالے سے ہی بعض متعلقہ واقعات پیش کروں گا جن کا تاریخ میں ذکر ہے اور جاننا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے خطبات میں ذکر ہوچکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین روز تک میدان بدر میں مقیم رہے اور تیسرے روز آپؐنے سواریوں کے کجاوے کسنے کا ارشاد فرمایا۔
میدان بدر سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ کو مدینے کی جانب بدر کی فتح کی خوشخبری کا پیغام دیتے ہوئے بھیجا۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔
اس فتح نصیب قافلے میں قریش مکہ کے ستر قیدی بھی ساتھ تھے۔کتب تاریخ میں مذکور ہے کہ ان میں سے دو قیدیوں نَضْر بن حارِث اور عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط کو جنگی جرائم کے تحت راستے میں ہی قتل کردیا گیا لیکن اس پر سب تاریخ دانوں کا اتفاق نہیں ہے۔علامہ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام صَفْراء پر پہنچے تو نَضْر بن حارِث کو حضرت علی ؓنے قتل کیاتھا۔ ان کی بہن نے اپنے بھائی کی موت پردردناک اشعار کہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان اشعار کا علم ہوا تو آپؐ بہت روئے اور فرمایا کہ اگر یہ اشعار نَضْر کے قتل سے پہلے مجھ تک پہنچتے تو میں اُس کو معاف کردیتا۔ بعض سیرت نگار اس کی تردید کرتے ہیں اور بعض نضر کے قتل کے واقعہ کی ہی تردید کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
حضرت مرزا بشیراحمد صاحب رضی اللہ عنہ نے سیرت خاتم النبیین میں ذکر کیا ہے کہ بعض مؤرخین نے قید ہونے والے رؤساء میں عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط کا نام بھی بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ حالت قید میں قتل کیا گیا تھا مگر یہ درست نہیں ہے۔حدیث اور تاریخ میں نہایت صراحت کے ساتھ یہ وضاحت آتی ہے کہ عُقْبَہ بن اَبی مُعَیط میدان جنگ میں قتل ہوا تھا اور اُن رؤسائے مکہ میں سے تھا جن کی لاشیں ایک گڑھے میں دفن کی گئی تھیں البتہ نَضْر بن حارِث کا قتل ہونا اکثر روایات سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کے قتل کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو مکہ میں بے گناہ مسلمانوں کے قتل کے براہ راست ذمہ دار تھے لیکن یہ یقینی ہے کہ اگر کوئی شخص قتل ہوا تو وہ نَضْر بن حارِث تھا جو قصاص میں قتل ہوا۔
غزوۂ بدرمیں مشرکین کے بڑے بڑے سرداروں سمیت ستر کفار مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنائے گئے۔صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ نے بدر کے دن ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا یعنی ستر قیدی اور ستر مقتول ہوئے۔
صحابہ کرام ان قیدیوں سے بہت حسن سلوک سے پیش آتے تھے اور ان میں سے کچھ خوش نصیب قیدی ایسے تھے جو اسلام کی تعلیمات اور صحابہ کے اخلاق سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئےتھے۔
بدر کی جنگ کیساتھ ایک تعلق رومی سلطنت کی فتح کا بھی ہے۔ نبوت کے پانچویں سال سے سورۃ روم نازل ہوئی جس میں رومی سلطنت کے غلبہ کی بابت پیشگوئی کی گئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے اطراف میں اس سورۃ کی ان آیات کو پڑھتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ الۗمّۗ۝ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۝ فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ وَہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَيَغْلِبُوْنَ۝ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ۔
یعنی اہل روم مغلوب کئے گئے قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آجائیں گے تین سے نو سال کے عرصہ تک۔
مشرکین مکہ پسند کرتے تھے کہ اہل فارس، اہل روم پر غالب آ جائیں کیونکہ دونوں بت پرست تھے۔ اور مسلمان پسند کرتے تھے کہ اہل روم اہل فارس پر غالب آجائیں اس لئے کہ دونوںاہل کتاب تھے۔ حضرت ابوبکر نے اس کا ذکر مشرکین سے کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کر لو یعنی شرط رکھ لو۔ اگر ہم غالب آ گئے تو ہمارے لئے یہ اور یہ ہو گا اور اگر تم غالب آ گئے تو تمہارے لئے یہ اور یہ ہو گا تو انہوں نے پانچ سال کی مدت رکھی اور ایک روایت کے مطابق چھ سال کی مدت رکھی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر اور ابوجہل کے درمیان شرط لگ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں بِضْعٌ کا لفظ ہے اور بِضْعٌ تو نو برس یا سات برس پر اطلاق پاتا ہے۔ پس مدت کو بڑھا دو۔ پھر انہوںنے ایسا ہی کیا۔ پس اہل روم غالب آ گئے۔
شعبی کہتے ہیں کہ اس وقت شرط لگانا حلال تھا۔ حضور انور نے فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن واقعات کی پیشگوئی کی ہے ان میں ایک صاف اور صریح اور معرکۃ الآراء غلبہ روم کی پیشگوئی تھی۔ عرب کے دونوں اطراف میں روم اور فارس کی حکومتیں قائم تھیں اس وقت تہران کا تاجدار خسرو اور روم کا فرمانروا ہرقل تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میںایک مدت سے معرکہ آرائیوں کا سلسلہ قائم تھا۔ بعثت نبوی کے پانچویں سال 614عیسوی میں ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں میں ایک خونریز جنگ شروع ہو گئی۔ ایرانیوں نے دو طرفہ حملہ کیا۔ ایک طرف تو وہ دجلہ اور فرات کے کنارے سے شام کی طرف بڑھے اور دوسری طرف ایشیائے کوچک کی جانب آذربائیجان سے آرمینیہ ہو کر موجودہ اناطولیہ میں داخل ہو گئے اور دونوں طرف سے رومیوں کو پیچھے ہٹاتے ہٹاتے سمندر میں ان کو دھکیل دیا۔ شام کی سمت میں انہوں نے یکے بعد دیگرے اس ارض مقدس کا ایک ایک شہر رومیوں سے چھین لیا۔ 614 عیسوی میں فلسطین اور اس کا مقدس شہر یروشلم ایرانیوں کے زیر سایہ آ گیا۔ کلیسوں کو مسمار کر دیا گیا۔ مذہبی شعائر کی توہین کی گئی۔ایرانی فتوحات کا سیلاب اس سے آگے بڑھ کر 616عیسوی میں پورے وادی نیل یعنی مملکت مصر پر محیط ہو گیا اور آخر اسکندریہ کے ساحل پر جا کر تھما اور دوسری طرف تمام ایشیائے کوچک کو زیرو زبر کرتا ہوا باسفورس کے ساحل پر جا کر رکااور قسطنطنیہ کی دیواروں سے جا ٹکرایا۔ اور اب رومیوں کے بجائے عراق و شام اور فلسطین و مصر و ایشیائے کوچک کے وسیع علاقوں میں ایرانی حکومت قائم ہو گئی۔ رومی سلطنت کی اس تباہی کو دیکھ کر رومی شہنشاہ کی وسیع مملکت میں بغاوتیں کھڑی ہو گئیں۔ افریقہ میں بھی شورش ہوئی۔ خود قسطنطنیہ کے قریب یورپ میں مختلف قومیں قتل و غارت گری میں مصروف ہو گئیں۔ غرض اس وقت سلطنت روما کے پرزے پرزے اڑ گئے تھے۔جنگ کا نتیجہ جب ایسا خلاف امید ظاہر ہوا تو مسلمانوں کو یقیناً رنج اور کفار کو مسرت حاصل ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ جس طرح ہمارے بھائی غالب ہوئے ہیں اسی طرح اگر تم ہم سے لڑتے تو ہم بھی غالب ہوتے۔ اس وقت رومیوں کی افسوسناک حالت تھی وہ اپنے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک چپہ کھو چکے تھے۔ خزانہ خالی تھا فوج منتشر تھی ملک میں بغاوتیں پیدا تھیں۔ شہنشائے روم ہرقل ہمہ تن عیاش بے پرواہ سست اور مبتلائے اوہام تھا۔ رومی قاصد شہنشائے ایران کے دربار میں مصالحت کا پیغام لے کر گیا تو مغرور خسرو نے جواب دیا کہ خود ہرقل زنجیروں میں بندھا ہوا میرے تخت کے نیچے چاہئے۔ مَیں اس وقت تک صلح نہیں کروں گا جب تک شہنشائے روم اپنے مصلوب خدا کو چھوڑ کر سورج دیوتا کے آگے سر نہ جھکائے گا۔
حضور انور نے فرمایا: یہ تفصیل میں نے اس لئے بیان کی ہے کہ پیشگوئی کی جو شان ہے اس کا پتہ لگے۔ جب رومیوں کی حالت بد سے بدتر تھی تب اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کی کہ :میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ اہل روم مغلوب کئے گئے قریب کی زمین میں اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد پھر ضرور غالب آ جائیںگے۔ تین سے نو سال کے عرصہ تک۔ حکم اللہ ہی کا چلتا ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور اس دن مؤمن بھی اپنی فتوحات سے بہت خوش ہوں گے جو اللہ کی نصرت سے ہو گی۔ وہ نصرت کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ کامل غلبہ والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اس پیشگوئی کا پورا ہونا ناقابل یقین تھا۔مسلمانوں اور کافروں کو بڑی شدت سے واقعات کے پہلو کا انتظار تھا۔
عرب کے نبی امی کی پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور عین اس وقت جب مسلمانوں نے بدر کے میدان میں قریش کو شکست دی رومیوں نے ایرانیوں پر غلبہ حاصل کیا۔ مشرقی مقبوضات کا ایک ایک شہر واپس لے لیا اور ایرانیوں کو بازفورس اور نیل کے کناروں سے ہٹا کر پھر دجلہ و فرات کے ساحلوں کی طرف دھکیل دیا۔ اس عظیم الشان پیشگوئی کی صداقت کے اثر نے دنیا کو محو حیرت کر دیا۔ قریش کے بہت سے لوگ اس صداقت کو دیکھ کر مسلمان ہو گئے اور واقعہ کے ساڑھے بارہ سو برس کے بعد ایڈورڈ گبن اس حیرت ناک پیشگوئی کی سچائی سے متحیر ہو کر کہتا ہے۔
اس حیرت ناک تغیر اور اس کے اسباب کی تفصیل میں تاریخ روم کے مصنفین نے عجیب عجیب باتیں پیدا کی ہیں لیکن انہیں کیا معلوم کہ اس خونی معرکہ سے دور ایک پیغمبرانہ ہاتھ رومیوں کی مدد کے لئے دراز تھا اور وہی اس انقلاب اور تغیر کا سب سے بڑا روحانی سبب تھا۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں : اس فتح کی تکمیل کے بعد ہرقل وہی سست اور عیاش قیصر بن گیا جو پہلے تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دست قدرت نے صرف اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے چند سال کے واسطے اس کے دل و دماغ کو بیدار کیا اور دست و بازو کو ہوشیار کر دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: غور کرکے دیکھو کہ یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے ایسے وقت میں یہ پیش گوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزوراور ضعیف حالت خود خطرے میں تھی نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر یومئذ یفرح المؤمنون کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے چنانچہ جس طرح یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدر کے روز یہ پوری ہو گئی ادھر رومی غالب آئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی۔
خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم فراز عبد الواحد صاحب آف یوکے کا ذکر خیر فرمایا جو عراق الاصل تھے اور 2012ء میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے ۔حضور انور نے نماز جمعہ کے بعد مرحوم کی نماز جنازہ غائب ادا کی۔

…٭…٭…٭…