اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-09-21

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ15؍ستمبر 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی صرف نیک یادیں ہوتی ہیں، جو نافع الناس ہوتے ہیں، جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر
عمل کرنے کا عملی نمونہ ہوتے ہیں، وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے اور خلافت احمدیہ سے حقیقی وفا کرنے والے ہوتے ہیں

محترمہ سیدہ امۃ القدوس صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کا ذکرِ خیراور نمازجنازہ غائب

تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو انسان بھی اس دنیا میں آیا اس نے ایک وقت گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجانا ہے۔ لیکن خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی صرف نیک یادیں ہوتی ہیں، جو نافع الناس ہوتے ہیں، جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے اوراللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کا عملی نمونہ ہوتے ہیں۔وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے اور خلافت احمدیہ سے حقیقی وفا کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ جو حقوق العباد کی ادائیگی کی حتی المقدور کوشش کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کوشاں رہنے والے ہوتے ہیں۔ جن کیلئے ہر زبان سے صرف تعریفی کلمات نکلتے ہیں اور یوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان پر جنت واجب ہوجاتی ہے۔
اس وقت میں ایسے ہی ایک وجود کا ذکر کرنے لگا ہوں، یہ ذکر ہے مکرمہ امۃ القدوس صاحبہ کا جوحضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی بیٹی اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بہو تھیں۔ یہ رہتی تو قادیان میں تھیں، لیکن گذشتہ دنوں اپنی بیٹیوں کے پاس ربوہ آئی ہوئی تھیں جہاں96 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1/9 حصے کی موصیہ تھیں۔
1951ءکے جلسہ سالانہ کے موقعے پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کا نکاح صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے ساتھ پڑھایا تھا۔ رخصتانے کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کی بجائے، لڑکی والوں کی طرف سے شامل ہوئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے مرحومہ کو تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تھا۔ ایک بیٹی امۃ العلیم صاحبہ اس وقت صدر لجنہ پاکستان ہیں، جو مکرم منصور احمد خان صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کی اہلیہ ہیں۔ دوسری بیٹی امۃ الکریم صاحبہ کیپٹن ماجد صاحب کی اہلیہ ہیں۔ تیسری بیٹی امۃ الرؤوف صاحبہ ڈاکٹر ابراہیم منیب صاحب کی اہلیہ ہیں۔ مرزا کلیم احمد ان کے بیٹے ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں۔
صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جب اپنی شادی کے وقت پاکستان آئے ہوئے تھے اور ابھی ان کی شادی کو چند دن ہی ہوئے تھے اور آپ اپنی اہلیہ کو قادیان ساتھ لے کر جانے کیلئے کاغذات تیار کروا رہے تھے،حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا کہ بیوی کے کاغذات تو بنتے رہیں گے تم اسے چھوڑو اور فوری طور پر قادیان واپس چلے جاؤ کیونکہ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا کوئی فرد ہونا چاہئے۔فرمایا فوری طور پر جہاز میں سیٹ بُک کرواؤ اور اگر جہاز نہیں ملتا تو بھی تمہارا جانا ضروری ہے خواہ جہاز چارٹر ہی کیوں نہ کروانا پڑے۔ فرمایا اگر تم نے اپنا نمونہ پیش نہ کیا اور قربانی نہ دی تو لوگ کس طرح قربانی دیں گے۔
جہاں یہ قربانی صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی تھی، وہیں امۃ القدوس صاحبہ کی بھی قربانی تھی۔ یہ پتا نہیں تھا کہ کب کاغذات مکمل ہوں گے، حالات کشیدہ تھے، اس سب کے باوجود خلیفہ وقت کا حکم تھا اس لیے بڑی خوشی سے اپنے خاوند کو رخصت کیا اور دین کو دنیا پر مقدم کیا۔
مکرمہ امۃ القدوس صاحبہ کے کاغذات مکمل ہونے میں تقریباً ایک سال لگا اور جب آپ قادیان جانے لگیں تو آپ فرماتی ہیں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجھے ہدایت کی کہ امِ ناصر کے مکان میں رہنا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کثرت سے قدم پڑے ہیں اور ان کے صحن میں حضور نے درس بھی دیا ہوا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو یہ بھی نصیحت فرمائی کہ لجنہ کی جماعتوں کو اکٹھا کرنا ہے۔ چنانچہ صاحبزادی امۃ القدوس صاحبہ نے قادیان جاکر جماعت کی خواتین کو اکٹھا کرنے اور ان سے ہمدردیاں کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔آپ جاتے ہی جنرل سیکرٹری قادیان بنیں، پھر 1955ء میں صدر لجنہ مقامی اور پھر صدر لجنہ اماء اللہ بھارت بنیں۔1999ء تک آپ اس خدمت پر مامور رہیں۔ آپ کی ان خدمات کا عرصہ46 سال بنتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے لندن پہنچنے کے بعد پہلے خطبہ جمعہ میں یورپ میں اشاعتِ اسلام کے دو مراکز قائم کرنے کیلئے مالی قربانی کی تحریک کا اعلان فرمایا تو مکرمہ امۃ القدوس صاحبہ جو صدر لجنہ بھارت تھیں، آپ کی سربراہی میں لجنہ بھارت نے بڑھ چڑھ کر قربانی کی توفیق حاصل کی۔ آپ نے خود بھی اپنا سارا زیور اس تحریک میں پیش کردیا۔
1991ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ قادیان تشریف لے گئے تو اس موقعے پر آپ رحمہ اللہ نے لجنہ قادیان کی مالی قربانیوں کا بڑے دلکش انداز میں ذکر فرمایا۔ امۃ القدوس صاحبہ نے قرآن کریم کی بڑی خدمت کی۔ قادیان کی 250 بچیوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ بھارت میں جن بچیوں نے ایف اے وغیرہ کیا ہوتا وہ تین تین ماہ کیلئے قادیان آکر رہتیں اور آپ انہیں ترجمہ قرآن پڑھاتیں۔ آپ نے لجنہ کو بڑی محنت سے منظم کیا۔ مہمان نوازی کا بڑا غیر معمولی وصف تھا۔ آپ کی بیٹی کہتی ہیں کہ آپ نے ہمارے ابا کا بڑا ساتھ دیا۔ بڑے غریبانہ حالات تھے، دوپہر میں صرف مونگ کی دال ہوتی تھی، ابا نے دودھ دہی کیلئے ایک بھینس رکھی ہوئی تھی، کوئی مہمان آتا تو جو کچھ میسر ہوتا آپ بلا تکلف پیش کردیتیں۔
آپ ایک اچھی بیوی تھیں، مشکل حالات میں ساتھ دینے والی تھیں۔ کبھی کوئی مطالبہ نہ کرتیں۔ جو بھی گزارا ملتا خوشی سے اسی میں گزارا کرتیں۔ صفائی پسند، اور بڑی سلیقہ شعار خاتون تھیں۔ جب مرزا وسیم احمد صاحب اعتکاف بیٹھتے تو ان کے ساتھ غریب معتکفین کو بھی کھانا بھجواتیں۔
آخری عمر میں آپ کی بینائی ختم ہوگئی تھی اور آلے کے ساتھ بڑی مشکل سے شنوائی ممکن ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود بڑی خوشی سے زندگی بسر کی۔ جب حال پوچھا جاتا ہمیشہ الحمدللّٰہ کہا کرتیں۔ لوگوں کی خوشی میں اورغم کے مواقع پر باوجود بیماری کے ہمیشہ شامل ہوا کرتیں۔ قادیان کی بچیوں کو سلائی سکھاتیں۔ آپ نے قادیان میں سب کے ساتھ مل جل کر رہنے کا ایک کلچر پیدا کردیا تھا۔
2005ء میں ربوہ میں لجنہ نے سرائے مسرور کی عمارت کی تعمیر کی تو آپ نے اپنے خاوند کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی رقم پیش کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد رتن باغ لاہور اور پھر ربوہ کے کچّے گھروں میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کو قرآن کریم اور ملفوظات سنانے کی توفیق ملتی رہی۔
اپنے بچوں کو نماز اوّل وقت میں ادا کرنے کی نصیحت فرماتیں۔ بہت سی بچیوں کو آپ نے پالا۔ ان کی بہترین تربیت کی اور پھر ان کی شادیاں کروائیں۔ زمانہ درویشی میں جبکہ مالی حالات بہت کمزور تھےکسی درویش کی بیٹی کی شادی ہوتی تو آپ اپنا زیور اسے پہننے کیلئے دے آتیں کہ جب تک دل کرے اسے پہنو، پھر کسی دوسری بچی کی شادی ہوتی تو زیور اسے دے دیا جاتا۔اس طرح بہت سی بچیوں نے آپ کے زیور سے استفادہ کیا۔ لوگ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے اور آپ بڑی دیانت داری سے سب امانتوں کا خیال رکھتیں۔ بہت سی بچیوں کو سلیقہ شعاری سکھائی، ان کے جہیز تیار کیے، درویشوں کی بیوگان کو عیدی دینے خود جایا کرتیں۔
آپ کے سامنے کسی کے عالی شان گھر کے متعلق ذکر ہوا تو آپ نے کہا کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ سے ایک بات کی ہے کہ تُو نے مجھے قادیان میں اس برکتوں والے گھر میں رہنے کا موقع دیا، میرے لیے یہ کافی ہے۔ ہاں! جنت میں میرے لیے ضرور ایک عالی شان گھر بنانا۔ تہجد کی نماز کا بہت اہتمام کیا کرتیں۔ جب تک روزے کی طاقت تھی روزے رکھتی تھیں۔ رمضان المبارک میں نمازوں کیلئے مسجد جایا کرتیں۔ خلافت سے بہت محبت تھی، خلیفہ وقت کو بڑی عقیدت سے خط لکھا کرتیں۔ خلیفہ وقت کی طرف سے خوشنودی کا اظہار ہوتا تو بڑی خوشی سے اسکا اظہار فرمایا کرتیں۔1991ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورے کے موقعے پر اپنے ہاتھوں سے کمرے اور گھر کو درست کیا۔ اسی طرح 2005ء میں جب مَیں نے دورہ کیا اس وقت بھی خود ہمارے کمرے کو سیٹ کروایا۔ بڑے اخلاص اور وفا کے ساتھ ہر کام کرنے والی تھیں۔
آپ کے بیٹے کہتے ہیں کہ زیادہ تر مہمان دارالمسیح میں قیام کیا کرتے تھے اور ہماری والدہ گیارہ بارہ سال کے بچوں کو خود ٹریننگ دیتیں کہ کس طرح کمروں میں مہمانوں کی ضروریات کا خیال رکھنا ہے۔ سرکاری عہدےداروں کی بیگمات کو بھی جماعت کا تعارف کروایا کرتی تھیں۔ غربا کا بڑا خیال رکھا کرتیں۔
صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی وفات کے بعد دس سال قادیان میں رہیں۔ پھر جب طبیعت خراب ہونا شروع ہوئی تو ان کی بچیاں انہیں ربوہ لے آئیں۔ ربوہ میں علاج ہوتا رہا لیکن اس کے باوجود یہی کہا کرتیں کہ مَیں نے خلیفہ وقت کی اجازت کے بغیر لمبا عرصہ قادیان سے باہر نہیں رہنا۔ اس لیے جب تک اجازت نہیں ملتی مَیں چند دن سے زیادہ نہیں رکوں گی۔ مجھے انہوں نے لکھا تھا تو مَیں نے یہی جواب دیا کہ آپ جتنا عرصہ رہنا چاہیں رہ سکتی ہیں۔
بہت سے غیر مسلم بھی آپ کے جنازے میں شامل ہوئے۔ قادیان کے لوگ آپ سے اور آپ قادیان کے لوگوں سے بڑی محبت کرتی تھیں۔ قادیان کی عورتوں کے بڑے خطوط آئے ہیں جنہوں نے بڑی محبت سے آپ کا ذکر کیا ہے ۔
خلافت سے آپ کا بڑا اخلاص کا تعلق تھا۔ عاجزی اور کامل وفا کا جس طرح انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے اظہار کیا تھا وہ تعلق جاری رہا اور مجھ سے بھی وہی تعلق قائم رہایہ ایک مثال ہے۔ یہاں بھی مجھے ملیں تو انتہائی ادب و احترام سے،2005ء میں قادیان گیا تو فکر کے ساتھ مہمان نوازی کی۔ ہر ملاقات پہ بڑی خوشی کا اظہار کرتیں جو چہرے سے عیاں ہوتی تھی۔ 2005ء میں باوجود طبیعت کی خرابی کے قادیان سے واپسی کے سفر میں دہلی تک آئیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
قادیان کے لوگوں کو انہوں نے جس محبت سے رکھا اللہ تعالیٰ انہیں یہ توفیق دے کہ وہ آپس میں بھی اسی محبت سے رہیں۔ اب قادیان میں خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا براہِ راست رشتے اور تعلق والا تو کوئی موجود نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ ایسے حالات ہو جائیں کہ کوئی وہاں جاسکے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔
خطبہ جمعہ کے آخر پر حضور انورنے فرمایاکہ ایک جنازہ حاضر بھی ہے جو مکرم محمد ارشد احمدی صاحب یوکے کا ہے۔حضور نے آپ کی جماعتی خدمات اور اوصاف حمیدہ کا تذکرہ فرمایا۔
حضور انور نے فرمایا:ایک اَورجنازہ غائب ہے جو مکرم احمد جمال صاحب افریقن امریکن کا ہے۔حضور انور نے آپ کا بھی ذکر خیر فرمایا۔

…٭…٭…