اردو   हिंदी   বাংলা   ಕನ್ನಡ   മലയാളം   ଓଡ଼ିଆ   தமிழ்   తెలుగు  




2023-06-22

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ16؍جون 2023ءبمقام مسجدمبارک (اسلام آباد)یو.کے

بدر کیلئے کوچ کرتے وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کیلئے یہ دعا کی کہ :

اَے اللہ یہ ننگے پاؤں ہیں ان کو سواریاں عطا فرما اور یہ ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کر دے،یہ تنگدست ہیں انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے

جنگ بدر کے حوالہ سے سرکار دو عالم سیّدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا دلنشین وایمان افروز تذکرہ

 

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
کفار مکہ کی جنگ کیلئے تیاری کے کچھ حالات بیان ہوئے تھے۔ اس بارے میں مزید تفصیل اس طرح ہےکہ جب جنگ کی تیاری ہو رہی تھی امیہ بن خلف اور ابو لہب نے جنگ میں جانے میںکچھ تامل کیا۔ مکہ کا ایک سردار عقبہ بن ابو معیط امیہ کے پاس آیا اور اس کے پاس خوشبو دان اور دھونی رکھ کر بولا کہ تم یہ عورتوں والی خوشبو کی دھونی لو کیونکہ تم بھی عورتوں میںسے ہو تمہارا جنگ سے کیا کام۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ابوجہل امیہ کے پاس آیا اور اس کو کہا کہ تم مکہ کے سردار اور معزز لوگوں میں سے ایک ہو۔ اگر لوگوں نے تمہیں جنگ سے پیچھے ہٹتا ہوا دیکھ لیا تو وہ بھی رک جائیں گے۔ اس لئے ہمارے ساتھ ضرور نکلو چاہے ایک دو دن کی مسافت تک چلو اور اس کے بعد واپس آ جانا۔ دراصل امیہ جنگ پر جانے سے اس لئے خائف تھا کہ اس کے قتل کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرما رکھی تھی اور اس کو اس پیشگوئی کا علم تھا۔امیہ بن خلف نے اپنے قتل کی پیشگوئی حضرت سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ کے منہ سے سنی تھی جبکہ سعد ایک موقع پر مکہ تشریف لائے تھے۔پیشگوئی سن کر امیہ اوراسکی بیوی دونوں نے یہی کہا اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو جھوٹی بات نہیں کہا کرتے۔ یہ وہ پیشگوئی تھی جس سے امیہ خوفزدہ تھا اور مسلمانوں سے جنگ کیلئے نہیں جانا چاہتا تھا۔
اسی طرح ابولہب بھی جنگ پر جانے سے خوفزدہ تھا اور اس نے اپنی جگہ ایک آدمی کو روانہ کیا تھا اور خود جنگ پر نہیں گیا تھا۔ اس کے جنگ پر نہ جانے کی وجہ عاتکہ بنت عبدالمطلب کا خواب تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ عاتکہ کا خواب ایسے ہی ہے جیسے کوئی چیز ہاتھ سے لے لی جائے۔یعنی خواب یقینی اور پوری ہوکر رہنے والی ہے۔
تین دن کی تیاری کے بعد ایک ہزار سے زائد جانباز سپاہیوں کا لشکر مکہ سے نکلنے کوتیار ہو گیا۔مکہ سے نکلنے سے پہلے قریش نے کعبہ میں جا کر دعا کی کہ اے خدا ہم دونوں فریقوں میں سے جو گروہ حق پر قائم ہے اور تیری نظروں میں زیادہ شریف اورزیادہ افضل ہے تُواس کی نصرت فرما اور دوسرے کو ذلیل اور رسوا کر۔ اس کے بعد کفار کالشکر بڑے جاہ وحشم کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔ ان کے پاس ایک سواور بعض کے نزدیک دو سو گھوڑے ،سات سو اونٹ چھ سو زرہیں اور دیگر سامان جنگ مثلاً نیزہ اور تلوار اور تیر کمان وغیرہ کافی تعداد میں موجود تھا۔
ابوسفیان کی سرکردگی میں شام سے جوتجارتی قافلہ آرہاتھا ابو سفیان اُسے راستہ بدل کر بچتے بچاتے مکہ لے گیا تھا اور مکہ پہنچ کر اس نے ابوجہل کو پیغام بھیجا کہ جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ابوسفیان کا پیغام سن کر ابوجہل نے کہا بخدا ہم ہرگز واپس نہیں جائیں گے۔ بنو زہرہ اور بنوع عدی بن کعب سے بھی کوئی آدمی جنگ کیلئے نہ گیا اورسب کے سب واپس ہو گئے۔ باقی لشکر جو کہ اب تیرہ سو سے کم ہو کر قریباً ایک ہزار رہ گیا تھا اس نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ انہوںنے بدر کے قریب ایک ٹیلے کے پیچھے جاکر ڈیرہ ڈال لیا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ سے روانگی اور مسلمانوں کی لشکر کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بارہ رمضان دو ہجری بروز ہفتہ مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ 313 افراد تھے جن میں چوہتر مہاجرین اور باقی انصار تھے۔ ایک روایت میںذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو گنتی کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے گنتی کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ تین سو تیرہ ہیں تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا طالوت کے ساتھیوں جتنے ہیں۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ بعض گزشتہ پیشگوئیوں کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ مثلاً صحابہ کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور بائبل میں یہ پیشگوئی موجود تھی کہ جو واقعہ جدعون کے ساتھ ہوا تھا وہی واقعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ پیش آئے گا اگر صحابہ کو معلوم ہو جاتا کہ آنحضرت ﷺجنگ کیلئے مدینہ سے نکل رہے ہیں تو وہ سارے کے سارے نکل آتے اور ان کی تعداد تین سو تیرہ سے زیادہ ہو جاتی۔ اِسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اس امر کو مخفی رکھا تا کہ صحابہ کی تعداد تین سو تیرہ سے زیادہ نہ ہونے پائے کیونکہ تین سو تیرہ صحابہ کا جانا ہی پیشگوئی کو پورا کر سکتا تھا ۔
ایک خاتون تھیں ام ورقہ بنت نوفل۔ ان کے جذبہ جہاد کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جانب روانہ ہونے لگے تو حضرت ام ورقہ نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی جہاد پر جانے کی اجازت دیں میں آپ کے ساتھ بیماروں کی تیمار داری کروں گی شاید اللہ مجھے بھی شہادت نصیب فرما دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے گھر میں ہی ٹھہری رہو تمہیں اللہ تعالیٰ شہادت نصیب کرے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکا نام شہیدہ رکھ دیا تھا چنانچہ عام مسلمان بھی انہیں شہیدہ ہی کہنے لگے تھے۔ حضرت عمر کے دور خلافت میں حضرت ام ورقہ کے ایک غلام اور لونڈی نے انہیں ایک چادر میں لپیٹ کر بیہوش کر دیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئیں۔ اس غلام اور لونڈی کے بارے میں انہوں نے وصیت کر رکھی تھی کہ میری وفات کے بعد آزاد ہوں گے۔ قاتلوں کو حضرت عمر کے حکم پر پھانسی دے دی گئی۔ حضرت عمر نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میرے ساتھ چلو شہیدہ سے مل کر آئیںاور جب آنحضرتﷺ اس کے گھر جاتے تھے حضرت عمر وغیرہ کو بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
اسلامی لشکر کی قوت کی تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ مسلمانوں کے پاس گھوڑوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ پانچ تھی ۔ ساٹھ زرہیں تھیں اور اونٹوں کی تعداد ستر یا اسّی تھی جن پر سب باری باری سوار ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اور حضرت مرصد بن ابو مرصد ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدل چلنے کی باری آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھیوںنے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کی باری میں پیدل چلتے ہیں اور آپ سوار ہی رہیں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور نہ ہی میں تم دونوں کی نسبت اجر و ثواب سے بے نیاز ہوں۔ راستے میں ایک مقام سے کوچ کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کیلئے یہ دعا کی کہ اے اللہ یہ ننگے پاؤں ہیں ان کو سواریاں عطا فرما اور یہ ننگے بدن ہیں انہیں لباس عطا فرما یہ بھوکے ہیں انہیں سیر کر دے۔ یہ تنگدست ہیں انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔ چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور غزوہ بدر سے واپس آنے والوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ اگر اس نے سواری پر جانا چاہا تو اس کو ایک دو ایسے اونٹ نہ مل گئے ہوں جنہیں وہ استعمال کر سکے۔ اسی طرح جن کے پاس کپڑے نہیں تھے انہیں کپڑے مل گئے اور سامان رسد اتنا ملا کہ کھانے پینے کی کوئی تنگی نہ رہی۔ اسی طرح جنگی قیدیوں کی رہائی کا اس قدر معاوضہ ملا کہ ہر خاندان دولتمند ہو گیا۔
بعض کم عمر مجاہدین تھے جن کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےواپس جانے کا حکم دیا۔اس تعلق میں ایک نہایت ایمان افروز واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
آج وہ زمانہ آیا ہے کہ لوگ اسلام اور ایمان کیلئے قربانی سے بچنے کیلئے عذر اور بہانے تلاش کرتے ہیں اور وقت آنے پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دقت ہے اور وہ روک ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے ماتحت مسلمانوں میں قربانی کاایسا جذبہ پیدا ہو چکا تھا کہ مرد اور بالغ عورتیں تو الگ رہیں بچے بھی اس جذبے سے سرشار نظر آتے تھے ۔ بدر کی جنگ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو بلایا تا کہ آپؐان لوگوں کا انتخاب کریں جو جنگ کے قابل ہوں۔ اس وقت ایک لڑکے کے متعلق آتا ہےکہ جس وقت لوگ کھڑے ہوئے وہ لڑکا بھی اس جوش میں کہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے کا موقع ملے ان میں کھڑا ہو گیا۔ مگر چونکہ قد چھوٹا تھا اس لئے وہ اپنے انگلیوں کے بل کھڑا ہو گیااور ایڑھیاں اوپر اٹھا لیں تا قد اونچا معلوم ہو اور چھاتی تان لی تا کہ کمزور نہ سمجھا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پندرہ سال سے کم عمر کا کوئی لڑکا نہ لیا جائے اور جب آپ انتخاب کرتے ہوئے اسکے پاس پہنچے تو فرمایا کہ یہ بچہ ہے اسے کس نے کھڑا کر دیا ہے اسے ہٹا دو۔ اگر آج ایسا ہوتا تو شاید ایسا بچہ خوشی سے اچھلنے لگتا کہ میں بچ گیا لیکن جب اس بچے کو الگ کیا گیا تو وہ اتنا رویا اتنا رویا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحم آ گیا اور آپ نے فرمایا اچھا اسے لے لیا جائے۔چنانچہ یہ بچہ جنگ میں شریک ہوا اور جامِ شہادت نوش کیا ۔ اس کا نام عمیر بن ابی وقاص تھا۔
مشرک کی مدد لینے سے انکار کے بارے میں لکھا ہے کہ مدینہ میں حبیب بن یساف نامی ایک نہایت طاقتور اور بہادر شخص تھا یہ شخص قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتا تھا اور غزوہ بدر کے موقع تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر یہ بھی اپنی قوم خزرج کے ساتھ جنگ کیلئے روانہ ہوا اور جنگ جیتنے کی صورت میں اس کو مال غنیمت ملنے کی بھی امید تھی۔ مسلمانوں کو اس سے بہت خوشی ہوئی کہ یہ بھی ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہو رہا ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی جنگ میں جائے گا جو ہمارے دین پر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم واپس جاؤ ہم مشرک کی مدد نہیں لینا چاہتے۔ حبیب بن یساف دوسری مرتبہ پھر رسول کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری مرتبہ بھی اسے واپس بھیج دیا۔ آخر تیسری مرتبہ جب وہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو اس نے کہا ہاں اور اس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور نہایت بہادری کے ساتھ جنگ لڑی۔
خطبہ کے آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نماز جنازہ حاضر اور چارنماز جنازہ غائب پڑھنے کا اعلان فرمایا۔ مکرم شیخ غلام رحمانی صاحب آف یوکے ،کا جنازہ حاضر تھا اور مکرم طاہر آگ محمد صاحب آف مہدی آباد ڈوری برکینا فاسو ، مکرم خواجہ داؤد احمد صاحب ، مکرم سید تنویر شاہ صاحب آف سسکاٹون کینیڈااور مکرم رانا محمدظفر اللہ خان صاحب مربی سلسلہ کے جنازے غائب تھے۔ حضور انور نے تمام مرحومین کے اوصاف حمیدہ بیان فرمائے اور نماز جمعہ کے بعد نماز جنازہ حاضر کے ساتھ نماز جنازہ غائب ادا کی۔

٭٭