تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ گزشتہ ہفتہ کامیابی سے منعقد ہوا۔سب سے پہلے تو ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ہمیں ایک وقفہ کے بعد وسیع پیمانے پر عام حالات کے مطابق جلسہ منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
انتظامیہ اور شاملین جلسہ کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناچاہئے۔ کارکنوں کو بھی شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کےمہمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔اس وسیع انتظام میں بہت سی جگہوں پر کمیاں رہ گئی ہونگی بعض مہمانوں کوبھی تکلیف برداشت کرنی پڑی لیکن چونکہ دینی مقصد کیلئےآئے تھے اس لیے انہوں نےکوئی شکایت نہیں کی لیکن مجھے پتا چلاکہ بعض انتظامات صحیح نہیں تھے۔
کارکنوں نے توبہت محنت سے اپنے فرائض انجام دیے۔جہاں اُن کی یا شعبہ میں کوئی کمزوری ظاہر ہوئی تو وہ اُن کے افسران کی طرف سے غلط ہدایات کی وجہ سے ہوئی۔جہاں مہمانوں کو تکلیف پہنچی وہاں افسران ذمہ دار ہیں۔ استغفار کرنا چاہئےاورآئندہ کیلئے سُرخ کتاب میں لکھ کر اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔لوگ یہاں جلسہ سننےآتے ہیں اگر سُنانے کا انتظام صحیح نہیں تو پھر جلسہ کافائدہ کیاہے؟ باقی انتظامات میں کمیاں برداشت ہوجاتی ہیں لیکن جلسہ سُننے کے انتظامات میں کوئی کمی برداشت نہیں ہوسکتی۔
حضور انور نے فرمایا : جلسہ گاہ میں اگر لوگ باتیں کررہے تھے تو تربیت کی کمی ہےاور مشنری انچارج اور مربیان اس کے ذمہ دار ہیں کہ کیوں سارا سال تربیت نہیں کرتے۔ لوگوں کو الزام نہ دیں۔احمدی کو توجہ دلائی جائے تو وہ عموماً مثبت رد عمل دکھاتا ہے۔اس مرتبہ عورتوں میں مردوں کی نسبت بہتر ڈسپلن تھا۔ مردوں کے شعبہ تربیت کو اپنی فکرکرنی چاہئے۔
ترقی کرنے والی قومیں اپنی کمزوریوں پرنظر رکھیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں۔سب اچھا ہے کہہ کر ترقی کے راستے بندنہ کریں اور نہ اس میں شرم کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ شعبہ جات کے افسران کواپنی اصلاح کی توفیق دے۔ان سب کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ کاہم پر یہ احسان ہے کہ اُس نے ہماری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمائی اورجلسہ پر آئے ہوئے مہمانوں نے عموماًبڑا اچھا اثر لیاہے۔ مہمانوں نے غیر معمولی تأثرات دیے۔ جماعت جرمنی کواللہ تعالیٰ کابہت شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے اس جلسہ کی وجہ سے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
حضور انور نے مہمانوں کے تاثرات پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ بلغاریہ کی ایک عیسائی خاتون ویرونیکا صاحبہ جو وکیل اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں کہتی ہیں کہ ایسابہترین جلسہ منعقدکیاگیا کہ کسی چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی نہیں دیکھی۔مجھے اس تقریب نے رُوحانی طور پر بحال کیا۔بلغاریہ کی ایک اورعیسائی خاتون نتالیہ کہتی ہیں کہ یہ جلسہ میرے ذہن میں نقش رہے گا۔ پہلی بار ہزاروں مسلمانوں کو ایک ساتھ عبادت کرتے دیکھا۔تمام لوگ مسرت کے ساتھ پیش آئے۔ خلیفہ وقت کی تقریر بہت متاثر کن تھی۔
مقدونیہ کی ایک عیسائی صحافی کہتی ہیں کہ جلسے کی تنظیم بہت اعلیٰ سطح پر تھی۔ میرے لیے بڑا اعزاز ہے کہ میں ایک ایسے جلسے میں شامل ہوئی جس میں مختلف مذاہب اور قوموں کے لوگ شامل تھے۔مقدونیہ ہی کے ایک اور صحافی کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے مختلف موضوعات پر خطابات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ بہت سے احمدی مسلمانوں سے بات کرنے کاموقع ملا۔بڑی محبت اور مسکراہٹ سے بات کرتے تھے۔محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں کاعملی نمونہ دیکھااور اسی موٹو سے دنیامیں امن ہوسکتا ہے۔
سلواکیہ کی ایک خاتون ٹیچر مارٹینا صاحبہ کہتی ہیں کہ مہمان نوازی کاایسانمونہ کبھی نہیں دیکھا۔ بیعت اور نمازکے دوران اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکی۔ سلواکیہ کے ایک اورمہمان کہتے ہیں کہ جلسے سے قبل اسلام کے بارے میں کچھ پتانہیں تھا۔ جلسے میں شامل ہوکرمجھے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کاعلم ہوا۔ احمدیوں نے بڑے لگن اور جوش سے مہمانوں کی خدمت کی۔ سلواکیہ کے ایک اور مہمان کہتے ہیں کہ مجھے احمدیوں کے اخلاق اور مہمان نوازی نے بہت متاثرکیاہے۔احمدی اپنے مذہب پرعمل کرنے والے ہیں۔البانیہ کے ایک مہمان پروفیسر ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جلسہ بہت عظیم الشان تھا۔اس جلسہ میں دیکھاکہ خلافت ہی آپ کے اتحاد کی وجہ ہے۔
بوسنیاسےتاریخ کے پروفیسر حارث صاحب کہتے ہیں کہ جلسے میں ہرچیزکی منصوبہ بندی تھی۔بہت اچھا انتظام تھا۔خلیفہ وقت کی پہلی تقریر سے میرا ذہن صاف ہوگیا تھا۔ اُن سے ملاقات نے میرے ذہن پربہت مثبت اثر چھوڑا اور مجھے انتہائی سکون ملا۔بوسنیاسے ریڈ کراس کی سیکریٹری اندرا حیدر صاحبہ کہتی ہیں کہ خلیفہ وقت سے ملاقات بڑی پرمسرت رہی۔خلافت نے دنیابھر کے احمدیوں کوایک لڑی میں پرویا ہوا ہے۔مجھے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہوا۔
جارجیا کی ایک خاتون کہتی ہیں کہ پہلی بار جلسہ دیکھنے کوملا۔ چھوٹے بڑے جانفشانی سے کام کررہے تھے۔عالمی بیعت کودیکھ کرجذبات پرکنٹرول کرنامشکل تھا۔جماعت کے خلیفہ نےقلمی جہادکا تصور ہمارے سامنے رکھا جس کی سو فیصد تصدیق کرتی ہوں۔میرا پختہ یقین ہے کہ دنیامستقبل میں اسلام کے بارے میں غور وفکرکرے گی اور اس کے ذریعہ خدا کو پہچاننے والے بنیں گے۔
جارجیا کے ایک سنی سکالر کہتے ہیں کہ عیسائیت چھوڑ کراسلام قبول کیا، مدینہ منورہ میں رہا۔سُنا تھا کہ احمدی ہمیں کافر کہتے ہیں اور ان کاعقیدہ مختلف ہے۔جلسے میں جماعت کوقریب سے دیکھا،خلیفہ کے خطابات کوغور سےسُنا آپ لوگوں کوکافر کہنا غلط ہے۔جلسے کے تین دنوںمیں میرے تمام سوالوں کےجوابات ملے۔
کوسوو وسےآنے والے ایجوکیشن ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ جلسہ کے دنوں میں خطابات سنےجومیرے ذہن پرنقش رہیں گے۔ مہمان نوازی کا تجربہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ رہےگا۔ کوسووکے مئیر کہتے ہیں کہ اس غیرمعمولی جلسہ میں اتحاداوربھائی چارے کےمناظر نے میرے ذہن پرگہرااثر چھوڑا ہے۔ خلیفہ وقت کی تقریر متاثر کن تھی۔مہمان نوازی حیرت انگیزتھی۔
کیمرون کے ایک چیف امام صاحب کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ اتنے بڑے پروگرام میں شامل ہواہوں۔حیرانی کی بات ہے کہ مختلف رنگوں کے لوگ ایک فیملی کی طرح ملے۔امام جماعت کے خطابات پُر حکمت اوراسلامی تعلیمات کےعکاس تھے۔ اگر ہم اس پرعمل کریں تو زندگی جنت بن جائے۔
لتھوانیاکی ایک خاتون ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پراسلامی اصول کی فلاسفی کالتھوانین زبان میں ترجمہ کیا ہے کہتی ہیں کہ جلسہ سالانہ نے مجھے شاندار موقع دیاکہ جماعت کو پرکھ سکوں۔ جماعت احمدیہ اپنے ماٹو پرحقیقی رنگ میں عمل پیرا ہے۔
ترک خاتون ٹیچر یاسمین صاحبہ جو جرمنی میں رہتی ہیں کہتی ہیں کہ خلیفہ وقت کا خطاب میرے سوالوں کاجواب تھا۔ جلسے کاماحول مجھے بہت پسندآیا۔ اتنے زیادہ لوگوں کاجمع ہونا اور محبت کی لڑی میں پروئے ہوناایک غیرمعمولی اورحیران کن بات تھی۔سربیاکے ایک جرنلسٹ کہتےہیں کہ جلسہ میں آپ کے حسن انتظام نے حیران کردیا۔ نہ انتظامیہ میں اور نہ ہی چالیس ہزار افرادمیں کوئی برائی نظر آئی۔سربیاکی ایک اور جرنلسٹ خاتون کہتی ہیں کہ میرے دل میں منتظمین اور شاملین کیلئے محبت کے جذبات ہیں۔خلیفہ کے خواتین کی طرف خطاب نے بہت متاثر کیا۔
ایک جرمن عیسائی کیتھولک ٹی وی کے نمائندے کہتے ہیں کہ خلیفہ کاخطاب متاثر کن تھا۔خطاب ایساتھا کہ محض سن لینا کافی نہیں غور وفکر کرناچاہئے۔ ایک جرمن خاتون جوجلسہ میں احتراماً دوپٹہ اوڑھ کر بیٹھی رہیں کہتی ہیں کہ دوران خطاب میرے دل پر اتنااثر ہواکہ میری آنکھیں نم ہوگئیں۔خلیفہ کی باتیں دل کو چُھو لینے والی تھیں۔
جلسہ جرمنی میں میڈیا کوریج اچھی ہوئی۔ چار ٹی وی چینلزکے ذریعہ اکتالیس ملین،گیارہ اخبارات کے ذریعہ پچاس ملین پانچ ریڈیواسٹیشنز کے ذریعہ چودہ ملین اور آن لائن کے ذریعہ دوملین لوگوں تک خبر پہنچی۔ان کا خیال ہے کہ اس طرح ایک سوآٹھ ملین لوگوں تک جلسہ کی کوریج پہنچی ہے۔اللہ تعالیٰ بہرحال اس کے بہتر نتائج پیدا کرے۔
لوگوں کےجو چند ایک تاثرات بیان کیے ہیں اللہ تعالیٰ کاشکر اور احسان ہے کہ وہ ہماری پردہ پوشی فرماتا ہے۔مختلف مساجدکے افتتاح پر بھی لوگوں نے مثبت اظہار کیے کہ اسلام کے بارے میں ہماری رائے بدل گئی ہے۔شکوہ بھی کیاکہ ہمارے واقف احمدیوں نے ہمیں اسلام کی خوبصورت تعلیم سے پہلے آگاہ نہیں کیا۔پس ہراحمدی کوبغیر احساس کمتری اسلام اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کاتعارف کرواناچاہئے۔صرف پمفلٹ تقسیم کرنا مقصد پورا نہیں کرتا۔ لوگوں کوابھی بھی مذہب کی باتیں سننے میں دلچسپی ہے۔
ہمیں ہرجگہ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔کمزوریوں پرتوجہ کرنی چاہئے۔بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہئے۔دعاکرکےاور اللہ تعالیٰ سے مددمانگتے ہوئے کام کا آغازکریں۔انتظامیہ اور شاملین کو ہمیشہ جلسہ کے مقصدکو پوراکرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اورآئندہ سب کو بہتر رنگ میں جلسے کے مقصد کو پوراکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭